counter easy hit

مجلہ ’’ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن‘‘

ماہنامہ ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن ایک منفرد مجلہ ہے جس میں زندگی کے اور موجودہ پاکستانی معاشرے کے دو اہم ترین لیکن ’’تشنہ‘‘ پہلوؤں پر بات کی جاتی ہے کیونکہ اب تو یہ بات صاف صاف کھل چکی ہے کہ اگر کسی نے خود اپنے لیے کچھ کیا تو کیا ورنہ حکومت سے توقع رکھنا عبث ہے کہ وہاں صرف بڑی بڑی عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں ان میں بڑی بڑی کھوپڑیاں بڑی بڑی تنخواہیں لے کر فنڈز اور بجٹ ٹھکانے لگانے کا کام نہایت تندہی سے کرتی ہیں لیکن کھولو تو بیج میں سے صرف بندگوبھی نکلے گی یعنی یہ جو ڈھول ہے باہر سے گول ہے لیکن اندر سے دیکھو تو بالکل پولم پول ہے۔ بہت پرانی بات سے شاید دنیا کے کسی دور دراز کونے میں اب بھی ایسا ہی ہو کہ حکومتیں چار فرائض مکمل طور پر ادا کرتی تھیں۔ امن و حفاظت، صحت، تعلیم اور روز گار اور انھی کاموں کے لیے حکومت کا وجود ہوتا تھا وہ ٹیکسز لیتی تھیں۔

لیکن پاکستان میں حکومت کی یہ قسم نہ کبھی آئی ہے نہ مروج ہوئی ہے اور نہ کسی نے دیکھی ہے وہ ٹیکس بھی لیتی ہیں بلکہ طرح طرح کے دہرے تہرے کر کے لیتی ہیں جہاں کہیں موقع ملے تو غنڈہ ٹیکس بھی لے لیتی ہیں اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ چھینتی ہیں اور عوام کو گروی رکھ کر سودی قرضے بھی لیتی ہیں لیکن بدلے میں ان چار فرائض میں سے کوئی بھی ادا نہیں کرتیں۔ جہاں تک جان و مال اور عزت کا سوال ہے تو اگر کسی میں دم ہے اور اس نے خود کر لی ورنہ کھلے عام لٹ جاتے ہیں بلکہ دہرے لٹ جاتے ہیں کیونکہ جو برائے نام ادارے بنے ہیں وہ بھی تو یہی کام کرتے ہیں۔صحت کا یہ حال ہے کہ ’’مشو رہ‘‘ بھی ہزاروں روپے خرچ کرکے ہی لیا جا سکتا ہے باقی کسی چیز کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے بڑے بڑے اسپتال بھی ہیں شفا خانے بھی ہیں اور فنڈز اور بجٹ بھی ہیں خوشخبریاں بھی ہیں بیانات بھی ہیں صحت کارڈز بھی ہیں صحت لارڈز (وارلارڈز کی طرز پر) بھی ہیں ۔۔ لیکن ۔۔ اور تعلیم

قصہ بہت ہی طولانی ہے اور ہر کسی کے سامنے بھی ہے اس لیے بات کرنا تحصیل لاحاصل کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے میں خود عوام کو ہی کچھ کرنا پڑتا ہے او یہ بہت ہی شکر کا مقام اور خوش قسمتی ہے کہ باوجود ہزار ہا خرابیوں کے ہمارے معاشرے میں اہل خیر و اہل درد کی کمی نہیں ہے یہاں تک کے ایدھی جیسے لوگ بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو مال کے ساتھ اپنی جان بھی اس کام میں خرچ کر ڈالتے ہیں۔

بنیادی طور پر ہم مخیر قسم کے اداروں کے سخت خلاف ہیں کیونکہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ مخیر ادارے ایک طرح سے غلط اور غاصب بد عنوان حکومتوں کو سہارا دیتی ہیں کہ جو کام حکومت کا ہے وہ یہ لوگ کرتے ہیں اس لیے حکومت اور بھی شیر ہو کر عوام کے وہ حقوق ہڑپ کرتی ہے جو اس کے ذمے ہوتے ہیں ورنہ جو اصل اور فرض شناس حکومتیں ہوتی ہیں وہاں پرائیویٹ سطح پر مخیر اداروں کی ضرورت ہی کیوں پڑے۔ اصل ذمے دار جب اپنی ذمے داری پوری نہیں کرتے تو لامحالہ مخیر ادارے وجود میں آجاتے ہیں کیونکہ ’’کام‘‘ کسی نہ کسی کو تو کرنا ہی ہو گا۔

ایک پشتو کہاوت کے مطابق گائے اگر گوالا نہ پالے تو مالک کو تو پالنا پڑتی ہے کہ اس کی اپنی ہے چنانچہ یہ اہل درد ہر معاشرے کے لیے غنیمت ہوتے ہیں۔ ماہنامہ ’’ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن‘‘ بھی ہمیں ایک ایسی ہی کوشش لگتی ہے کہ دونوں ہی محرومیت کا شکار شعبے اس نے اپنے لیے چن لیے ہیں۔جو شمارہ اس وقت ہمارے سامنے ہے اس میں ان دونوں موضوعات پر بڑے سیر حاصل مضامین ہیں خاص طور پر چند تو بہت ہی چونکانے دینے والے ہیں جیسے ’’اسپتال یا موت بانٹنے والی فیکٹریاں‘‘ یا انرجی ٹریٹمنٹ شوگر کا کامیاب ترین علاج۔ گڑ کے فوائد استاد جو شاگردوں کے خوابوں میں رنگ بھرتے ہیں۔

طلبا و طالبات میں منشیات کا بڑھتا ہوا رحجان۔ عطیہ خون کے فوائد مجلے کے پیٹرن انچیف پروفیسر عارف ریاض ہیں جوشوگر اسپیشلسٹ ہیں اور چیف ایڈیٹر افتخار احمد سندھو ہیں جو ایک اور نہایت ہی اہم مجلے کسان ورلڈ کے بھی ایڈیٹر ہیں اس طرح گویا اس سندھو خاندان نے ہمارے معاشرے کے نہایت اہم تین پہلوؤں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے زراعت، صحت اور تعلیم جو درحقیقت ہم سب کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیے کیونکہ تینوں کا نہ صرف آپس میں گہرا تعلق ہے بلکہ تینوں ہی ہمارے معاشرے کے بنیادی ستون ہیں جو بدقسمتی سے ہماری حکومتوں،لیڈروں اور کرتا دھرتاؤں کی توجہ سے یکسر محروم ہیں ورنہ ان تین موضوعات پر ایسے مجلے متعلقہ محکموں کا فرض ہے، مجلہ ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن لغوی لحاظ سے تو قیمتی ہے ہی لیکن صوری لحاظ سے بھی بہترین ہے خوبصورت آرٹ پیپر پر چھپنے والا مجلہ پڑھنے والوں کی توجہ کھینچ لیتا ہے۔

ایک مرتبہ پھر عرض کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اس وقت ایک ایسی ناہموار صورت حال سے دو چار ہے کہ حکومتوں اور کرتا دھرتاؤں کو تو اپنی بے راہرویوں سے ذرا بھر بھی فرصت نہیں ہے ایک عجیب سی افراتفری اور بے منزلی اور بے مہاری کا طوفان ہے جو ہر ہر سطح پر مچا ہوا ہے اس لیے خود عوام ہی کو آگے بڑھ کر اپنے لیے کچھ کرنا ہو گا ورنہ گوالا تو اپنی طرف سے ’’گائے ‘‘ کو مار ہی چکا ہے ۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website