counter easy hit

”محبت حسن کامل ہے“ اور جمشید ترین

عزتوں اور محبتوں کے قابل کرنل جمشید ترین نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا اٹوٹ انگ تھے۔ وہ بہت مہربان آدمی تھے ۔ وہ دھیمے سروں میں ہنستے تو روشنی پھیل جاتی تھی وہ بڑھاپے میں اور بھی خوبصورت ہو گئے تھے ۔ میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں برادرم شاہد رشید کے کمرے میں جاتا اور ساتھ والے کمرے میں ترین صاحب کے پاس ضرور حاضر ہوتا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکراتے کبھی ایسا نہ ہوا کہ میں سامنے آیا ہوں اور وہ مسکرائے نہ ہوں۔ وہ مکمل طور پر عاشق رسول تھے۔ میرے آقا و مولا رسول کریم حضرت محمد کبھی نہ ہنسے تھے ۔ صرف ایک بار اسقدر بے ساختہ مسکرائے کہ ان کے مسوڑھے بھی کچھ کچھ نظر آئے ۔ ایک آدمی حاضر ہوا کہ مجھ سے گناہ ہو گیا ہے۔ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے میں کیا کروں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کس گناہ کی بات کر رہا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ ساٹھ روز روزے رکھو،کفارہ ادا ہو جائے گا۔اس نے کہا کہ ایک روزے میں میرا یہ حال ہوا ہے ساٹھ روزے رکھوں حضور کریم کی مسکراہٹ کچھ پھیل گئی۔ آپ نے فرمایا کہ ساٹھ مستحق لوگوں کو کھانا کھلاﺅ۔ اس نے عرض کیا کہ میرے اپنے پاس کھانے کو کچھ نہیں، میں ساٹھ آدمیوں کو کہاں سے کھانا کھلاﺅں، آپ کی مسکراہٹ کھل کھل گئی۔ مسکراہٹ کی کھلکلاہٹ کا گماں گزرا،آپ نے فرمایا، اچھا تم شہر میں جاﺅ اور جو کچھ کما کر لا سکتے ہو میرے پاس لے آﺅ وہ شام ڈھلے کچھ پیسے لے کر آ گیا۔ آپ نے فرمایا جاﺅ اور مستحق لوگوں میں پیسے تقسم کر دو، وہ بھی پہلی بار مسکرایا اور کہا۔ مجھے رب محمد کی قسم پوری بستی میں مجھ سے زیادہ مستحق کوئی نہیں ہے۔ آپ کھل کر مسکرائے کہ آپ کے مسوڑھے بھی نظر آئے۔ آپ نے فرمایا۔ یہ سب کچھ تم خود کھا لو اور اپنے بچوں کو کھلاﺅ۔ تمہارا کفارہ ادا ہو گیا۔
شوکت ترین نے وزارت چھوڑ دی، یہ بہت بڑی سیاسی معرکہ آرائی تھی اور شوکت ترین سیاستدان نہ تھے۔ عظمت ترین بھی ایک بہت بڑی سماجی شخصیت ہیں۔ دونوں بیٹوں سے جمشید ترین بے تحاشا محبت کرتے تھے ۔ دونوں نے اپنے عظیم والد کی بہت خدمت کی میں نے کالم لکھا جمشید ترین بہت خوش ہوئے۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں تک بڑی باقاعدگی سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ آتے رہے، وہ نظریہ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئر مین تھے ۔
مرشد و محبوب مجید نظامی ان کے ساتھ بہت دوستی رکھتے تھے اور ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ ترین صاحب بھی نظامی صاحب سے وابستگی رکھتے تھے ۔ وہ شاہد رشید کے کمرے میں آتے تھے اور جمشید ترین سے بھی ملتے ۔ اب اس کمرے میں چیف جسٹس ریٹائرڈ جسٹس محبوب احمد اور فاروق الطاف بیٹھتے ہیں۔
جمشید ترین کی پہلی برسی پر نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام برادرم شاہد رشید نے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ صدارت صدر محمد رفیق تارڑ نے کی۔ یہاں دونوں خوبصورت بھائیوں شوکت ترین اور عظمت ترین نے شرکت کی چیف جسٹس محبوب احمد ڈاکٹر رفیق احمد پیر سید احمد ثقلین حیدر چورہ شریف، فاروق الطاف ڈاکٹر پروین خان صفیہ اسحاق نائیلہ عمر، یاسین وٹو بیگم مہناز رفیع اور کئی خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ صدر تارڑ صاحب کی یادداشت جناتی ہے۔ انہیں ہزاروں اشعار یاد ہیں۔ اچھے اشعار کا ایک خزانہ ان کے دل میںمحفوظ ہے۔ انہوں نے صدارتی گفتگو میں برمحل یہ شعر پڑھا جو میرے دل میں بھی تھا۔
دے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
جمشید ترین معصوم آدمی تھے مگر وہ بچوں کی طرح بے باک تھے۔ کوئی بھی بات منہ پر کر دیتے تھے دلنواز اور دلیر بھی تھے۔ وہ سرائیکی بہت خوبصورتی سے بولتے تھے وہ جمال ہی جمال تھے۔ جس کا پرہ ایک مانوس قسم کا جلال دیتا ہے۔ ان سے بے تکلفی کا کبھی کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ آج بھی میں نے ان کے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ مجھے کیا نظر آیا۔ ابھی نہیں بتاﺅں گا۔
آج ہی اسلام آباد کی معروف اور خوبصورت شاعرہ شازیہ اکبر میرے گھر پر تشریف لائیں۔ ان کے ساتھ ایک قد آور سہیلی بھی تھیں۔ وہ بہت سنجیدہ مگر شائستہ خاتون تھیں۔ دونوں اپنے ساتھ اسلام آباد راولپنڈی کی سردی بھی لے کے آئی تھیں۔ مگر انہوں نے چاہے نہیں پی۔ شازیہ نے مجھے اپنا تازہ شعری مجموعہ ”محبت حسن کامل ہے“ عطا کیا یہ ایک بہت شاندار مجموعہ ہے یہ نظمیں ہیں۔ اس سے پہلے ان کی غزلوں کا مجموعہ 2011ءمیں شائع ہوا تھا۔ جس کیلئے برادرم عطاءالحق قاسمی نے لکھاکہ ”شازیہ اکبر کی شاعری نے مجھے خوشگوار حیرانی میں مبتلا کیا ہے“۔ اب یہ دوسرا مجموعہ انہیں خوشگوار پریشانی میں نہ مبتلا کر دے بہت اچھی بات عطا نے لکھی ہے کہ ”اردو شاعری میں ایسا بے باک کھرا اور سہل انداز خال خال ہی دیکھتے کو ملتا ہے۔ میں اس باہمت شاعرہ کے روشن مستقبل کی گواہی دیتا ہوں۔ ”میں عطاءالحق قاسمی کی اس گواہی کی سچائی کی گواہی دیتا ہوں“ شازیہ اکبر جس اعتماد اور سلیقے اور آسودگی سے لکھتی ہیں یہی اسلوب ان کی شاعری کو محبوب بناتا ہے۔
آخر میں شازیہ اکبر کے شعری مجموعہ ”محبت حسن کامل ہے“ میں سے ایک نظم
”اے صبح کے ستارو“
اے صبح کے ستارو
کبھی وہ سحر بھی لاﺅ
کہ جہاں شفق کی سرخی
لہو رنگ سے نہ پھوٹے
کہ جہاں چمن کا مالی
کبھی گلستاں نہ لُوٹے
میرا کاسہ¿ گدائی
میری بے خودی سے ٹوٹے

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website