counter easy hit

آداب بادشاہی

Muslims

Muslims

تحریر:مسز جمشید خاکوانی

شہزادہ عبدالرحمن ‘ عبدالرحمان اول کے نام سے 756ء میں تخت اسپین پر بیٹھا۔ملک میں بغاوتیں اور شورشیں بہت تھیںاس لیئے ایک سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ فساد وشورش کے فرو کرنے میں صرف ہو گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ امیر عبدالرحمن کا چچا زاد بھائی عبدالملک فوج کا سپہ سالار تھا ۔اس نے اپنے ایک فرزند قاسم کو جو لائق و فائق اور حسین و جمیل تھا ایک حصہ فوج کا افسر مقرر کر کے دشمن کے مقابلہ پر بھیجا وہ گیا لیکن دشمن کی جرار فوج سے خوف کھا کر واپس آ گیا۔عبدالملک کو بیٹے کی اس حرکت پر سخت طیش آیا اور کہا تو نے مسلمانوں کا نام ڈبو دیا ۔یہاں آنے سے وہاں مر جانا بہتر تھا۔ اے نامرد تو مردان کی نسل سے نہیں ہے یہ کہا اور اس کو نیزہ کھینچ مارا جس سے وہ ہلاک ہو گیا اور حکم دیا اس کی لاش کو سامنے سے ہٹا دیا جائے ۔چنانچہ اس کے بعد وہ خود مقابلے پہ گیا اور فتح یاب ہو کر واپس لوٹا ۔اس واقعہ سے تمام سرکش عیسائی اور خود سر مسلمان گروہ سیدھے ہو گئے ۔

عبدالرحمن کے بعد ہاشم بعمر 33 سال مسند نشین ہوا اس بادشاہ نے علماء و اطبا کی دستگیری کی عربی مدارس ملک میں جاری کیئے ،تمام ملک میں تعلیم مفت کر دی ،اور اس کا سارا خرچ خزانہ پہ ڈالا 796ء میں اس نے وفات پائی مرنے سے قبل اس نے اپنے بیٹے الحکم کو بلایا جو اس وقت 22 سالہ نوجوان تھا اس سے کہا اے فرزند! سلطنت اور حکومت کا مالک اللہ تعالےٰ ہے وہ جب چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے جب چاہتا ہے چھین لیتا ہے ۔جب تو اس عطیائے ربانی سے فیضیاب ہو تو اس کی اس نعمت کا شکر ادا کرو ۔اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ نیکی کرو خصوصاً ان کے ساتھ جو ہماری حفاظت میں ہوں ،امیر اور غریب کے ساتھ برابر عدل کر ،ظلم روا نہ رکھ کہ ظلم تباہی کا پیش خیمہ ہے

اپنی رعایا پہ مہربان رہ اور حکومت صرف ان لوگوں کو عطا کر جو کہ صفات پسندیدہ رکھتے ہوں ایسے وزرا اور عمال حکومت کو بے رحمی سے سزا دے جو رعایا پر سختی کریں ،اور محصولات (ٹیکس) کی زیادتی سے رعایا کو ہمیشہ تباہ حال رکھیں ۔جب تو فوج کشی پر مجبور ہو تو یاد رکھ ہمارا لشکر محافظ ملک ہو ‘جو وعدہ ہو پورا ہوکام نکالنے اور ٹال دینے کے لیئے نہ ہو ‘ رعایا کی محبت ملک کی حفاظت ہے اور رعایا کی ناراضگی اور حقارت سلطنت کے زوال کا باعث ہوتی ہے ۔رعایا میں سب سے خبر گیری کے قابل کاشتکار ہوتے ہیں یہ وہ محنتی اور جفا کش لوگ ہیں جو ہماری روزی کے لیئے زمین سے غلہ نکالتے ہیں اور ہم اپنے محلوں میں بیٹھ کر رام سے کھاتے ہیں

ان کے باغات ان کی زراعت اور انکی ہر قسم کی پیداوار کو پامالی سے بچانا حکمران کا فرض ہوتا ہے اس نے کہا اے فرزند!اگر میری باتوں پر عمل کرو گے تو رعایا بھی خوش حال اور آباد رہے گی اور تمھارا شمار بھی روئے زمین کے نامور بادشاہوں میں ہو گا ۔جب میں اپنے موجودہ حکمرانوں کے چال چلن دیکھتی ہوں اور انکی مذمت میں لوگوں کے تبصرے پڑھتی ہوں ،لوگوں کی اپنی قوم سے بیزاری اور نظام سے نفرت دیکھتی ہوں ،دوسری قوموں کے کارنامے اور قصیدے پڑھتی ہوں تو مجھے شدید رنج ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کیا نہیں تھا اور کیا نہیں ہے؟ہمارے پاس ایک شاندار ماضی ہے عالی شان روایات کے حامل تھے ہم ۔۔۔لیکن اب ہم صرف ایک بکنے والی قوم کے نام سے مشہور ہیں صرف اس لیئے کہ ہم نے اپنا مستقبل کاروباری لوگوں کے ہا تھ میں دے دیا ہے

یہ تو ہونا تھا کیونکہ کاروبار میں کچھ اصول ضرور ہوتے ہیں مگر گھاٹے کا سودا کوئی نہیں کرتا ،جبکہ یہاں اب اصولوں کو بھی ایک طرف رکھ دیا گیا ہے مال گھٹیا سے گھٹیا ہوتا جا رہا ہے اور دام مسلسل بڑھ رہے ہیں ۔ہر ڈسپوز ا یبل آئٹم اس ملک میں رواج پا رہا ہے چائنا جیسا دوست ملک ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتا لیکن ایک سے لیکر بیس کیٹگری تک کی چیزیں وہ بناتے ہیں جن میں سے سب سے لو کوالٹی چیز ہمارے ملک میں تی ہے کیونکہ ہمارے ارباب اختیار کو اپنی عوام کے فائدے نقصان کی کوئی پرواہ نہیں پہلے اٹلی یا جاپان کی مشینری تی تھی جو آج تک چل رہی ہیں لیکن اب مشینری دو ماہ بھی مشکل سے نکالتی ہے ،کوئی کلیم نہیں کر سکتا کیونکہ چائنا کا مال ہے

چلے تو سالہا سال نہ چلے تو ایک ماہ بھی ،کئی کئی منزلہ پلازے کھڑے ہو رہے ہیں لوگ مال ڈال کر گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں مگر مجبور لوگ خرید نہیں سکتے ان میں قوت خرید نہیں جو خریدنے کے قابل ہیں وہ اکثر معذور ہیں میں نے لاہور کے ایک مشہور سٹور میں دیکھا ایک ماں اور اس کا بیٹا جو ذہنی معذور تھا وہ ماں سے کہتا ماما مجھے ہر چیز لے دو جس پہ ہاتھ رکھوں ،اب کبھی وہ لکڑی سے بنے منقش بکس پہ ہاتھ رکھ دیتا کبھی چابی سے چلنے والے کھلونے پر وہ جوان لڑکا کبھی پیڈلوں سے چلنے والی بچوں کی کار پہ چڑھ بیٹھتا اسکی ماں کہتی تم اس کا کیا کرو گے؟ وہ بچوں کی طرح ٹھنک کر کہتا بس مجھے یہ چاہیئے سو وہ جو کہتا رہا ماں خریدتی رہی ،وہاں پر آئے ہوئے بچے کچھ اس کو حیرت سے اور کچھ حسرت سے دیکھ رہے تھے ۔بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنے وزیروں مشیروں کو دیکھ رہے ہیں کہ آخر یہ اتنی دولت کا کریں گے کیا ؟؟؟

سینٹ کے ووٹوں کی خریدو فروخت جاری ہے ،کروڑوں روپوں کی آفرز کے ساتھ ساتھ وزارتیں بھی ملنے کی شرط ہے ۔اس دھندے میں امیر مزید امیر ہو رہے ہیں اور غریب مزید غریب ۔۔۔سنا ہے اب پیٹرول بھی کمپنیوں اور ڈیلروں کی صوابدید پہ چھوڑا جا رہا ہے ان کو اختیار ہوگا جتنا مرضی ریٹ بڑھائیں بس ان تک کمیشن پہنچتا رہے گا۔ چیک اینڈ بیلنس بالکل ختم ہو چکا ہے ۔اب لوگ چیز بیچنے کے لیئے قیمت بڑھانے کی بجائے چیز کی مقدار یا میعار ختم کر دیتے ہیں ،کبھی آپ گن کے دیکھیں ٹشو پیپر پورے سو ہوتے ہیں دوائیوں کی سیل بند ڈبیوں میں سے پچاس کی بجائے پینتیس گولیاں نکلتی ہیں ،چپس اور سنیکس کے پیکٹ آدھے خالی ہوتے ہیں ،بسکٹوں کا ذائقہ بھول چکا ہے ایکسپائر آئل ڈبے بدل بدل کے ملتا ہے ۔صابن کا ریپر اتنا مگر ٹکیہ وزن کھو چکی ہے پہلے ہر چیز کا ریپر کے اوپر ریٹ اور ویٹ لکھا ہوتا تھا اب کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ۔یہ تو وہ چیزیں ہیں

جن کو روزمرہ خریداری میں شامل سمجھا جاتا ہے ،آج کراچی والے پانی کو ترستے روڈوں پہ نکل آئے جبکہ منرل واٹر انسانی زندگیوں کے لیئے خطرہ بن چکا ہے انتہائی گھٹیا میٹیریل سے تیار شدہ بوتلوں میں پھپھوندی لگا پانی پچاس سے ساٹھ روپے تک جا پہنچا ہے جسے لوگ امیروں کی عیاشی سمجھتے ہیں جعلی دوائیاں جعلی انجکشن ،وہ بھی مہنگے داموں خرید کر مریض کی لاش واپس لائی جاتی ہے ۔لیکن کچھ لوگ اس دھندے میں بھی کروڑوں کما رہے ہیں۔

زراعت ہمارے ملک کی فائدے کی چیز تھی آپ ایک فصل اگا کر سینکڑوں لوگوں کا پیٹ پالتے ہو مگر ایک پلازہ کھڑا کر کے آپ سینکڑوں لوگوں کا استحصال کرتے ہو چیزیں آپ کا پیٹ نہیں بھر سکتیں حسرتوں سے آپ کا دامن ضرور بھر سکتی ہیں ۔اسی طرح لینڈ مافیا سر گرم ہے لوگ اپنے مکان گرا کر پلازے بنا رہے ہیں کیونکہ ان کو اچھی قیمت کی آفر ہوتی ہے وہ سوچے سمجھے بنا کہ لینے والا کہاں سے اُٹھ کے آیا ہے زمیں بیچ دیتے ہیں بعد میں پتہ چلتا ہے ہمارے ساتھ تو ہاتھ ہو گیا۔

کسان کو ہر طرف سے اتنے دھکے پڑے ہیں کہ وہ بھی اب زمین بیچنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں شوگر ملوں والے جس طرح کماد کے کاشتکاروں کو کھسوٹ رہے ہیں اس سے کسانوں کی بہت حوصلہ شکنی ہوئی ہے اپوزیشن اور حکومت میں بیٹھا شوگر مافیا کتنی بد دعائیں سمیٹے گا یقین کریں اللہ اتنی دولت اکھٹی کرنے والوں سے سکون چھین لیتا ہے۔ زرا پوچھیں ان سے کتنا ثواب کمایا ہے ؟خوشحالی ہر ایک کو اچھی لگتی ہے غربت کوئی نہیں چاہتا مگر اعتدال کی حد میں رہ کر ،انصاف کی چھائوں میں بادشاہی پنپتی ہے کمزوروں پہ ظلم سے نہیں ۔اور سب سے بڑا ظلم یہ ہے جب لوگ نا انصافی کی وجہ سے جرم پر مجبور ہوں ،اور نا انصافی یہ ہے کہ ملزم اور مجرم بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں جس کی وجہ سے لوگ نا امید ہو رہے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے کسی کو انصاف نہیں مل سکتا ۔کیونکہ ان کے آگے ثبوت رکھے جائیں تو وہ کہتے ہیں پہلے یہ بتائو ثبوت فراہم کس نے کیئے ہیں ؟تاکہ پہلے اسے ٹانگا جائے۔

میں نے ہمیشہ خود کو پاکستانی سمجھا کسی تعصب میں نہیں پڑی نہ زبان نہ مکان ،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا کہ ہمارے ارباب اختیار اپنے اعمال کی وجہ سے لوگوں کو مسلسل تقسیم کر رہے ہیں خوشامدیوں کو نوازنے کی بیماری شاہی حکمرانوں کی عادت ہوتی ہے جمہوریت کی نہیں مگر ہمارے سیاست دانوں نے اسے بھی آداب شاہی میں شامل کر لیا ہے کہ ناپسندیدہ علاقوں کی تعمیر و ترقی سے یکسر آنکھیں بند کر لو بلکہ انکے وسائل بھی لوٹ لو یہی ہمارے علاقوں کے ساتھ ہو رہا ہے کہ ادھر نمائندگی کا بھی قحط پڑ گیا ہے بس جو ہاں میں ہاں ملائے اسکو انفرادی اہمیت دی جاتی ہے علاقے کی نمائندگی نہیں ۔جس کی وجہ سے احساس محرومی بڑھ رہا ہے !

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر:مسز جمشید خاکوانی