counter easy hit

جھوٹ کا عالمی دن۔۔۔۔۔۔ اپریل فول سے بچئے

April Fool

April Fool

تحریر: مولوی محمد صدیق مدنی۔ چمن
اپریل فول دوسروں کیساتھ عملی مذاق کرنے اور بے وقوف بنانے کا غیراسلامی تہوار ہے۔ اسکا خاص دن اپریل کی پہلی تاریخ ہے۔ یہ یورپ سے شروع ہوا اور اب ساری دنیا میں شہرت پیدا کی ہے۔ اپریل پول 1508 سے 1539 تک صرف یورپ میں منایا جاتا تھا اور اٹھارویں صدی میں برطانیہ میں منانے لگے اور اب چند سالوں سے پورے دنیا میں لوگ اسے منانے لگے ہیں۔ ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کو معرضِ وجودمیںآئے نصب صدی سے زائد کا عرصہ گزرچکاہے اور یہ کمال صرف پاکستان قوم کو ہی حاصل ہے کہ اِس عرصے میں ہماری قوم اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور قومی اداروں کے سربراہان کے حوالوں سے مسلسل بولے جانے والے جھوٹ ( جھوٹے وعدوں اور جھوٹے دعووں )کی وجہ سے فُول بنتی آئی ہے اَب ایسی قوم جو اپنے قیا م سے لے کر اَب تک روزانہ ہی کسی نہ کسی حوالے سے فول بننے میں کمال کی مہارت رکھتی ہے۔

ایسی اِپنی قوم سے متعلق راقم الحرف کا خام خیال یہ ہے کہ ہماری قوم جو پچھلے 68سالوںسے فُول بنتی آئی ہے کیاابھی اِسے کسی اَپریل فُول کی کیا ضرورت ہے… ؟جو صرف ایک دن کے لئے ہی فُول بنانے کے لئے مختص کیا گیاہو، ارے ..!میرے بھائی ہماری پاکستانی قوم توگزشتہ 68سالوں میں جس طرح فول بنی ہے یہ اِس کا ہی ظرفِ عظیم ہے اور یار..!یہ اِس کی ہی ہمت ہے کہ یہ پلے درجے کی فُول قوم ہوکر بھی ابھی تیار ہے کہ چنددِنوں بعد جو اپنے پرائے اور سب سے جھوٹ بول کر فُول بنانے کے لئے یکم اپریل المعروف اپریل فُول یا جھوٹ بولنے اور ہولناکی پھیلانے کا عالمی دن آرہاہے اِس میں بھی اپنے جھوٹے حکمرانوں، سیاستدانوں اور دیگر اشخاص کی جانب سے بولے جانے والے کسی جھوٹ پر پھر فُول بنے گی۔اَب ایسے میں ہم کیا یہ سمجھ لیں کہ یکم اپریل ہو یا سال کے 365دن روزفُول بننامجھ سمیت میری قوم کا مقدر بن کررہ گیاہے۔

بہرکیف ..!یہاں ہمیں یہ ایک بات اچھی طرح ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ بحیثیت مسلمان ہمارایہ ایمان ہے کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت برستی ہے، مگر یہ جانتے ہوئے بھی کہ جھوٹ بولنا عذابِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے افسوس ہے کہ جیسے ہم دیدہ ودانستہ جھوٹبول کر اللہ کے عذاب کو چیلنج کررہے ہیں،اوراَب کیا یہ کسی عذاب سے کم ہے …؟کہ اللہ نصب صدی سے ہم پر ایسے حاکم مسلط کررہاہے جو کہ اپنی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی کے باعث کسی بھی لحاظ سے کسی عذاب سے کم نہیں ہیں، آج اگرقوم کو ایسے حکمرانوں سے جھٹکارہ چاہئے تو اِس پر یہ لازم آتاہے کہ یہ مُلک میں اگلے برسوں میں ہونے والے انتخابات سے قبل دیدہ ودانستہ جھوٹ بولنے اور جھوٹے وعدے اور دعوے کرنے والے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور قومی اداروں کے جھوٹے سربراہان کے پیچھے دُم ہلاکرچلنے سے توبہ کرلے تو پھر قوم خُود یہ دیکھ لے گی کہ اِس پر اللہ ربِ کائنات اپنی اگلے انتخابات میں کیسی مددکرتاہے اورپھر قوم کوخُود نظر آجائے گاکہ اللہ اِس پر اِس کی مرضی کے مطابق اچھے نیک وصالح اور سچے وعدے اور سچے دعوے کرنے والے حکمران مسلط کردے گامگر اِس کے لئے شرط صرف یہ ہے کہ قوم اپنا احتساب کرے اور یکم اپریل المعروف اپریل فُول توکیا سال کے 365دن فخریہ اندازسے جھوٹ بولنا چھوڑدے اور سچ بولناشروع کردے تو پھر اِسے ہر حال میں اللہ کی مدد سے وہ سب کچھ حاصل ہوجائے گایہ جس کے لئے نصب صدی سے منتظرہے اور کیا یہی اچھا نہیں ہوگاکہ اِس کے نہ جھوٹ بولنے اللہ اِس پر حقیقی معنوں میں نیک اور متقی پرہیزگارحاکم مسلط کردے جو موجودہ تمام مسائل سے جھٹکارے کا باعث بنے ۔

مندرجہ بالاساری باتوں کے علاوہ میں یہاں اپنے معاشرے سے تعلق رکھنے والے ایک فرد قمرالزماں کے ساتھ بیس سال قبل یکم اپریل یعنی اپریل فُول پر پیش آئے اُس واقعہ کا تذکرہ کرنابھی ضروری سمجھتاہوں جس کے ایک جھوٹ نے اِس کی محبت کرنے والی بیوی کائنات جہاں اور اس کی تین بیٹیوں اور اِس کے چند گھنٹوں کے نومولود بیٹے احمد زماں سے اِن کی شفیق ماں چھین لی تھی آج تک جس کا پچھتاوا قمر الزماںکو ہے اور اَب قمرالزماں کا یہ حال ہے کہ جب سے اِس کی زندگی میں یکم اپریل یا اپریل فُول کا دن آتاہے تو اِس کی نظروں میں وہ سارے مناظر گھوم جاتے ہیں جواِس کی زندگی میں بیس سال پہلے قیامت بن کر آئے تھے،بقول قمرالزماں واقعہ کچھ یوںہے کہ اس کے ماموںکی بڑی بیٹی جس کانام کائنات جہاں تھااِس کے ساتھ اِ س کی شادی ہوئی یہ اِس سے دوسال چھوٹی تھی مگر خوبصورت تھی یوں دونوں کے والدین کی مرضی سے شادی ہوگئی۔

شادی کے پہلے سال قمرالزماں ایک بیٹی کا باپ بن گیا، مگر اِسے بیٹے کی شدد سے خواہش تھی دوسال بعد بیٹے کے چکر میں پھر بیٹی پیداہوگئی ، یوں بیٹے کی خواہش اور تڑپی اور پھر کوشش کی ایک اور بیٹی پیداہوگئی ،جب اُوپر تلے تین بیٹیاں ایک ساتھ پیدا ہو گئیں تواِس نے اپنی بیوی کائنات جہاں کو سخت لہجے میں وارننگ د ے دی کہ اگر اِس مرتبہ بیٹاپیدانہ ہواتووہ اِسے اسپتال ہی میں طلاق دے دے گا، یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ہمارے یہاں میڈیکل میں بالخصوص مدرشغم میں پتہ لگانے والی یہ ٹیکنالوجی کہ حاملہ عورت کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ لڑکی ہے یا لڑکا یہ اتنی عام نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ایساکچھ تھاکہ الٹراساونڈ وغیرہ ہوتاتھابس ایک عام ساہی قدیم پیدایشی طریقہ رائج تھا،بہرحال ..!قصہ مختصر یہ کہ جس روزقمرالزماں کے چوتھے بچے کی پیدائشی اُس روزقمرالزماں صبح ہی سے اسپتال میں موجود تھااور اِس کا چوتھابچہ سیزر(یعنی کہ بڑے آپریشن سے ہوا تھا اس کی بیوی کو ہوش نہیں آیاتھااسے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ آج اِس کے وجود سے جس جو بچے نے جنم لیا ہے وہ لڑکاہی کہ لڑکی….؟۔

مگرچوں کہ پیدائش ضروری تھی اِس لئے کائنات جہاں کو اِس عمل سے بھی ضرور گزرنا تھااور وہ گزر گئی تھی) آج کائنات جہاں نے بیٹا جنم دے کر اپنی کائنات مکمل کرلی تھی ابھی کائنات جہاں عالمِ بے ہوشی ہی میں تھی کہ دوسری طرف لیبرروم سے باہر کوری ڈورمیں قمر الزماں اور اِس کی چھوٹی تینوں بیٹیوں اور اِس کے تمام گھروالوں سمیت اِس کے سُسرالی بھی بہت خوش تھے اِسی دوران قمرالزماں کو ایک اچھوتاآئیڈیاآیااور اِس نے سوچاکہ کیوں نہ یہ اپنی بیوی کائنات جہاں سے کوئی ایسامذاق کرلے جو ساری زندگی کے لئے یادگاربن جائے اور آج تو ویسے بھی یکم اپریل ہے اور اپریل فُول ہے چلو اچھا موقعہ ہے آج اِس خوشی کے موقعہ پر اپنی بیوی کائنات جہاں سے ہی مذاق کر کے اپریل فُول بنایاجائے اور اِس نے اپنی اِس اپریل فول والی پلاننگ میں سب کو شامل کیا اور سب کو بتادیاکہ کائنات جہاں کو جب ہوش آئے گاتووہ سب سے پہلے غصے میں اِس کے سامنے جائے گااور کہے گاکہ” کائنات اِس مرتبہ بھی تم نے چوتھی بیٹی پیداکردی ہے اور میں اپنے کہئے ہوئے پر قائم ہواور میں تمہیں آج اور ابھی اور اِسی وقت طلاق دیتاہوں ”کائنات جہاں کو جیسے ہی ہوش آیااور اِسے لیبر روم سے وارڈ میں شفٹ کیاگیاتو قمرالزماں نے اپنی پلاننگ کے مطابق ویساہی کیا۔

اور اِس نے اپنے سوچے ہوئے وہ سارے ہی جملے ہوبہو ” کائنات اِس مرتبہ بھی تم نے چوتھی بیٹی پیداکردی ہے اور میں اپنے کہئے ہوئے پر قائم ہواور میں تمہیں آج اور ابھی اور اِسی وقت طلاق دیتا ہوں ” کائنات جہاں کے سامنے اپنی گرجدار آواز میں انڈیل دیئے مگر قبل اِس کے کہ قمرالزماں اپنی صفائی میں مزیدکچھ اور کہتا کہ اتنا سننا ہی تھا کہ کائنات جہاں کو یہ سب کچھ سچ لگااور وہ یہ صدمہ برداشت نہ کرسکی اُسے آناَ فاناََ ہارٹ اٹیک ہوااور وہ پلک چھپکتے ہی اللہ کو پیاری ہوگئی ،چونکہ یہ ساری منصوبہ بندی خودقمرالزماں کی اپنی ہی کی ہوئی تھی آج تک اِس وجہ سے قمرالزماں خود کو قصور وار سمجھتاہے اور اَب جب بھی اِس کی زندگی میں یکم اپریل کا دن آتاہے وہ اپنی بیوی سے جدائی کے غم میں تڑپ ساجاتاہے اور آج اِس کے پاس سوائے پچھتاوے اور کفِ افسوس کے کچھ بھی نہیں ہے۔

سومیری قوم کے اِنسانوں تم خواہ میرے حکمران ہو یا سیاستدان یا پھر کسی ادارے کے سربراہ ہویا آج کفِ افسوس ملتے قمرالزماںجیسے عام شہری تمہیں قوم یا اپنے کسی بھی پیارے کے ساتھ جھوٹ بول کر یا جھوٹے وعدے یا جھوٹے دعوے کرکے ایسامذاق نہیں کرنا چاہئے کہ جس سے اِنسانوں کی دل آزاری ہواورسب کو ہاتھ سوائے پچھتاوے کے کچھ بھی نہ آئے۔ اپریل فول کے مذاق سے لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے۔ جو بسااوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اسکا اندازہ دو اپریل کے اخبارات سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے چمن میں میرا ایک دوست اور مدنی عطرمحل کے پروپرائیٹر مولانا قاری عبدالمالک صاحب نے راقم الحروف کو بتایا کہ چمن میں ہی ایک شخص کے مذاق سے معزز بزرگ اپنے ٹانگوں سے ہاتھ دھو بیٹا۔ مذاق ایسا کیا تھا کہ ایک شخص حنان نے ایک بزرگ کو فون کیا تھا کہ آپ کا بیٹا ایکسیڈنٹ کیا ہے اور ڈسٹرکٹ ہسپتال چمن میں پڑا ہے۔ وہ گھبرا کر جلدی سے دکان سے ہسپتال جانے لگا۔ لیکن وہ جلدی کی وجہ سے دکان کے سیڑھی میں گرگیا اور دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئے اور بعد میں پتہ چلا کہ ان کا بیٹا ایکسیڈنٹ نہیں بلکہ اپریل فول کے مذاق تھا۔ عرض یہ ہے کہ اس فعل قبیح سے خود بھی بچئے اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ اور حکومت وقت کو بھی اس پر پاپندی لگانے میں اپنا کرداراداکرنا چاہئے۔

Siddique Madani

Siddique Madani

تحریر: مولوی محمد صدیق مدنی۔ چمن