counter easy hit

ملک میں پانی کی قلت اور بھارتی ڈیم

Water Shortage

Water Shortage

تحریر : علی عمران شاہین
یادش بخیر، بھارت نے ایک بار پھر حسب معمول اور حسب توقع پاکستانی دریائے چناب پر اپنے ان چار ڈیموں کے نقشے اور ڈیزائن تبدیل کرنے سے انکار کر دیا ہے جو وہ وہاں بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی انڈس واٹر کمیشن نے بھارت کا خصوصی دورہ کیا تھا۔ بھارت نے پاکستانی وفد کو اپنے ہاں دورے کی تو اجازت دی لیکن پاکستانی حکام کی کوئی بات ماننے سے انکار کر دیا، یوںپاکستان کایہ مشن ناکام واپس آ گیا۔ مشن کی حسب توقع ناکام واپسی کے بعد پاکستانی انڈس واٹر کمشنر مرزا آصف بیگ نے کہا کہ چونکہ بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی سے کام لیا ہے، اس لئے وہ مجبوراً عالمی بنک کی طرف رجوع کریں گے (یاد رہے کہ عالمی بنک 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے جس کے تحت 6میں سے 3دریا چناب، جہلم اور سندھ پاکستان کو ملے تھے جبکہ 3دریا راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو دیئے گئے تھے)۔ بھارت نے اپنے حصے میں آنے والے دریائوں کا 100فیصد پانی اسی وقت ہی بند کر لیا تھا جسے وہ تقسیم ہند کے ساتھ پہلے سال سے ہی بند کر کے پاکستان کو تنگ کرتا رہتا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ وزیر پانی و بجلی جناب خواجہ آصف بھی کہہ اٹھے ہیں کہ پاکستان کا سب سے سنگین مسئلہ پانی کی ہر روزبڑھتی شدید قلت کا ہے اور یہ کہ وہ بھارت کو اپنا حق غصب نہیں کرنے دیں گے کہ وہ ہمارے دریائوں پر ڈیم بنا کر پانی روکے اور ہمیں بنجر و ویران کرے۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں کے پانی کو صرف اس حد تک استعمال کرنے کی بھی اجازت دی گئی تھی کہ وہ پانی کے بہائو کو روکے یا کم کئے بغیر (پانی کے چلتی حالت میں) ان پر پن بجلی گھر بنا کر توانائی پیدا کر سکتا ہے۔ بھارت نے اس شق کا فائدہ اٹھایا اور پھر اس نے دریائے چناب پر بگلیہار جیسا ڈیم بنا ڈالا، جس میں جمع پانی ساڑھے 11کلومیٹر دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اس منصوبے کے تحت اس نے بگلیہار 2کے نام سے ایک اور منصوبہ تیزی سے مکمل کرنا شروع کر رکھا ہے جہاں سے وہ 12سو میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا اور پانی بھی جمع کرے گا۔بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی اس کھلی خلاف ورزی پر پاکستان نے کئی سال پہلے شور مچایا۔بھارت نے اس پر کسی قسم کی توجہ نہ کی اور اپنے منصوبے جاری رکھے تو معاملہ عالمی بنک پہنچا لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی تھی اور بھارت ڈیم مکمل کر چکا تھا۔ اس کے بعد بھارت نے اگلی شرارت کے تحت کشن گنگا ڈیم کا منصوبہ شروع کر دیا جس کے تحت اس نے پاکستان کو سیراب کرنے والے دریائے نیلم کے پانی کو 27کلومیٹر طویل زیر زمین سرنگ کھود کر مقبوضہ وادی کے اندر دریائے جہلم میں ڈالنے کا کام شروع کر دیا۔ یہ سندھ طاس معاہدے کی دوسری بڑی کھلی خلاف ورزی تھی کہ بھارت نے عجیب و غریب کارروائی کرتے ہوئے دریا کارخ ہی موڑنا شروع کر دیا تھا۔

پاکستان نے پہلے بھارت کے ساتھ اور پھر عالمی عدالت میں کشن گنگا ڈیم اور پانی کا رخ موڑنے کے منصوبے کامقدمہ اٹھایا لیکن اس وقت بھی بہت دیر ہو چکی تھی اور منصوبہ بہت حد مکمل ہو چکا تھا۔طویل بحث و تمحیث کے بعد اس حوالے سے جو فیصلہ آیا اسے پاکستانی حکام نے اپنی فتح اور بھارت نے اپنی فتح قرار دیا تھا لیکن بھارت چونکہ منصوبے پر کافی کام مکمل کر چکا تھا،اس لئے اگر فیصلہ پاکستان کے حق میں بھی آتا تو کچھ فائدہ نہیں تھا۔سو اس فیصلے پر پاکستان کا فتح کی خوشی منانا سمجھ سے باہر تھا۔یہاں کشن گنگا منصوبے پر بھارت کے بقول اس نے دریائے نیلم کے 11فیصد پانی کا رخ موڑا ہے جبکہ پاکستان کے بقول یہ شرح کم از کم 31فیصد ہے۔ اب اس شرح کا تعین کون کرے گا؟ کیسے کرے گا؟ اور اگر خلاف ورزی ہو تو اس کا نوٹس کون اور کیسے لے گا؟ اس کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عالمی ثالثی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ عجیب و غریب فلسفہ بھی جھاڑ دیا تھا کہ بھارت اپنے استعمال کیلئے بھی پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں میں سے بھی معمولی حد تک پانی کا رخ تبدیل کر سکتا ہے حالانکہ یہ سندھ طاس معاہدے میں کہیں درج نہیں تھا۔ بہرحال اس سے یہ ثابت ہوا کہ عالمی عدالت بھی ہر لحاظ سے پاکستان کی دشمن ہی ہے۔

اس وقت جب پاکستان اپنا ایک بہت بڑا نیلم جہلم ہائیڈرو منصوبہ مکمل کرنا چاہتا ہے ،سوال یہ ہے کہ اگردریائے نیلم میں پانی پوری مقدار میں نہ آیا تو یہ منصوبہ کیسے موثر و کارگر ہو گا؟چند سال پہلے پاکستانی انڈس کمشنر جماعت علی شاہ نام کی شخصیت تھی جنہوں نے 2دہائیاں اس عہدے پر وقت گزارا لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ بھارت ہمارے پانی پر قبضہ جما رہا ہے۔یہ شخصیت جو آج بھی کہتی ہے کہ بھارت نے پانی کے حوالے سے کوئی جرم نہیں کیا اور ”بھارت بالکل بے گناہ اور معصوم ہے۔” جب اس قبیل کے لوگ دودھ کے رکھوالے ہوں تو بچائو کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ سو اس وقت جب بگلیہار ڈیم اور کشن گنگا ڈیم جیسے منصوبے بن رہے تھے، پاکستان کا ردعمل اتنا کمزور رہا کہ بھارت اب اس سے کئی گنا آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ اس کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکے گا اور عالمی ادارے اور قوتیں اس کے ساتھ ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انڈس واٹر کمشنر ایک ایسا عہدہ ہے جو وزیر اعظم سمیت کسی کو جواب دہ نہیں اور اسی کا خوب خوب فائدہ جماعت علی شاہ نے اٹھایا تھا۔بھارت کی جانب سے پاکستانی پانی پر قبضے کے اس نئے منصوبے کے بعد جناب وزیر اعظم نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف اور عالمی بینک کے سامنے اٹھائیں۔ وزیراعظم نے نئے بھارتی ڈیموں کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے کا حکم تو دیا ہے لیکن بھارت کو اس کی کوئی پروا نہیں کیونکہ ماضی کے تجربات سب کے سامنے ہیں۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے تمام تر تعلقات اور معاملات مکمل طور پر معطل اور بند رکھے جب تک بھارت ایسے تمام بنیادی مسائل پر نتیجہ خیز بات چیت نہیں کرتا۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان یک طرفہ طور پر بھارت کے ساتھ خود ہی گھگی باندھ کر مذاکرات شروع کر دیتا ہے حالانکہ وزیراعظم سمیت سبھی اعلیٰ حکام بار بار کہہ چکے تھے کہ اب وہ بھارت کے ساتھ خود مذاکرات شروع نہیں کریں گے اور جب تک بھارت ایجنڈے میں کشمیر کو شامل نہیں کرتا تب تک وہ مذاکرات نہیں کریں گے۔ اگر اب مذاکرات یک طرفہ طور پر شروع کئے جا رہے ہیں تو قوم کو بتایا جائے کہ ایسی کیا فوری مجبوری آن پڑی ہے اور یہ بھی کہ پہلے بیانات کیوں دیئے گئے؟ آخر وہ دن اور لمحہ کب آئے گا کہ ہم بھارت کی خصلت اور عادت کو پہچان کر اس سے وہی انداز اور سلوک اپنائیں گے جس کا وہ حقدار ہے یا وہ جو ہمارے ساتھ روا رکھتا ہے۔ پاکستان آج پانی اور بھارتی ڈیموں کی جس مصیبت میں گرفتار ہے اس کی بنیاد کشمیر ہے۔

کشمیر کو بانی پاکستان محمد علی جناح نے ایسے ہی شہ رگ قرار نہیں دیا تھا۔ اگر ہم کشمیر کو آزاد کروانے میں کامیاب ہو جائیں تو بھارت کی ایسی تمام ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے خودبخود نجات مل جائے گی جو وہ کشمیر کے راستے ہمارے اوپر عرصہ دراز سے مسلط کئے ہوئے ہے۔ جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید ایک طویل عرصہ سے بھارتی کی اس آبی جارحیت(کبھی خشک کر دینے والی تو کبھی سیلاب میں بہانے والی) کو بے نقاب کرنے میں مصروف عمل ہیں تو بھارت ان کے خلاف سب سے زیادہ پراپیگنڈہ کر کے ان کی زبان بند کرنے کی کوشش اور سعی میں مصروف ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ جب کشمیر کو آزاد کروانا ہماری اولین ترجیح ہو گی تو ہی بھارت کے ساتھ بات تمام دیگر مسائل میں آگے بڑھے گی ورنہ بھارت ایسے ہی ہمیںسسک سسک کے جینے پر مجبور کرتا رہے گا۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین