counter easy hit

مزدور بچے

تحریر: نعمان وڈیرہ

child labaur

child labaur

بچے کسی بھی معاشرے کی امیدوں، آرزوؤ ں اور تمناؤں کا مرکز ہوتے ہیں، اس لیے کہ مستقبل کی تعمیر کا انحصار ان ہی پر ہوتا ہے۔ اس لیے بچے دوسرے تمام طبقات کی بہ نسبت زیادہ توجہ، زیادہ شفقت اور زیادہ محبت چاہتے ہیں۔ معاشرتی حوالے سے بھی بچوں کی اہمیت مسلّم ہے۔ہمارے ملک میں بچوں سے مشقت لینے کا رحجان ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے تدارک کے لیے ہر ایک کو متحرک ہونا چاہیئے۔ بچے خالق کائنات کی سب سے زیادہ خوبصورت اور پیاری مخلوق ہیں، معصوم ہیں اور اس روئے زمین کا حسن ہیں۔ جب یہی بچے خاندان کی معاشی کفالت کے لیے مزدوری پرمجبو ر ہوتے ہیں تو اپنا بچپن کھو دیتے ہیں۔ ایسے بچے بچپن کی خوشیوں اور تعلیم کے بنیادی حق سمیت تمام حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔

چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن ہر سال 12 جون کو پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں منایا جاتاہے جس کا مقصد بچوں کو کام کرنے سے روکنا ہے ۔International Labour Organization :آئی ایل او نے چائلڈ لیبر ڈے یعنی مزدور بچوں کا عالمی دن پہلی مرتبہ 2002ء میں منایا۔ ILO نے بچوں کے ملازمت کرنے کی عمر کم از کم 15 سال تعین کی ہے ۔پوری دنیا میں صرف 49 ممالک ایسے ہیں جنہوں نے آئی ایل او کے اس کنونشن کی حمایت اور توثیق کی اور جن ممالک نے ان کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا افسوس کے ساتھ بیان کرنا پڑ رہا ہے کہ اس میں پاکستان بھی شامل ہے۔Unicef نے بچے کی تعریف کچھ یوں کی ہے کہ کوئی بھی شخص جس کی عمر 18 سال سے کم ہے وہ ‘بچے ‘ کی کیٹگری میں آتا ہے ۔اور جو 18 سال سے کم عمر میں مزدوری کرتا ہے وہ چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے ۔1990ء کی دہائی میں چائلڈ لیبر کا تصور بڑی توجہ کا باعث بنا ۔کیونکہ جب یورپین ممالک نے کم ترقی یافتہ ممالک کی پیدا کردہ اشیا ء پر بین کا اعلان کیاجس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان اشیاء کی تیاری میں بچوں سے مزدوری کروائی جاتی ہے ۔The Human Rights Commission of Pakistan کے 1990ء میں لگائے گئے ایک تخمینے کے مطابق اپنے ملک میں ایک کروڑ دس لاکھ بچے ایسے تھے جو کام کر رہے تھے اور جن کی عمریں 10 سال سے بھی کم تھیں۔

Pakistan

آج پاکستان میں 5-14 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد تقریباََ 40 ملین یعنی چار کروڑ ہے جن میں سے اس عمر کے 38 لاکھ بچے ایسے جو کام کاج کر رہے ہیں ۔دنیا بھر میں زراعت کا شعبہ چائلڈ لیبر کا سب سے بڑا آجر ہے ۔پاکستان کے دیہی علاقوں میں آج بھی کام کرنے والے بچوں کی تعداد 60سے70 فیصد ہے۔جبکہ شہری علاقوں میں یہ تعداد 35 سے 40 فیصد ہے۔پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قانون موجود ہیں جو غیر موثر ہیں، آپ کو یہ سن کر بہت حیرانی ہو گی کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک ایک بھی شخص کو بچوں کو ملازمت پر رکھنے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا۔ سزا دی گئی تو صرف جرمانے کی جس کی رقم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ عملدرآمد نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جتنے بھی قوانین بنائے گئے ہیں وہ رسمی یا فارمل سیکٹر کا احاطہ کرتے ہیں۔ جو ہمارا غیررسمی سیکٹر ہے، اس سے متعلق بہت ہی کم قوانین ہیں۔ مثلا گھریلو ملازم بچوں سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اسی طرح جو بچے گاؤں یا دیہات میں زراعت کے پیشے میں کام کرتے ہیں، ان سے متعلق کوئی قانون نہیں۔ یعنی چائلڈ لیبر کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے، جن سے متعلق کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے۔‘‘

واضع رہے کہ ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق، جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا جسکی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت دوسال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے مطابق چائلڈ لیبر کے زمرے میں آنے والے بچوں کی تعداد زیادہ تر قالین بافی، چوڑیاں بنانے کی صعنت، سرجیکل آلات بنانے، کوڑا چننے، چمڑا رنگنے کی صعنت کے علاوہ گھروں میں ملازمت کرتے ہوئے پائی جاتی ہے۔

ملک میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ مملکت خداداد میں بجائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی لہٰذاچائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے صرف حکومتی سطح پر ہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمہ کیلئے معاشرہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرناہوگااور غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم ¾ علاج معالجہ اور انہیں کفالت فراہم کرنے کے ذرائع مہیا کرنا ہوں گے اس کے علاوہ کروڑوں کے فنڈ خرچ کرنے والی این جی اوز کو بھی چائلڈ لیبر اور اس کے اسباب کے خاتمہ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے

Legislation

بچوں کو بڑوں کی طرح رہنے اور مشقت کرنے پر مجبورکیاجانا ایک المیہ ہے۔ اس کی وجہ سے بچے ذہنی و جسمانی افزائش کے فطری عمل سے محروم ہوجاتے ہیں۔ بچوں سے مشقت لینے کی روک تھام کے لیے قانون سازی کے باوجود بھی یہ مسئلہ ایک ناسور کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ذمہ داری پورے معاشرے خصوصاً سماجی تنظیموں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ عام طور پر غربت او ر آبادی میں بے تحاشہ اضافے کے باعث ترقی پذیر ممالک میں بچوں سے مشقت لینے کا رحجان عام ہورہاہے۔ بچوں سے مشقت کا معاملہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی ترقی میں بچوں سے مشقت لینے کا مسئلہ ایک بڑی روکاوٹ ہے۔صحت مند بچے کسی بھی ملک کے لیے روشن مستقبل اور طاقت ہوتے ہیں اس لیے بچوں سے مشقت لینے کا عمل ملک کے مستقبل کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

پوری دنیا میں بچوں سے مشقت لینے کی بنیادی وجہ غربت، والدین کی کم آمدنی، بے روزگاری، سماجی نا انصافی، پسماندگی اورکمزور قانون ہے۔اس کے حل اوراس کو جڑ سے مٹانے کے لیے حکومت کو سخت قوانین بنانے چاہئیں ضروری ہے کہ ان قوانین پرسختی عمل بھی ہوبچوں سے مزدوری لینے والوں کو اس حوالے سے آگاہ کیا جانا چاہیئے۔