counter easy hit

کراچی بدامنی کیس ، سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ کی دوسری رپورٹ بھی مسترد کر دی

Karachi unrest case

Karachi unrest case

سنگین مقدمہ ایک دن میں اے کلاس کردیا جاتا ہے :چیف جسٹس ، آپ کے افسر غلط بیانی کر کے جھوٹی رپورٹ تیار کرتے ہیں :جسٹس امیر ہانی کا آئی جی کو جواب
اسلام آباد (یس اُردو) سپریم کورٹ میں کراچی بد امنی کیس کی دوسرے دن سماعت جاری ، عدالت عظمیٰ نے آئی جی سندھ کی دوسری رپورٹ بھی مسترد کردی ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ خود کو آئی جی کہنے والے کو پتہ ہی نہیں کہ اس کی ماتحتی میں کیا ہو رہا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے مناسب جواب نہ دینے پر آئی جی سندھ کی سرزنش کی ، عدالت عظمیٰ نے حکمنامہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے وفاق ، سندھ حکومت مل کر رینجرز کی رپورٹ کا جائزہ لیں ۔ اداروں میں ٹکرائو ختم کریں ۔ کراچی کے مفاد میں ملکر چلیں ، بدامنی کیس کی سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی گئی ۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی پانچ رکنی لارجر بینچ میں دوسرے کراچی بد امنی کیس کی سماعت ہوئی ۔ آئی جی سندھ نے دوبارہ رپورٹ عدالت میں پیش کردی ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2015 میں ٹارگٹ کلنگ کے 159 واقعات ہوئے ۔ ٹارگٹ کلنگ کے 83 مقدمات درج کئے گئے ، 53 ملزمان گرفتار جبکہ 15ہلاک ہوئے ، 25 مقدمات کے ملزمان کا سراغ لگایا گیا ۔ عدالت عظمی نے آئی جی سندھ کی اس رپورٹ کو بھی غیر تسلی بخش قرار دیا اور آئی جی سندھ کی رپورٹ مسترد کردی ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے کہ اس رپورٹ میں کچھ نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سنگین مقدمہ ایک ہی دن میں اے کلاس کردیا جاتا ہے ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سے کہا کہ آپ کے افسر جھوٹ بولتے ہیں ، آپ کا جو افسر رپورٹ تیار کرتا ہے وہ جعلسازی کرتا ہے ، آپ کے افسران کو بریفنگ نہیں دیتے تو آپ بیٹھ جائیں ، ہم ان افسران سے پوچھ لیتے ہیں ۔ ایک شخص جو خود کو آئی جی کہتا ہے اس کی ماتحتی میں کیا ہو رہا ہے اسے پتہ ہی نہیں ۔ چیف سیکرٹری صاحب آپ بتائیں محکمہ پولیس کیسے چل رہا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جلدی جلدی تبادلے ہوں گے تو افسران کام کیسے کریں گے ۔ جب ایک پولیس افسر کا سال میں سات بار تبادلہ ہوگا اس کا مطلب اسے کام کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی ، ان حالات میں گڈ گورننس کیسے آسکتی ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے مناسب جواب نہ دینے پر آئی جی سندھ کی سرزنش کی ۔ چیف سیکرٹری صدیق میمن نے بھی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ پے رول پر سات ملزموں کو رہا کیا گیا ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ جو ملزم آپ نے رہا کئے ان میں سے تین دہشت گردی کے سزا یافتہ ملزم تھے ۔ انہوں نے آئی جی سندھ سے سوال کیا کہ آپ کو پتہ ہے کہ یہ کون ملزم تھے اور ان کو کیوں رہا کیا گیا ۔ آئی جی سندھ کے جواب نہ دینے پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے برہمی کا اظہار کیا ۔ عدالت نے آئی جی سندھ کو حکم دیا کہ10 مارچ کو ان تینوں ملزموں کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رینجرز کو اختیارات دینے کا معاملہ حکومت کا ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈر بیٹھ کر رینجرز کے اختیارات کو طے کرلیں ۔ جسٹس عظمت سعید نے چیف سیکرٹری سے کہا کہ یہ معاملات آپ دیکھ لیں ، اگر ہم دیکھیں گے تو مسئلہ ہوگا ۔ عدالت عظمیٰ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت 10 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے حکمنامہ جاری کیا کہ وفاق ، سندھ حکومت مل کر رینجرز کی رپورٹ کا جائزہ لیں ۔ اداروں میں ٹکرائو ختم کریں ۔ کراچی کے مفاد میں ملکر چلیں ۔ چیف سیکرٹری پولیس افسران کے جلد تبادلوں کا جائزہ لیں ۔