counter easy hit

کراچی ٹارگٹڈ آپریشن اور وزیراعظم صاحب کے کراچی کے دورے

PPP

PPP

تحریر : میر افسر امان

کراچی تین دہائیوں سے خون و آگ کی حالت میں ہے۔ کراچی منی پاکستان ہے۔ دہی علاقوں سے پیپلز پارٹی اور شہری علاقوں سے ایم کیو ایم اقتدار میں آتی رہیں ہیں۔ دونوں پر امن و امان قائم کرنے کی ذمہ داری بھی عائید ہوتی ہے۔ یہ امن و امان قائم کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے نورا کشتی کھیلتے رہتے ہیں۔ اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں ایک دوسرے سے علیحدہ ہوتے رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم نے تو تماشہ بنا لیا ہے ۔

متعدد بار حکومت سے علیحدہ ہوئی ۔مطالبات منوا کر پھر پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل ہو جاتی ہے۔ بقول ڈکٹیٹر مشرف ایم کیو ایم دس دفعہ ناراض ہوئی پھر شامل ہوئی۔اب پھر پریشانی ہوئی تو حکومت میں شامل ہو گئی ۔ کراچی جوکبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔زخموں اور دکھوںکے شہر میں تبدیل ہو گیا۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرنے والے کراچی میں زیادہ تعداد آبادہوئے۔باقی پنجاب، سرحد، بلوچستان، گلگت بلتستان، کشمیرسے پاکستان بننے کے بعد محنت مزدوری کرنے آئے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں نے ملک کی واحدبندر گاہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں پاکستان کے ٩٠ فی صدکارخانے لگائے تھے ۔ جس کی وجہ پورے پاکستان سے محنت مزدوری کرنے لوگ کراچی میں آئے۔ان مزدوروں اور ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں نے مل جل کے اپنی محنت سے کراچی کو روشنیوں کا شہر بنایا۔کراچی غریب پرور شہر تھا ۔ کئی ہوٹلوں میں دو آنے کی روٹی دال مفت ملا کرتی تھی۔کراچی کے شہری ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔پورے ملک کے علاقوں اور صوبوں کے نام سے کراچی میں رہائشی کا لونیاں بنیں۔

کہیں پٹھان کالونی، کہیں پنجاب کالونی، کہیںکوئٹہ کالونی، کہیںمظفر آباد اور کہیں مہاجر کالونی یعنی پاکستان کے سارے علاقوں کے ناموں سے آبادیاں قائم ہوئیں۔ سارے علاقوں کی بولیاں بولی جانے لگیں ۔کراچی پاکستان کی ساری ثقافتوں کا گلدستہ بن گیا۔ پاکستان کی واحد بندر گاہ اور انڈسٹریل شہر ہونے کی وجہ سے پاکستان کی تجارت کا مرکز بن گیا ۔پاکستان کی رویونیو کا ٧٠ فی صد دینے والا شہر بن گیا۔ گو کہ اب بھی یہ ساری بستیاں اور بولیاں موجود ہیں۔ مگر ان میں لسانیت اور قوم پرستی نے زہر گھول دیا ہے۔ حقوق کے نام پر ایک جنگ چھیڑ دی گئی ۔

یہ محنت مزدوری کرنے والے غریب لوگ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں ہم نے کس کے حقوق چھینے ہیں۔ہم تو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ اندرون پاکستان سے آنے والے کراچی کے باسیوں کی لاشیں واپس ان کے آبائی علاقوں میں جانا شروع ہوئیں۔ اس سے نفرتوں نے جنم لیا۔ یہ لوگ فیکٹریوں، سڑکوں ، تندورں، گھروں۔ لکڑی کی ٹالوں اور چائے کے ہوٹلوں پر محنت کرنے والے لوگ ہیں۔ ان محنت کش لوگوں نے کراچی کی خدمت کی ہے اس کو روشنیوں کا شہر بنایا ہے۔

کراچی میں بھتہ لینے کے لیے لوگوں کو اغوا کر نا شروع ہوا۔ جس سے سرمایادار پریشان ہو گئے۔ انہوں نے اپنا سرمایا آہستہ آہستہ ملک سے باہر منتقل کرنا شروع کیا۔ لینڈ مافیا والوں نے اپنی کاروئیاں شروع کیں۔آئے روز ہڑتالیں ہونا شروع ہوئیں۔ غرض کراچی کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا۔ کراچی جرائم پیشہ افراد کا گڑھ بن گیا۔اس شہر میں اسٹریٹ کرائمز، اغوا برائے تاوان ، ٹارگٹ کلنگ،زبان اور فرقہ کے نام سے ایک دوسروں کو قتل کرنا شروع ہوا۔پھر پاکستان کے خلاف بین الاقوامی دشمنوں کی جاری گریٹ گیم نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ سیاست دانوں کی سیاسی مفادات اور مفاہمت کی پالیسی نے شہر کو واپس روشنیوں کاشہر نہ بننے دیا۔

ایک وقت آیا اور عدلیہ نے سو موٹو ایکشن لیا۔ رینجرز کو اختیار دئے گئے۔ رینجرز نے ٹارگٹ کلرز،اغوا برائے تاوان اور جرائم پیشہ لوگوں کو گرفتا رکرنا شروع کیا۔ تو ایک لسانی جماعت نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ان کے ساتھ بے انصافی ہو رہی ہے۔رینجرز کی رپورٹ کے مطابق کراچی کی سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے ملٹری وِنگ بنائے ہوئے ہیں جن کے پاس جدید اسلحہ ہے۔ مرکزی حکومت نے کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا ہوا ہے

جس کی کمانڈ سندھ کے وزیر اعلیٰ جناب قائم علی شاہ کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کے اس اقدام سے کراچی کے حالات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ کراچی میں ٣ سال قبل ایک فیکٹری میں لگھی آگ میں ٢٥٩ مزدور جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ تفتیش پر ایم کیو ایم کے ایک کارکن نے انکشاف کیا کہ بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری میں گن پاو ڈر چھڑک کر آگ لگائی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی مانا کہ وہ ١٢ مئی کے قتل عام میں بھی شریک تھا۔ یاد رہے کہ فیکٹری کے مالکان پر ایم کیو ایم نے مقدمہ قائم کروایا تھا ۔ ملک کی سیاسی پارٹیوں نے ایم کیو ایم کی گرفت کی اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے خلاف کاروائی کا

کہا۔ ایم کیو ایم نے انکشاف کرنے والے شخص سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔ کراچی میں نواز شریف اور فوج کے سپہ سا لار جناب راحیل شریف آئے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے گورنر ہاوس میں زرداری صاحب سے ملاقات کی اور فرمایا۔ پی پی اور متحدہ کے اتحاد ہی سے سندھ ترقی کرے گا۔کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن میں سندھ حکومت کے عدم تعاون پر نواز شریف صاحب نے شکوہ کیااور کہا سانحہ بلدیہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔چالان فی الفور عدالت میں پیش کیا جائے۔دہشتگردی کے تمام مقدمات فوجی عدالتوں میں جائیں گے۔فوج کے سپہ سالار نے کہا کراچی میں امن کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔

شہر قائد میں آپریشن کسی بھی نسلی، سیاسی اور مذہبی امتیازکے بغیر شفاف طریقے سے ہونا چاہیے۔پولیس کو غیرسیاسی بنایا جائے۔ تقرریاں ایپکس کمیٹی کے ذریعے کی جائیں۔رینجرز کے آپریشن کی وجہ سے کراچی میں پائیدار امن اور استحکام پیدا ہوا ہے۔ قانون اور انٹیلی جنس میں تعاون ضروری ہے۔جماعت اسلامی کراچی کے امیر نے کہا ہے کہ اعلانات نہیں اقدامات ہونے چائیں۔سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ سانحہ بلدیہ پر قوم نواز شریف اور راحیل شریف صاحب کی طرف دیکھ رہی ہے۔

انصاف نہ ملا تو عوام کا حکومت پر سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔با اثر اور بے اثر کی تمیز کیے بغیر مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ مہاجر موومنٹ نے مظاہرہ کیا اور کہا کہ سانحہ بلدیہ ٹاون کے ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔ادھر سرکاری وکیل نے سانحہ بلدیہ کیس سے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ ُاس کو دھمکی ملی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ نواز شریف صاحب کراچی میں امن امان میں سنجیدہ ہیں بار بار دورے کر رہے ہیں۔اگر ایک ہی فارمولے پر عمل شروع کر دیا جائے کہ مجرم مجرم ہے۔اس کو جرم کی سزا ملنی چاہیے ۔ چاہے اس کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو ۔کسی کا بھی ماروائے عدالت قتل نہیں ہونا چاہیے۔ ٹارگٹڈ آپریشن میں انصاف کے تقاضے پورے ہونا چاہیں۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان