counter easy hit

عدلیہ وغیرہ

مجھے معلوم نہیں کہ گجرات کے خوش مزاج شاعر استاد امام دین گجراتی کا ہمارے گجراتی سیاستدانوں کے ساتھ کتنا تعلق تھا یا نہیں تھا لیکن ایک ہی شہر کے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے لاتعلق کیسے رہ سکتے تھے یا یوں کہیں کہ ایک دوسرے سے اجنبی اور دور دور کیسے رہ سکتے تھے ۔ مجھے ایک بار پھر اس وقت گجرات کے محترم استاد امام دین کے ایک شعرکی یاد آئی ہے اور وہ شعر یوں ہے کہ ’’میرے گوڈے میں دردِ جگر مام دینا‘‘ کہ میرے گھٹنے میں بھی ان دنوں ایک بار پھر درد جاگ اُٹھا ہے جو  مجھے بے قرار رکھتا ہے اور چین نہیں لینے دیتا اور جب بھی درد ہوتا ہے مجھے استاد امام دین یاد آجاتے ہیں ۔

امام دین شاعر تھے اس لیے شعر میں اپنا دردِ گوڈا بیان کر دیا اور فارغ ہو گئے ۔ میں بھی اگرچہ ان دنوں اسی درد میں مبتلا ہوں اور میرا گوڈا بھی درد کر رہا ہے لیکن چونکہ میں شاعر نہیں اس لیے اپنا درد نثر میں ہی بیان کر سکتا ہوں چنانچہ نثر میں عرض ہے کہ گزشتہ دنوں میرے دائیں گھٹنے پر جو چوٹ لگی تھی اس میں اُٹھنے والا درد اب تک اُٹھا ہی ہوا ہے بیٹھا نہیں ہے اور میں اس کے بیٹھنے کا منتظر ہوں تا کہ کالم کے طلب گاروں کی فرمائش پوری کر سکوں ۔

یوں تو خود گجرات میں کئی شہرہ آفاق سیاستدان موجود ہیں جنہوں نے نے دور پار کی سیاست میں دھوم مچا رکھی ہے اور ان کی کرم فرمائی کی وجہ سے میں ان کے اس شاعر کے ساتھ لبرٹی لے سکتا ہوں لیکن روز مرہ کی سیاست میں محتاط رہنا ضروری ہے ۔کافی عرصہ ہوا استاد نے رپورٹنگ کے بارے میں جو نصیحتیں کی تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ سیاسی بحث و تمحیص میں دامن بچا کر رکھنا چاہیے کہ اس میں فریقین عموماً بے قابو بلکہ بے لگام ہو جاتے ہیں اور رکھ رکھاؤ کی پابندی کم ہی کرتے ہیں چنانچہ جب فریقین میں بحث شروع ہو تو ا س سے بچ کر دور رہنا چاہیے تا کہ کوئی اُلجھن پیدا نہ ہو سکے اور ہو تو آپ اس سے دور اور محفوظ رہیں۔ان دنوں گجرات کے خوش مزاج آپس میں چھیڑ چھاڑ پر اتر ے ہوئے ہیں ،وجہ تو سیاسی ہے لیکن جب سیاست در آتی ہے تو ہمیں اس سے بچ کر رہنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اﷲان سیاستدانوں کو آپس کی جنگ و جدل سے محفوظ رکھے اور وہ عزت کے ساتھ اپنے گھروں اور ڈیروں پر محفوظ اور آباد رہیں ۔کئی اخباروں کی بڑی سرخی یوں ہے کہ نواز شریف فیملی کے خلاف ریفرنس تیار ہیں اور ان کی منظوری کے لیے نیب ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس اسی ہفتے ہونے جا رہا ہے جس میں اثاثوں کو منجمد کرنے اور نام کو ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی جائے گی۔ ڈار صاحب کے خلاف بھی ریفرنس مکمل ہے اور ضروری کاروائی ہو گی ۔

سیاست اگر عدالت میں نہ جائے تو بہتر ہے لیکن بعض سیاستدان صبر نہیں کرتے اور اپنے بارے میں عدالت میں چلے جاتے ہیں ۔ سیاست ہو یا کوئی تنارعہ اسے عدالت سے باہر حل کرنا ہی مناسب ہے کیونکہ کسی بھی عدالت میں صرف عدلیہ ہی نہیں ہوتی وہاں وکیل صاحبان بھی ہوتے ہیں جو ظاہر ہے کہ ایسے مقدمات پر بہت خوش ہوتے ہیں اور جب مدعی اور مدعا علیہ وکیل ہوں تو ایسے کسی بھی مقدمے میں جان پڑجاتی ہے اور بعض اوقات یہ جان اتنی سخت ہوتی ہے کہ اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ۔

میں ایک مقدمے باز علاقے کا باشندہ ہوں جہاں مقدمہ بعض اوقات دشمنی کے لیے بھی دائر کیا جاتا ہے اور جس پر مقدمہ بن جائے وہ بے چارا تو گیا نہ دین کا نہ دنیا کا اگر فریقین ثانی جاندار ہو تو پھر مدعی اور مدعا علیہ دونوں کی خیر نہیں اور یہ ایسے مقدموں میں پھنس جاتے ہیں جن سے خلاصی مشکل خوش قسمت لوگوں کو ہی ملتی ہے ورنہ میں عدالت کا نام تو نہیں لوں گا وکلاء حضرات اور موکل کسی مقدمہ میں ایک عمر گزار دیتے ہیں اور پھر بھی خلاصی نہیں ہوتی۔

عقلمند لوگ دعا مانگتے ہیں کہ وہ کسی مقدمے سے محفوظ رہیں اور زندگی عزت کے ساتھ گزر لیں اور باقی زندگی میں رسوا نہ ہوں ۔کیونکہ عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ مقدمہ بازی رسوائی کے سوا کچھ نہیں ۔ اس لیے عزت اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ زندگی کسی مقدمہ بازی کے بغیر ہی گزر جائے ۔ ہمارے گاؤں میں ایک ریٹائرڈ پٹواری تھا جس کا مشغلہ پر امن لوگوں کو رسوا کرنا تھا اور کتنے ہی باعزت لوگ اس کے ہاتھوں رسوا ہو چکے تھے ۔ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں تھا کہ اس پٹواری سے اپنے آپ کو رسوائی سے بچا سکے ۔

بہر کیف دیہی زندگی میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں جب عام لوگ چالاک لوگوں کے قابومیں آجاتے ہیں اور جان چھڑانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے ۔ زندگی بہت اُلجھ گئی ہے اور اس جان چھڑانے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے ۔ میرے پاس زندگی کی ان اُلجھنوں کی کچھ مثالیں موجود ہیں خدا نہ کرے کچھ لوگ ان میں پھنس جائیں اور زندگی کو مسلسل امتحان میں ڈال لیں۔

عدالتوں میں کوئی مقدمہ لے جانا بعض اوقات کسی عام آدمی کے لیے آسان نہیں ہوتا لیکن عدلیہ کا شعبہ بہر کیف چل ہی رہا ہے اور اس کی ایک اپنی دنیا ہے جو آباد رہتی ہے اور جہاں کام کرنے والوں کا وقت گزر رہا ہے اور وہ خوش ہیں ۔ خدا کرے ان کے ادارے کی طرف سے لوگوں اور مدعیوں کو انصاف ملتا رہے اور خلقِ خدا خوش رہے۔