counter easy hit

صحافی عمر چیمہ نے دھماکہ خیز بریکنگ نیوز دے دی

Journalist Omar Cheema has given the breaking news

اسلام آباد(ویب ڈیسک)دھوکہ دہی سے متعلق ’’گوریلا رپورٹ‘‘جسے نظر انداز کیا گیا،مشاہد حسین سید کے مطابق پیپلز پارٹی رہنما کو سندھ حکومت گرانے کا پیغام دیا گیا تھا۔تفصیلات کے مطابق،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے سے چار گھنٹے قبل حزب اختلا ف کے معروف سینیٹرز راجا ظفر الحق کے دفترمیں
نامور صحافی عمر چیمہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔ جمع ہوئے تھے تاکہ تیاریوں کا جائزہ لے سکیں۔یہاں ن لیگ کے ایک سینیٹر نے ایسی معلومات فراہم کیں جس پر ان کے ساتھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔یہ معلومات اپوزیشن کو نقصان پہنچانے سے متعلق کوششوں کے حوالے سے تھی جس میں سب سے اہم بدھ کے روز ہونے والا اجلاس تھا۔مشاہد حسین سید نے شرکا کو بتایا کہ میری گوریلا رپورٹ کے مطابق ایک بزنس مین نے پیپلز پارٹی رہنما سے آدھی رات کو ملاقات کی تھی۔انہوں نے ان دونوں کے نام بتائے۔بزنس مین کی ذمہ داری یہ پیغام پہنچانا تھی کہ سینیٹ میں عدم تعاون کی صورت میں سندھ حکومت گرادی جائے گی اور دیگر سہولیات بھی واپس لے لی جائیں گی۔اس کے بعد پیپلز پارٹی رہنما نے اپنے رشتے دار کو یہ پیغام پہنچایا ، جو کہ خود بھی سیاست میں ہیں تاکہ وہ مطلوبہ ہدایت آگے پہنچا سکے۔مشاہد حسین سید کی فراہم کردہ معلومات شرکاء کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ان شرکا میں میر حاصل بزنجومیاں رضا ربانی، شیری رحمان اور جاوید عباسی شامل تھے۔رضا ربانی نے شرکاء کو بتایا کہ وہ بزنس مین اور اپنی پارٹی رہنما کے درمیان ملاقات کی تصدیق یا انکار نہیں کرسکتےتاہم انہیں پورا یقین ہے کہ پیپلز پارٹی سینیٹر ز کو کوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے۔شیری رحمان نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔جس کے بعد مشاہد حسین سید نے ان سے کہا کہ انہوں نے جو باتیں کی ہیں انہیں نظر انداز کردیاجائےلیکن اپنے سینیٹرز پر نظر رکھی جائے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔مشاہد حسین سید کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی رہنما نے پارٹی کے پانچ سینیٹرز کو ہدایت کی تھی کہ وہ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دیں۔اس معاملے میں ملوث حکومتی حلقوں کے ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دو دیگر سینیٹرز نے صادق سنجرانی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔انہوں نے آزادانہ طور پر پارٹی ہدایت کے خلاف ایسا کیا۔یعنی پیپلز پارٹی کے مجموعی سات سینیٹرز نے جب کہ ن لیگ اور دیگر چھوٹی اپوزیشن جماعتوں کے بھی سات سینیٹرز نے پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ دیا چوں کہ انتباہ پر کان نہیں دھرے گئے اس لیے اپوزیشن کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔تحریک عدم اعتماد میں ناکامی کے بعد اپوزیشن الائنس کا اجلاس منعقد کیا گیا، جس کا مقصد زخموں پر مرہم رکھنا تھا۔شہباز شریف نے مشترکہ کمیٹی کے قیام کی تجویز دی جو تحقیقات کرے کہ دھوکہ دہی میں کون ملوث ہے اور ان کی پارٹی تعلق سے قطع نظر سب کو یکساں سزا دی جائے۔اے این پی اور دیگر ارکان نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔تاہم، ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے نمائندگان نے اس تجویز کو مسترد کردیااورکہا کہ ان کی جماعت علیحدہ سے کارروائی کرے گی۔اب ، جب کہ اپوزیشن سینیٹر ز ماضی کی جانب دیکھتے ہیں تو وہ اس کی ممکنہ وضاحت کی جانب بھی نظر کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے لچک کا مظاہرہ کیوں نہیں کیاکہ اپوزیشن سلیم مانڈوی والا کو ووٹ نا دیتی اور اس کے بجائےحکومت کی ان کے خلاف تحریف عدم اعتماد کو کامیاب ہونے دیتی۔رولز کے مطابق، یہ ثابت کرنا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی ذمہ داری تھی کہ سلیم مانڈوی والا بیشتر ارکان کی حمایت کھو بیٹھے ہیں۔تاہم، اپوزیشن جماعتوں کا اصرار تھا کہ انہیں ان کی حمایت میں بھی ووٹ دینا چاہیئےتاکہ ایوان میں ان پر اعتماد کا مظاہرہ کیا جاسکے۔حکومت نے تحریک عدم اعتماد کے دوران صادق سنجرانی کو ووٹ دیا تھا حالاں کہ اس کے پاس اکثریت نہیں تھی۔اپوزیشن کی یہ تجویز کہ سلیم مانڈوی والا کے کیس میں بھی یہی بات دہرائی جاتی کو مسترد کیا گیا کیوں کہ پیپلز پارٹی سینیٹرز کا کہنا تھا کہ ان کے پارٹی اجلاس میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اس طرح کے کسی بھی عمل کا انعقاد نہیں کیا جائے گا۔اگر ایسا کیا جاتاتو اس سے پیپلز پارٹی سینیٹرز کے کردار پر مزید شکوک وشبہات پیدا ہوتے۔64میں سے اپوزیشن کے 50سینیٹرز نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتما د کی حمایت کی تھی ۔اگر اسی طر ز پر ووٹ دیئے جاتے تو سلیم مانڈوی والا کو شکست ہوجاتی اور ایک نئی بحث کا آغاز ہوتا کہ اگر 53یا زائد ان کے حق میں ووٹ دیتے اور وہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیتے کہ وہ کون ہیں اور انہوں نے دھوکہ کیوں دیا جب کہ تحریک عدم اعتماد صادق سنجرانی کے خلاف تھی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website