counter easy hit

مشرق وسطیٰ میں بہت غلطیاں کیں، اب نہیں کرینگے، ایران کیساتھ مذاکرات میں واپسی، امریکہ کا اعلان

اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکہ، ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے سے متعلق دوبارہ سے مذاکرات شروع کرنے میں دلچسپی اس لیے رکھتا ہے تا کہ ایسی غلطیاں نہ کی جائیں جن سے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال مزید خراب ہو۔ یہ بات امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے میونخ سلامتی کانفرنس سے ورچوئل خطاب کے دوران کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں شفافیت اور بہتر بات چیت کے ذریعے اسٹریٹجک غلط فہمیوں اور غلطیوں کو کم سے کم سطح پر لانا ہو گا۔غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق بائیڈن کا بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے کہ جب ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ تہران جوہری معاہدے کی خلاف ورزی اس صورت میں بند کرنے کو تیار ہوگا کہ اگر امریکہ ان کے ملک پر عائد پابندیاں اٹھا لے۔ بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کے ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ سے لگائے جانے کے عزم کو واپس لیا ہے۔ اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ میں اقوامِ متحدہ کے لیے تعینات ایران کے سفارت کاروں پر نقل و حرکت کی پابندی میں کچھ چھوٹ دی ہے۔ ان دو اقدامات پر اسرائیل نے تنقید کی ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے پُر عزم ہے اور وہ اس سلسلے میں امریکہ سے رابطے میں ہے۔ جو بائیڈن نے کہا کہ جوہری پھیلاؤ کو روکنے کے لیے محتاط سفارت کاری اور ہمارے درمیان تعاون بہت ضروری ہے تاکہ غلطیوں سے بچا جا سکے۔ ان کے بقول اسی لیے وہ مذاکرات دوبارہ سے شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔ بائیڈن نے اس بات کا بھی وعدہ کیا کہ امریکہ اپنے یورپی حلیفوں کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعے ایران کی جانب سے مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال کو خراب کرنے کے اقدامات کے خلاف کام کرنے کو تیار ہے۔واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ‘فاؤنڈیشن آف ڈیفنس ڈیموکریسی’ سے منسلک بہنام بن تلیبلو کا کہنا ہے کہ 2021 کا مشرقِ وسطیٰ اب 2015 کے مشرقِ وسطیٰ جیسا نہیں رہا جب یہ معاہدہ تشکیل دیا گیا تھا اور مشرقِ وسطیٰ نہ ہی 2018 جیسا ہے جب امریکہ اس معاہدے سے الگ ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی بہت اہم ہے کہ ایران اس معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ ایران ان اقدامات کے ذریعے وقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ بائیڈن انتظامیہ اس معاہدے میں جلد از جلد واپس آئے اور پابندیوں میں کچھ نرمی حاصل ہو سکے۔ معاہدے میں واپسی کے اعلان کے ساتھ ساتھ بائیڈن انتظامیہ نے دو اور ایسے اقدامات کیے ہیں جو ٹرمپ کی پالیسیوں کے برعکس ہیں۔ایران کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران پر لگائی گئی پابندیاں رواں ماہ 23 فروری تک ہٹانا شروع کر دے۔ ورنہ وہ بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے معائنہ کرنے والے ماہرین کو اس کی جوہری تنصیبات کے معائنے سے روک دے گا۔

US acknowledged Pompeo’s claims re Res. 2231 had no legal validity.We agree.In compliance w/ 2231:US unconditionally & effectively lift all sanctions imposed, re-imposed or re-labeled by Trump.We will then immediately reverse all remedial measures.Simple: #CommitActMeet
— Javad Zarif (@JZarif) February 19, 2021

جواد ظریف کا ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ اگر امریکہ غیر مشروط اور قابل عمل طور پر وہ تمام پابندیاں اٹھا لے جو سابق صدر ٹرمپ نے ایک بار نافذ کیے جانے کے بعد دوبارہ نافذ کی تھیں۔ تو ایران تمام ایسے اقدامات جو رد عمل میں کیے گئے تھے واپس کر لے گا۔ صدر جو بائیڈن کی جانب سے 2015 کے معاہدے میں واپسی کا اعلان سابق صدر ٹرمپ کے ایران کو مکمل دباؤ کے ذریعے تنہا کر کے اس کے جوہری پروگرام کو کمزور کرنے کی پالیسی کی نفی ہے۔

JO BIDEN, SAYS, WOULD NOT, TRYING, TO. REPEAT, MISTAKES, AGAIN, IN, MIDDLE EAST

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website