counter easy hit

اسلامی جمہوریہ پاکستان یا لبرل جمہوریہ پاکستان

Pakistan

Pakistan

تحریر: میر افسرامان
ہمارے محترم وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے ایک بہت بھاری بیان داغ دیا ہے کہ پاکستان کو ایک لبرل پاکستان بنائیں گے اسی پر جگالی کرتے ہوئے بے اختیار محترم صدر ممنون صاحب نے بھی اس کی تاہید میں بیان دے دیا ہے۔نہ معلوم یہ صاحبان پاکستانی تاریخ سے ناواقف ہیں یا امریکی دبائو میں کچھ زیادہ ہی آگئے بڑھ رہے ہیں۔ لگتا ہے پرچی پر ان کی لکھی ہوئی گزارشات کو اوباما نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے اور ڈو مور کی مزید ہدایات وہ امریکا کے گزشتہ دورے کے دوران اوباما سے لیکر آئے ہیں اور اب ان پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ اس سے قبل بے محترمہ نظیر بھٹو (مرحومہ) بھی امریکا کو یقین دلاتی رہتی تھیں کہ وہ پاکستان کے معاشرے کو لبرل معاشرے میں تبدیل کرنے کی زیادہ اہلیت رکھتی ہیں اس میں شک بھی نہیں ان کی پارٹی ایک لبرل سیاسی پارٹی ہے۔ اس نے کوشش بھی کی مگر ایک زیرک سیاست دان تھی، گو کہ وہ لبرل سوچ رکھنے والی تھیںمگر پاکستان کے اسلامی معاشرے کی عوام میں جڑوں سے اچھی خاصی واقفیت تھی جس کے لیے وہ پھونک پھونک کر قدم رکھتی رہیںپھر بھی پاکستان کے اسلامی معاشرے نے ان کی کوششوں کو رد کر دیا اور اسی وجہ سے اقتدار سے بھی ہٹا دیا۔

پھر ڈکٹیٹر مشرف نے پاکستان کے پڑوسی مسلمان ملک کے خلاف امریکا کی ایک کال پر گھٹنے ٹیکتے ہوئے پڑوسی ملک کو تورا بورا بنانے میں امریکا کی جنگ میں شامل ہو کر پاکستان کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دیا۔ ڈکٹیٹر مشرف بھی اپنے فوجی طاقت کے گھمنڈ میں امریکی خواہش کے مطابق پاکستانی اسلامی معاشرے کو لبرل معاشرے میں تبدیل کرنے کیا ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا مگر پاکستانی اسلامی معاشرہ اپنی طاقت سے قائم و دائم ہے اور ڈکٹیٹر مشرف ایک عبرت کا نشان بن کرسینکڑوں محافظوں میں رہنے پر مجبور رہے۔ گو کہ حکومتی طاقت کے زور پر حکمرانوں نے پاکستانی عوام کی مرضی کے خلاف ذبردستی نصاب تعلیم میں لبرل دفعات شامل کر دیں۔قرآن کی جہادی آیتوں کو نصاب تعلیم سے نکال دیا گیا ہے۔

اسلامی ہیروز کو موجودہ سماجی ہیروز سے تبدیل کر دیا گیا ہے پاکستان میں پہلی جماعت سے آقائوں کی زبان انگریزی کو پڑھانا بھی شامل کر دیا ہے۔الیکٹرونک میڈیا کو امریکا ڈالر کی امداد سے اسلام مخالف ایجنڈے اور فحاشی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ ایک بڑے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے تو امن کی آشا کے تحت اسلامی معاشرے کو لبرل معاشرے میں تبدیل کرنے میں ایڑی چوٹی کا روز لگا دیا۔ قومی ہیروز کے دن کے مقابلے میں فلمی ہیروز کو اس انداز سے پیش کیا کہ شاید وہ ہی قوم کے معمار ہیں۔فحاشہ فلمی خاتون جس نے ننگے جسم پر آئی ایس آئی کندہ کرایا ہوا تھا اسی نجی ٹی وی پر انٹر ویو نشر کر کے اپنی خباست کا مظاہرہ کیا تھا۔

اسی نجی ٹی وی چینل نے ملک کی محافظ آئی ایس آئی کے سربراہ کوتصویر کے ساتھ آٹھ گھنٹے نشر کر کے ایک لبرل صحافی پر قاتلانہ حملہ کی بغیر تحقیق کے مورد الزام ٹھیرایا تھا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں جعلی سروے کر کے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کیا تھا۔ ان سب حرکات پراحتجاج کرتے ہوئے اُس کے نامی گرامی اینکر پرسن اُسے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔پہلے جب بھی ٹی وی آن کرتے تھے تو یہی چینل دیکھنے کو ملتا تھا آپ یقین جانیں پتہ ہی نہیں لگتا کہ اس ٹی وی کوکون سے نمبر پر کیبل آپریٹرزنے رکھا ہوا ہے؟ اس کے مالک کو متعدد مقدمات کا بھی سامنا بھی کرنا پڑھ رہا ہے یہ تو ایک نجی ٹی کی کہانی ہے ۔سب کے سب ٹی وی چینلز غیر اسلامی بلکہ اسلامی اقدار کو مسخ کر رہے ہیں۔یہ ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس کسی نے بھی پاکستان کے اسلامی معاشرے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تاریخ نے اسے عبرت بنا دیا ہے۔

یہ بات ہم نے کالم کے شروع میں بیان کی ہے کہ نواز شریف صاحب بھی اسی امریکی ایجنڈے پر عمل کرنے لگے ہیں ان کو ان واقعات سے سبق لینا چاہیے۔ کیا انہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ جس سیاسی پارٹی کے نام پر انہوں نے پاکستانی عوام سے ووٹ حاصل کئے ہیں وہ سیاسی پارٹی مسلم لیگ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خالق ہے۔ اس مسلم لیگ نے قائد اعظم کی زیر قیادت تمام لبرل نظاموں،قومیتوں، علاقیتوں، لسانیتوں کے بتوں کو توڑ صرف اور صرف اسلام کے نام پر مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان حاصل کیا تھا۔ جد وجہد آزادی پاکستان کے دوران کانگریسی علماء نے ہندوئوں کے پروپگنڈے میں آ کر کہا تھا کی قومیں اوطان سے بنتیں ہیں کا سلوگن دیا تھا یعنی قوم وطن سے بنتی ہیں اور ہندوستانی ایک قوم ہے۔

مگر قائد اعظم نے علماء حق کی قیادت، جس میں مولانا ابو اعلیٰ مودودی پیش پیش تھے اس باطل سوچ کے سامنے کہا کہ امت مسلمہ کی ایک خاص ترکیب ہے وہ بقول علامہ اقبال ایسی ہے :۔اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر۔۔۔خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ عاشمیۖ۔پھر کیا تھا پورے برصغیر میں مسلمانوں کاایک ہی نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ،لے کہ رہیں پاکستان اوربن کے رہے پاکستان۔ اسی لیے پاکستان بننے کے بعد ٢٦مارچ ١٩٤٨ء چٹاگانگ میں قائد نے فرمایا تھا” اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا” قائد کی اتنی صاف اسلام کے راستے کی طرف رہنمائی کے باوجود ہماری حکومتوں نے اپنی ترجیحات کا تعین کیوں نہیں کیا؟ یہ ایک المیہ ہے اس کا جواب پاکستان کے سارے حکمرانوں کو پاکستانی عوام کو دینا ہے ۔یہ ایک جرم ہے ۔اب پہلے کے حکمرانوں کی طرح نواز شریف نے بھی قوم کامجرم بننا پسند کر لیا ہے۔

پہلے جمعہ کی چھٹی کو پاکستان سے ختم کیا۔پاکستان کو سرخ ریچھ(روس) سے بچانے والے افغان مجاہدین کو امریکا کی کہنے پر ایک متنازہ شخص مجددی کو افغانستان کا صدر بنوا کر مجاہدین کی پیٹھ میں چھرا کھونپا۔پاکستان میں اردو کو رائج کرنے کے بجائے مغربی آقائوں کی مرضی کے مطابق پہلی جماعت سے انگریزی کو لازمی قرار دیا۔ سپریم کورٹ کے آڈر کے خلاف اقوام متحدہ میںانگریزی میں تقریر کی جب کہ بھارت اور دوسرے لوگوںنے اپنی قومی
زبان میں تقریریں کیں۔ قرآن سود کو اللہ اور رسولۖ کے خلاف جنگ قرار دیتا ہے۔

نواز شریف نے شرعی کورٹ کے سود کے خاتمے کے فیصلہ کو ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ اب سود در سود قرضے لے کر ملک کے خاتمے کی طرف گامزن کر دیا ہے مسلم لیگ ہی کے ایک سینیٹر نے بجا کہا کہ نواز حکومت بہت زیادہ قرضے لی رہی ہے مغرب کا پلان ہے کہ جب یہ قرضے واپس نہ کر سکے تو پاکستان کو ایک ناکام اسیٹ بنا کر گریٹ گیم کے تحت اس کے ایٹمی پروگرام کو رول پییک کر دیاجا ئے۔ عوام کی خواہش کے بر عکس صرف امریکا کی کو خوشنودی کے لیے پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر اسلام علامہ اقبال کی چھٹی کو ختم کر دیا ہے۔ پاکستانی دینی سیاسی قیادت جو نواز مسلم لیگ کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے کے خواہشمند تھے نواز شریف نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے خلاف اقدام کر کے پاکستان کی اسلامی اور سیاسی قوتوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحفظ اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو بچانے کے اس بات پر مجبور کر دیاہے کہ وہ اسلام کے خلاف لبرل پاکستان بنانے کی کوشش کرنے والی نواز حکومت سے پاکستانی عوام کی جان چھڑانے کے لیے تحریک چلائے۔
اسی لیے امیر جماعت اسلامی نے کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے ٹیلنٹ ایوارڈایکسپو سنٹر حسن اسکوار کراچی کے موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شاید نواز حکومت اپنے پانچ سال کی مدت پوری نہیں کرنا چاہتی ۔ اس نے اسلامی جمہوریہ پاکستان آئین کے خلاف غیر اسلامی اقدام شروع کر دیے ہیں ۔ قارئین!پاکستان کے عوام اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے مثل مدینہ ملکِ پاکستان میں لبرل نظام حکومت کو کبھی بھی قبول نہیں کیا اور کبھی بھی نہیں کرے گی یہ ان کاآئینی حق آئین پاکستان میں درج ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو بچانا پاکستانی عوام کا آئینی حق ہے اس کی حفاظت ان پر لازم ہے۔ ہم نواز شریف سے معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ کیاوہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو لبرل جمہوریہ پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ اگر نہیں تو پاکستان کو لبرل بنانے کے اپنے خلاف آئین خلاف اسلام بیان واپس لینے کااعلان کریں۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میر افسرامان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)