counter easy hit

انٹرنیٹ، اینڈرائیڈ موبائل اور سوشل میڈیا کی حیرت انگیز ترقی

Internet

Internet

تحریر : نعیم الاسلام چودھری
گذشتہ دو دہائیوں میں دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے حیران کن حد تک ترقی کی ہے ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے چلتا ہو ا یہ سلسلہ اب ایک جادو نما آلہ تک جا پہنچا ہے جس کو آج ہم اینڈرائیڈ موبائل کے نام سے جانتے ہیں ، یہ انسان کے ہاتھ میں ایک ننھا کمپیوٹر ہی نہیں بلکہ آلہ دین کے جن کا چراغ جیسا آلہ ہے جو آج حیرت انگیز کارنامے انجام دے رہا ہے ۔دنیا کے ہر موضوع پر ساری دنیا کی معلومات و تازہ ترین خبریں، دنیا کے ہر فرد ہر جگہ رابطہ رسائی و دوستیاں ، فیکس،سکینر،کیمرہ، ای میل ، آڈیوویڈیو چیٹ کانفرنسنگ،بہترین تعلیم ویونیورسٹیاں، ای کامرس، شاپنگ،دعوت دین اور بے شمار کام 24گھنٹے انسان کی انگلیوں کے نیچے ہیں، اس میں اتنے فوائد،اتنی معلومات اورایسا لطف ہے کہ لوگ اپنی بیوی بچوں، نیند، تعلیم ، مذہب ،نوکری وکاروباراور سب کچھ بھول کر اس کے نشے میں دن رات مست رہتے ہیں۔

دیگر ہر چیز کی طرح یہ ٹیکنالوجی اپنے فوائد کے ساتھ مضمرات بھی ہمراہ لائی ہے جس میں ماحولیاتی آلودگی ، مادیت پرستی ،تعلیم، کیرئیر،ایمان وصحت اورفیملی لائف کو نقصانات وغیرہ شامل ہیں۔ اگر اس ٹیکنالوجی کا اچھا استعمال کیا جائے تو یہ اس سے مفید شے ہی کوئی نہیں اور اگر غلط کیا جائے تو پھر اس سے برا ہم نشین بھی کوئی نہیں۔لیکن پاکستان میں خصوصا اس ٹیکنالوجی کا زیادہ غلط ہی استعمال کیا جا رہا ہے معروف گوگل سرچ انجن کے تجزیہ کے مطابق غلط مواد دیکھنے میں پاکستان پور ی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے پھرترتیب سے مصر، ویت نام، ایران، مراکو، انڈیا، سعودی عرب، ترکی ، فلپائن اورپولینڈ کا نمبر ہے۔

دیگر عالمی وسائل کی طرح اس میڈیا پربھی غیر مسلم ممالک کی اجارہ داری ہے جو اس میڈیاکو مادہ پرستی، فحاشی پھیلانے ،پراپیگنڈہ اور مسلمانوں کی دل آزاری کیلئے استعمال کرتے ہیں اسلئے مسلمانوں کیلئے جدید ذرائع پریشانی کا باعث بھی بن رہے ہیں ۔ اسلام کاایک بنیادی اصول ہے کہ جس چیز کا نقصان اس کے فائدے سے بہت زیادہ ہو وہ چیز اسلام نے حرام کی چیز مثلاً شراب ،جواوغیرہ۔ پاکستان کی مقامی معروف انٹرنیٹ سروس پرووائڈر کمپنی کے سی ای او کے مطابق ان کے ریکارڈ میں 80فیصد سے زیادہ پاکستانی اس کو منفی مقاصد کیلئے ہی استعمال کر تے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے نزدیک”بخشوبی بلی چوہا لنڈوراہی بھلا”کے مصداق ایسی ٹیکنالوجی گھر میںلانی ہی نہیں چاہیئے جو ایمان کو تباہ کرکے جہنم کے گڑھے میں گرانے کا باعث بن جائے کیونکہ بعض اوقات اس کی ایک غلط کلک انسان کی دنیا و آخرت تباہ کرسکتی ہے۔

ناقدین کے مطابق احادیث میں جاندار کی تصویر بنانے والے کیلئے قیامت والے دن سخت عذاب کی وعید ہے تویہ عریاں جنسی مواد کیسے جائز ہو جاتاہے جوپہلے کمپیوٹر ولیپ ٹاپ کی حد تک محدود تھا اب اینڈرائیڈ موبائل کے ذریعے ہر مرد عورت کے ہاتھ تک پہنچ چکا ہے۔ان کے مطابق اس جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے وقت فحاشی سے بچنا ناممکن ہے مثلا ً فیس بک ،ویب سائٹس، ای میل کھولنے پر بلیو اور جنسی عریاں مواد و اشتہار بھی اچانک خود بخود سامنے کھل جاتے ہیں۔ فحش گانے فلمیں ، مجرے اور عریاں جنسی مواد دیکھا جاتاہے تو کس طرح ،کہاں اور کس کس چیز سے ،کیسے کیسے بچا جا سکتا ہے،اسلام میں فحاشی کے قریب بھی جانا منع ہے اور کبیرہ گناہوں کے ساتھ بے حیائی والے کاموں کے خصوصا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں بار بار اس سے منع کیا گیا ہے۔ اس میڈیا پر غیر مسلموں کی حکمرانی ہے وہ وہی مواد دکھائیں گے جو وہ چاہتے ہیں انکی اور ہماری اخلاقی اقدار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

لیکن برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی یہ دیکھ کر پریشان ہو گئے کہ ان کا 11سالہ بیٹانیٹ پر کچھ عام تعلیمی موادکی ویڈیوز تلاش کر رہا تھا تو اس کے سامنے بار بار غیر متعلقہ جنسی مواد کی ویڈیوز کھل رہی تھی۔ ہمارے یہاں شادیاں بھی شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بہت لیٹ عمر میں کی جارہی ہیں تو نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کے ہاتھوںمیںفحاشی بھرے مواد کی رسائی دینے والے موبائل آخر کارکچھ تو گل کھلائیں گے ہی۔ مغرب کا معاشرہ تو ریپ ،بچوں کے ساتھ زیادتی اورجنسی طور پر مادر پدر آزاد ہے لیکن ہمیں اس کے منفی اثرات سے بچنے کیلئے اسلامی نظام معاشرت کے تحت نوجوانوں کا جلد از جلدبلوغت کو پہنچتے ہی نکاح کردینا چاہیئے ورنہ اس کا منفی استعمال نئی نسل، معاشرتی نظام ،صحت ،ایمان ، تعلیم ، سمیت غیرت و حمیت کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

صحت پر برے اثرات میں آنکھیں کمزور ہو رہی ہیں، جنسی کمزوری ،کمر ، گردن، کلائی ، بازو ٹانگیں درد سمیت نت نئی بیماریاں ایسی ٹیکنالوجی کے زیادہ اور غلط استعمال کی وجہ سے عام ہو رہی ہیں اور ساری زندگی کی معذوری فیملی و سوشل لائف کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے مخالفین کے مطابق تعلیم،سکول،مسجد، قرآن کو ہاتھ لگانے ،ماں باپ کی خدمت ،کھانے سونے جاگنے کا کسی کو پتہ نہیں اس موئے موبائل، ٹیبلٹ اور کمبخت سوشل میڈیا اوراس کوچارجنگ کرنے کے نشے سے فرصت ہو توکوئی اور کام کریں۔ نمازی نمازیں بھول کر اس میڈیم میں کھو ئے رہتے ہیں۔ لڑکے لڑکیاں اچھی خاصی رقم مہنگے موبائلوںوانٹرنیٹ پیکج پر اجاڑ دیتے ہیں۔پہلے فون پر آواز سنتے اور دوستیاں کرتے تھے اب ایک دوسرے کو فیس بک وموبائل پر غیر اخلاقی تصاویر ویڈیو بھیجتے اور فحش چیٹنگ کرتے ہیں ۔ 3Gاور4G نے تو مزید تباہی کر دی ہے کہ موبائل لے کر جہاںمرضی اولاد کونے کمرے میں بیٹھ کر جو مرضی غیر اخلاقی مواد دیکھے اور آوارہ لڑکوں اورلڑکیوں سے دوستیاںو تعلق قائم کرے ماں باپ کو علم ہی نہیں ہوتا اور تب پتہ چلتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔

جہاں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے دین کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف عالمی میڈیا ،خبر رساں ادارے و اخبارات اس ٹیکنالوجی کو اسلام و مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں مقبوضہ کشمیر ،برما، عراق، افغانستان ،بوسنیا، چیچنیا ،فلسطین ، عافیہ صدیقی اور دیگر مسلمانوں پر مظالم کی خبریں چھپاتے ہیں اور ملالہ یا چرچ پر حملہ جیسی خبر کو آگ کی طرح پھیلادیا جاتا ہے۔ امریکہ بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک جو مسلمانوں پر انتہا درجے کا ظلم کر رہے ہیں وہ بھی پراپیگنڈہ کے زور پر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرلیتے ہیں۔ لوگ ایسا مواد دیکھ کر ملک ودین سے متنفر ہوسکتے ہیں ۔ ملک دشمنی والے موادکو مکمل طور پر روکنا بھی مشکل ہے۔انٹرنیٹ پر اسلام کے خلاف گمراہ کن مواد کی بھی کوئی کمی نہیں جو مسلمانوںکومرتد بھی کرسکتا ہے ۔ فیس بک پرمسلمانوں کی غیرت ختم کرنے اور دل آزاری کرنے کیلئے اسلام اور پیغمبر اسلامۖکے توہین آمیز، غیر اخلاقی کارٹون اور مواد کے پیجز موجود ہیں۔

اس کے مکمل فوائد سے مستفید ہونے اورمضر اثرات سے محفوظ رہنے کیلئے گھریلو سطح پرکمپیوٹرکو مرکزی مقام پر رکھنا، فیملی سافٹ وئیر اور سی سی ٹی وی کیمرہ جیسے اقدامات کئے جا سکتے ہیں او ر قومی سطح پر غلط مواد کی فلٹریشن کے نظام کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔کئی گلف ممالک و سنگا پور وغیرہ میں فلٹریشن کا عمدہ نظام قائم ہے ، یو کے کے موجودہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون،یورپین یونین کی پارلیمنٹ، انڈیاکی سپریم کورٹ، آئس لینڈ، مصران ممالک کی لسٹ میں شامل ہیں جو ایسے مواد پر مکمل پابندی چاہتے ہیں۔

مسلم ممالک کو مغربی ممالک سے علیحدہ ، ہماری مذہبی اقدار سے ہم آہنگ ،انٹرنیٹ نظام وسوشل میڈیا ویب سائٹس بنانی چاہئیں ،پورے معاشرے کی اخلاقی و معاشرتی بنیادوں کی تباہی سے بہتر ہے کہ کم لیکن اچھے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ویب سائٹس پر اکتفا کرلیا جائے تاکہ ہم اس ٹیکنالوجی کے اچھے فوائد سے مستفید ہو سکیں۔

Naeem Ul Islam

Naeem Ul Islam

تحریر : نعیم الاسلام چودھری