counter easy hit

بھارت‘ مرکز اور ریاست کے تعلقات میں کشیدگی

ٹرینمول کانگریس اور بی جے پی کے درمیان مرکز اور ریاستوں (صوبوں) میں موجود کشیدہ تعلقات کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ مرکزی ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) نے مغربی بنگال میں بی جے پی کے دفتر کی حفاظت کے اقدامات کیے جس سے یہ پیغام ملا کہ مرکز حتمی اتھارٹی ہے جس کی اپنی فورس ہے اور جو اپنے احکامات پر عملدرآمد کرا سکتا ہے۔ جب مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے کہا کہ وہ خود بھی حکومتی  اختیار رکھتی ہیں تو گویا اس نے مرکز  کے اختیار کو چیلنج  کر دیا جب کہ اس کے نزدیک ریاستی حکومت کی اپنی ایک مضبوط حیثیت تھی۔

بھارت ایک وفاقی سیاست کا حامل ملک ہے جس میں ریاستوں کو خود مختاری حاصل ہے جس کا ذکر آئین میں واضح طور پر کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے کئی فیصلوں میں اعلان کیا ہے کہ مرکز کو ریاستوں کے اوپر ناجائز دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بھارت میں ریاستوں اور مرکز کے مابین کشمکش کی کہانی بہت پرانی ہے جس کے مظاہر پہلے بھی نظر آ چکے ہیں بالخصوص کیرالہ اور مرکز کی آویزش جو کہ کمیونسٹ ریاست ہے اس کی مرکز کے ساتھ کشیدگی کئی مواقع پر نمایاں رہی ہے۔

نئی دہلی حکومت نے کئی مرتبہ اس ریاست پر صدارتی راج نافذ کیا ،آزادی کے فوراً بعد ای ایم ایس نمبودری پد کیرالہ کے وزیراعلیٰ تھے ان کے نئی دہلی حکومت کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے یہاں پر  کانگریس کی حکومت تھی جو حفاظتی حراست کے قانون میں توسیع کرنا چاہتی تھی جب کہ ریاستی وزیراعلیٰ کا موقف تھا کہ یہ کام برطانوی نو آبادیاتی حکومت کرتی تھی جس کا اب وطن کی آزادی کے بعد کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے۔

مزید برآں یہ ہماری جمہوری سیاست کے منافی ہے۔ چنانچہ انھوں نے متذکرہ ایکٹ کے نفاذ کی کھل کر مخالفت کی گو کہ پورے ملک کے وزرائے اعلیٰ میں وہ واحد حکمران تھے جنہوں نے مرکز کی بات ماننے سے کھل کر انکار کر دیا جب اس کا فیصلہ نمبودری پد کی پارٹی تک پہنچا تو پارٹی نے بھی اپنے وزیراعلیٰ کی بھرپور حمایت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست کیرالہ میں ریلوے کی ہڑتال ہو گئی جس میں کیرالہ کی حکومت نے ریلوے کے ہڑتالی ملازموں کی حمایت کی۔

ہڑتالی ملازمین نے حکومتی حمایت پا کر ریاست میں مرکزی حکومت کے دفاتر کو آگ لگانے کی دھمکی دے دی جب کہ مرکز نے اپنے دفاتر کی املاک کو بچانے کے لیے مرکزی ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کو وہاں تعینات کر دیا اس کے بعد ریاست کی صورت حال بہت ناگفتہ بہ ہو گئی کیوں کہ ریاستی پولیس نے بھی مرکز کے احکامات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا چنانچہ بالآخر مرکزی حکومت کو بھی ریلوے کارکنوں کے مطالبات منظور کرنے پڑے۔

بعدازاں حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ مرکزی وزیر داخلہ کو سختی سے مداخلت کرنا پڑی جس کا مقصد یہ تھا کہ ریاست اپنے طور پر اس تنازع کو رفع کرنے کی کوشش کرے جس کے اثرات ملک کے دیگر علاقوں تک نہ پھیلنے پائیں جب ریاست میں دوسری پارٹیاں بھی اقتدار میں شامل ہوئیں تو سرکاری بندوبست کامیاب ہونے کے بجائے اور زیادہ پیچیدگی کا شکار ہو گیا۔ 1977ء میں یہ تجربہ حکومت کو بند کرنا پڑا کیوں کہ جنتا پارٹی جس میں کہ بہت سی پارٹیاں شامل ہو گئی تھیں اسے مرکز کی حکومت مل گئی۔ بصورت دیگر بھی مرکز اور ریاستوں کے تعلقات میں زیادہ ہم آہنگی نہیں تھی۔

بالخصوص بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد باہمی ہم آہنگی اور زیادہ خرابی کا شکار ہو گئی۔ اس حوالے سے آر ایس ایس بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی جب کہ بی جے پی کی سینئر قیادت ملک کے اتحاد کو قائم رکھنے کی اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ لیکن جہاں تک ریاستوں کے ساتھ اختلافات کا تعلق ہے تو اترپردیش‘ اتراکھنڈ‘ پنجاب‘ منی پور اور گووا میں انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ ان تمام ریاستوں کی قیادت اس کے ہاتھ آ جائے۔

وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امیت شا اپنا اقتدار حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ مودی اور امیت شا نے انتخابات سے پہلے اپنی تقاریر میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ متذکرہ پانچ ریاستوں کا اقتدار ہر حالت میں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ سماج وادی پارٹی کے لیڈر ملائم سنگھ نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی متحد رہے گی اور ان کے بھائی شیوپال یادیو کی طرف سے منفی ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔

وزیراعلیٰ اخلیش یادیو کے پاس اراکین اسمبلی کی اکثریت موجود ہے لہٰذا انھیں ہٹانے کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ویسا ہی مسئلہ ہو ’’جسے محاورے میں چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پارٹی کی شہرت کو ضعف ضرور پہنچا ہے۔ اخلیش کو اس سے فائدہ ہو گا کیوں کہ ووٹروں کے نزدیک اس کا تاثر صاف شفاف سیاستدان کا ہے جو کہ اپنی حکومت میں شفافیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی طرف سے عوامی بہبود کے اقدامات کا بھی ووٹروں پر مثبت اثر ہوا ہے۔ جو آیندہ آنے والے معرکوں میں اس کی مکمل حمایت کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ پنجاب کی صورت حال مختلف ہے۔ اکالی دل اور بی جے پی کے اشتراک سے ممکن ہے کہ عام آدمی پارٹی اتنی اکثریت حاصل نہ کر سکے جتنی اس کو توقع ہے۔ منی پور اور گووا میں مقامی عناصر کامیابی حاصل کریں گے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website