counter easy hit

یوم آزادی کے قومی تقاضے

14 August

14 August

تحریر : سجاد علی شاکر
14اگست، یومِ آزادی یقینا پاکستانی قوم کیلئے مسرت، خوشی و شادمانی والادن ہے۔عزیز ہم وطنوں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم کے باعث ہم اپنا 69واں یومِ آزادی منا رہے ہیں۔ہمیں آزادی کے نعمت سے مالا مال کیا اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کا جس قدر شکر ادا کرسکیں کم ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت برستی ہے حالیہ دور گزرے تمام ادوار سے بڑھ کر قوم کے اتحاد کا متقاضی ہے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر مسائل و مشکلات سے دوچار ہونے کے باعث اس روایتی جوش و جذبے سے نہیں جو اس کا خاصا ہوتا ہے۔ اس متبرک موقع کا انتخاب خود قدرتِ کاملہ نے کیا اور علامہ اقبال کے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کے تصور کو عملی جامہ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پہنایا۔ پاکستان عظیم ترین مقاصد کیلئے حاصل کیا گیا تھا۔

یہ مقاصد قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے ان الفاظ میںواضح کئے تھے کہ :”پاکستان کا قیام جس کیلئے ہم گذشتہ دس سال سے مسلسل کوشش کر رہے تھے اب خدا کے فضل سے ایک حقیقت بن کر سامنے آچکا ہے لیکن ہمارے لئے اس آزاد مملکت کا قیام ہی مقصود نہ تھا بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی اسلامی روش اور ثقافت کے مطابق نشو و نما پا سکیں اور اسلام کے عدل عمرانی کے اصول پر آزادانہ طور پر عمل کر سکیں”۔ (اکتوبر 1947ئ، پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کراچی میں خطاب)بدقسمتی سے قائداعظم قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی رحلت فرما گئے۔

اسکے بعد جوبھی حکمران آئے انہوں نے قیام پاکستان کے مقاصد اور قائد کے رہنما اصولوں کو فراموش کر دیا جس کے باعث وطن عزیز طرح طرح کے بحرانوں، مسائل، مشکلات اور مصائب کا شکار ہے۔ آج اندرونی و بیرونی محاذ پر ہمیں بدترین ناکامیوں کا سامنا ہے۔ قائدکے بعد کے آنیوالے حکمران تو تقسیم ہند کے ایجنڈے کو ہی مکمل نہ کرا سکے۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا اور اسے جارح بھارت کے پنجہ استبداد سے چھڑانے کیلئے لشکر کشی کا حکم دیا جس پر جنرل گریسی نے عمل نہ کیا اور بعد میں آنیوالا ہر حکمران قوم کیلئے گریسی ثابت ہوا۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں گیا جس نے کشمیریوں کیلئے استصواب کو اس مسئلے کا حل قرار دیا۔

بھارت نے اسے وقتی طور پر تسلیم کیا مگر بعد میں اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیدیا اور اس پر وہ ہنوز ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔خود کو قائداعظم کا جانشین قرار دینے والے حکمران مسئلہ کشمیر پر مصلحت کشی سے کام لے رہے ہیں۔ بلاشبہ ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات ہونے چاہئیں لیکن بھارت ایسے ہمسائے سے نہیں جو تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس نے کشمیر کے بعد سیاچن کے ایک بڑے حصے پر بھی قبضہ کرلیا۔ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے اور سیاچن سے بھارت فوجیں واپس بلالے تو اسکے ساتھ دوستی’ تعلقات اور تجارت پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ بھارت کے ساتھ تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر طے کئے بغیر اسکے ساتھ تعلقات’ تجارت اور دوستی کا کوئی جواز نہیں ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح بھارت کے ساتھ یکطرفہ دوستی کیلئے بے قرار نظر آتی ہے۔ بھارت کو پسندیدہ ترین قوم قرار دینے کے خبط میں مبتلا ہے۔

دوسری طرف بھارت کا رویہ بدستور جارحانہ اور متکبرانہ ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کے دورے پر لداخ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” پاکستان دراصل (بھارت کے ساتھ) روایتی جنگ لڑنے کی سکت نہیں رکھتا اسی لئے وہ بھارت کے زیر کنٹرول علاقوں میں مسلح شدت پسندوں اور دراندازوں کی حمایت کر کے پراکسی (درپردہ) جنگ لڑ رہا ہے۔ سیاچن کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔” نریندر مودی ایک طرف پاکستان کو روایتی جنگ کا چیلنج دے رہے ہیں’ دوسری طرف سیاچن پر سمجھوتہ نہ کرنے کی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ سیاچن متنازعہ علاقہ نہیں ہے’ یہ پاکستان کا حصہ ہے جس پر بھارت نے جارحیت کرکے قبضہ کرلیا۔

مودی اس پر بھی بات کرنے پر تیار نہیں۔ کشمیر کو پوری بھارتی سیاسی قیادت اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتی ہے۔ آئے روز بھارتی فوج ورکنگ باونڈری اور لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کرکے پاک فوج کے سپوتوں اور عام پاکستانیوں کو شہید اور زخمی کر دیتی ہے۔ ان حالات میںبھی بھارت کے ساتھ دوستی’ تجارت اور تعلقات کا راگ الاپنا حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف بلکہ بزدلی ہے۔ حکمران جماعت مصلحتوں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے قوم کی رہنمائی کرے’ سفارتی محاذ پر کوششیں تیز کردیں’ جنگ سے حتی الوسیع گریز کیا جائے۔ اگر ضرورت پڑے تو نریندر مودی کو یہ کہنے کا موقع نہ دیا جائے کہ ”پاکستان بھارت کے ساتھ روایتی جنگ لڑنے کی سکت نہیں رکھتا۔” اندرونی طور پر بھی ہم خلفشار کا شکار ہیں۔

آج ہم ان حالات میں یوم آزادی منا رہے ہیں کہ فوج دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے۔ آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری ہے۔ دہشت گرد ضرب عضب سے قبل پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں مفرور دہشت گرد بھی شامل ہو رہے ہیں۔ فوج پورے ملک سے دہشت گردوں کے خاتمے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس کیلئے قوم کا فوج کے شانہ بشانہ ہونا لازم ہے۔پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے اور جمہوریت کی بقاء کی سب سے زیادہ ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی غیرسنجیدگی سے عوامی مسائل بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں جس کو عوام جمہوریت کی ناکامی گردان سکتے ہیں۔ حکمرانوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ بہرحال جمہوریت جیسی بھی ہے’ آمریت سے بدرجہا بہتر ہے۔ سیاست دان مل جل کر اسے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

آج یوم آزادی قوم کیلئے تجدید عہد کا دن ہے کہ ہم وطن کو عظیم سے عظیم تر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے کسی قربانی سے گریز نہیں کرینگے’ پاکستان کو مضبوط بنانے اور قیام پاکستان کے مقاصد حاصل کرنے کیلئے آئیے ہم سب پاکستانی متحد ہو جائیں اور ملک و جمہوریت دشمن عناصر کو اپنے ایجنڈے میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ملک پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا آزادی کا عظیم تحفہ ہے جسے انہوں نے دن رات انتھک محنت کر کے حاصل کیا مگر اس ملک پر جو بھی حکمران آیا اس نے اس کو خوب لوٹا اور کھایا مگر اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا یہ پاکستان پھر بھی ختم نہ ہو سکا۔ قائم و دائم ہے اور انشاء اللہ قائم و دائم رہے گا۔

پھر سے یوم آزادی آنیوالا ہے ہم ملک پاکستان کے تاریخی مقامات پر جھنڈے لہرا کر 1947 ء کی آزادی کی یاد تازہ تو کر لیتے ہیں مگر اس ملک کے حالات درست نہیں کر سکے۔ اس ملک کو برباد کرنے والے بھی کوئی کسر نہیں رہنے دیتے۔ عوام کو رشوت، مہنگائی، بے راہ روی کا شکار کر دیا جاتا ہے۔ کیا قوم آزادی کا اصل مقصد حاصل کرپائے گی؟ عوام چاہتے ہیں کہ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بے روز گاری کرپشن، دہشتگردی وغیرہ سے ملک کی جان چھڑائی جائے اور ملک پاکستان کو صحیح معنوں میں آزادی کی نعمت سے ہمکنار کیا جائے۔
پاکستان زندہ باد۔

Sajjad Ali Shakir

Sajjad Ali Shakir

تحریر : سجاد علی شاکر
sajjadalishakir@gmail.com
03226390480