counter easy hit

بحر ہند کی تہہ میں

ماہرین ارض،ارضی سائنسدانوں کی کاوشوں کی وجہ سے دنیا کے حوالے سے روایتی تصورات تحلیل ہوتے جارہے ہیں ویسے تو بیسویں صدی کے دوران ہی سائنس و ٹیکنالوجی ارضی اور فلکیاتی علم نے ترقی کی طرف پیش رفت شروع کردی تھی لیکن چاند پر انسان کی رسائی کے بعد فلکیاتی شعبے میں مسلسل پیش رفت جاری ہے۔ ان پیش رفتوں کا سنجیدگی سے جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ انسانی زندگی زمین وآسمان کے حوالوں سے ایسی ایسی روایات ایسے ایسے رواجوں میں جکڑی ہوئی ہے جن سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر انسان کسی شعبہ حیات میں ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔ ماہرین ارض اورماہرین فلکیات کی تحقیق کے مطابق کرہ ارض کی عمر 4 ارب سال ہے۔ اس طویل عرصے میں کرہ ارض کن کن مراحل سے گزرا ، اس حوالے سے ہماری معلومات بہت کم ہیں لیکن تحقیق اور تجسس نے کائنات اور کرہ ارض کے بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھادیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

تازہ انکشافات کے مطابق ماہرین ارض اور ارضی سائنسدانوں نے یہ پتا چلالیا ہے کہ ماریشیس میں بحر ہند کی تہہ کے نیچے 20 کروڑ سال پہلے ایک پورا براعظم موجود تھا جو براعظم گونڈوانا کا حصہ تھا۔ جنوبی افریقہ کی وٹ واٹراسٹینڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے ایسے منرلز دریافت کیے ہیں جو صرف ایک براعظم کی تشکیل میں کام آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ منرلز 3 ارب سال پرانے ہیں۔ موریشیس بیسویں صدی میں دریافت ہونے والے جزیرہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور مڈغاسکر کے درمیان کبھی ایک براعظم ہوا کرتا تھا جوگونڈوانا کے ٹوٹ کر بکھر جانے کے بعد سمندر میں غرق ہوگیا تھا۔ اس تحقیق سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ 4 ارب سالوں کے دوران کرہ ارض ناقابل یقین تبدیلیوں سے گزرتا رہا ہے۔ ہمارے ماہرین ارض کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو اسی صدی کے دوران دنیا کے کئی ساحلی شہر سمندر برد ہوجائیں گے۔

ان حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرہ ارض کئی قیامتوں سے گزرچکا ہے۔بلاشبہ ان جغرافیائی تبدیلیوں اور زندگی کے خاتمے اور حیات نو سے ہماری زندگی کی گاڑی کسی نئی قیامت تک چلتی رہے گی لیکن اس حوالے سے اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقائق سے ناآشنا ماضی میں انسان نے جن معلومات کی بنیاد پر انسانی زندگی تشکیل دی تھی کیا وہ معلومات آج کی زندگی سے ہم آہنگ ہیں؟ ہم نے ان ہی کالموں میں بارہا، اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ہر دور کے عقائد و نظریات اپنے دورکے علم اورمعلومات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ اس واشگاف حقیقت کے باوجود انسان نے عقائد ونظریات کو انسانوں کی بھلائی انسانوں کی یکجہتی کے بجائے انسانوں کی تقسیم اور تقسیم کے حوالوں سے انسانوں کے درمیان نفرتوں، تعصبات اور قتل و غارت گری کے لیے استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں دنیا کا وہ منظر نامہ ہمارے سامنے ہے جس میں انسان رنگ، نسل، زبان، ملک وملت، دین دھرم کے حوالوں سے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہے۔پچھلے 4 ارب سالوں کے دوران جانے کتنی قیامتیں آئیں اورکرہ ارض جانداروں سے خالی ہوگیا اور جانے کتنے طویل عرصے بعد کرہ ارض پر زندگی نمو پاتی رہی۔ انسان کی تاریخ تو اس کی دسترس میں ہے لیکن جغرافیہ اس کی دسترس سے باہر ہے۔

کیا آج کا انسان کرہ ارض کی تاریخ کو سامنے رکھ کر زندگی کا کوئی ایسا فلسفہ تخلیق کرسکتا ہے جو فانی انسان کو امن، خوشحالی، محبت اور انسانی بھائی چارے کی طرف راغب کرسکے؟ میرے سامنے آج کے تازہ اخبارات ہیں جو دل ہلا دینے والی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ دنیا کی واحد سپر پاورکے صدر ٹرمپ نے ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں اس لیے عائد کردیں کہ اس نے ایٹمی میزائل کا تجربہ کیا۔ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ہم ایک ناتجربہ کار شخص کی بے کار دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوں گے۔اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے جو اقدامات ضروری ہوں وہ اقدامات کریں گے۔ اقوام متحدہ کے لیے امریکا کے سفیر نکی ہیلی نے یوکرائن میں روس کے جارحانہ اقدام کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے 2014 میں روس پر لگائی جانے والی پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ماسکو مقبوضہ خطے کو یوکرین کے حوالے نہیں کردیتا۔ ایک اور خبر کے مطابق ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اسے بھارتی تسلط سے آزاد کرا کر ہی دم لیں گے۔‘‘ ہمارے سپہ سالار جنرل باجوہ نے کہا ہے کہ ’’سرحد پار سے ہونے والی ہرجارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے۔‘‘

ایک بھارتی ترجمان کا کہنا ہے کہ ’’ حافظ سعید کے خلاف کارروائی کے لیے پاکستان کو ہر ثبوت دستیاب ہے بس سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔‘‘ ایک اور خبر کی سرخی اس طرح ہے ’’آزاد و مقبوضہ کشمیر میں یوم مزاحمت، سری نگر میں مظاہرے۔‘‘ ایک اور خبرکے مطابق ’’پیرس کے عجائب گھر میں خنجر لہراتا ہوا حملہ اور فائرنگ میں زخمی۔‘‘ اخبارات میں شایع ہونے والی چند خبروں کا حوالہ ہم نے اس لیے دیا کہ دنیا کے بدترین منظرنامے کا کچھ حصہ قارئین کے سامنے آسکے۔

دنیا دانشوروں، مفکروں، فلسفیوں، ادیبوں، شاعروں سے بھری ہوئی ہے۔ دنیا کے اس خوفناک منظرنامے کو تبدیل کرنے میں دنیا کے 7 ارب انسان کوئی کردار اس لیے ادا نہیں کرسکتے کہ ان کا سارا وقت دو وقت کی روٹی کے حصول میں گزر جاتا ہے۔ دنیا میں موجود ہزاروں دانشور، مفکر، فلسفی اس منظرنامے کو تبدیل کرنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ وہ خود اس منظرنامے کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ آج کے ماہرین ارض نے بحر ہند کی تہہ میں ایک بڑا براعظم تلاش کرلیا ہے آنے والے کروڑوں سال بعد ہوسکتا ہے اس دور کے ماہرین ارض بحر ہند کی تہہ میں براعظم ایشیا دریافت کرلیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website