counter easy hit

عمران خان خان کے پہلے 50 دنوں میں انہیں ناکام بنانے کے لیے رچائی گئی سازشوں کا پوسٹ مارٹم ۔۔۔ باخبر صحافی نے ڈی سی اوز کے الزامات سے لیکر ڈی پی او پاکپتن کیس تک سارے واقعات کی اصلیت سامنے رکھ دی

لاہور (ویب ڈیسک) لاہور میں روزانہ نہ جانے کتنے مرد و خواتین اپنے اپنے گھروں سے ننگے پائوں داتا گنج بخشؒ پہنچتے ہیں۔ صوفی بزرگ بابا فریدؒ سے اسی طرز کی عقیدت رکھنے والی خاور مانیکا کی بیٹی اپنے بھائی کے ساتھ جب ان کی درگاہ کی جانب پیدل ننگے پائوں جا رہی تھی‘
نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ تو ان بہن بھائیوں کے ساتھ پولیس کے شرمناک رویے کا سن کر کسی بھی ماں باپ کا غصے میں آنا‘ کیا فطری بات نہیں؟یہاں اگر سڑکوں پر مظاہرے اور نعرے لگانے والی خاتون کو پولیس روکنے کی کوشش کرے‘ تو چادر اور چار دیواری کی حرمت کا شور مچ جاتا ہے‘ تو کیا رضوان گوندل کی اور ان کے محب سیاستدانوں کے علا وہ دنیا میں باقی کسی کی کوئی عزت نہیں ؟ وزیر اعلیٰ ہائوس میں اپنی آمد کے بعد ” کھسر پھسر‘‘ کے ذریعے پلانٹڈ طوفان کھڑا کرنے والے یہ شہباز شریف کے آگے گھٹنوں تک جھکنے والے پولیس افسر اس وقت کہاں ہوتے ہیں ‘جب ان کے ماتحت اہل کاروں کو پنجاب کی ہر کچہری اور کورٹ میں تھپڑوں اور مکوں سے وکلاء سبق سکھاتے ہیں؟ ڈی پی او صاحب اور آر پی او ساہیوال کی وردی اور عزت صرف آپ کی ہے؟ کسی ماتحت اہل کار کی کوئی عزت نہیں ہوتی؟ ان پولیس اہلکاروں کے ماں باپ‘ بیوی بیٹے اور بیٹیاں نہیں ہوتیں ‘جو ٹی وی چینلز پر اپنے شوہر ‘باپ اور بھائی کو وکلاء کے تابڑ توڑ مکوں اور تھپڑوں سے ذلیل و رسوا ہوتے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
ثمر عباس سب انسپکٹر‘اگر قصور وار تھا تو بھی اسے مارے جانے والے تھپڑوں‘ گھونسوں اور وردی کی بے حرمتی کے مقابلے میں رضوان گوندل پاکپتن کے ڈی پی او کا تبادلہ زیا دہ توہین آمیز کیوں سمجھ لیا گیا ہے؟یہی بات آئی جی طاہر صاحب کو کہی گئی ‘لیکن انہوں نے نہ تو اپنی وردی کی عزت کا پاس کیا اور نہ ہی ایک سب انسپکٹر کی عزت کی ۔کیا شارق کمال اور رضوان گوندل یا شہزاد اکبر نے ہر روز وکلاکے ہاتھوں پٹنے والے پولیس اہلکاروں کی پہنی ہوئی وردی کی بے عزتی پر کبھی آواز اٹھائی ہے؟؟۔ رضوان گوندل ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے آفٹر شاکس ابھی تک وزیر اعلیٰ ہائوس کبھی سی پی او سندھ کراچی تو کبھی سپریم کورٹ اور اس کے باہر دور دور تک وقفے وقفے سے محسوس کئے جا رہے ہیں اور خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ تو ایک ڈی پی او کے تبادلے کی وجہ سے اب تک نہ جانے کتنی سماعتیںہو چکی ہیں ملک بھر کا میڈیا ہر سماعت پر بریکنگ نیوز دیئے جا رہا ہے اور اس جرم عظیم پر وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت ان کا سٹاف اور دوسرے پولیس افسران جن میں آئی جی سندھ کلیم امام بھی شامل ہیں‘
ان سب کے جم غفیر کا ہر پیشی پر آنا جا نا لگا ہوا ہے اور یہ سب کوئی مفت میں نہیں‘بلکہ اس پر اب تک نہ جانے حکومت پاکستان کے خزانے سے کتنے لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ ہوائی جہازوں کے کرایوں اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں رہنے کے اخراجات الگ سے عوام کی گردن پر ڈالے جارہے ہیں۔جب یہ کالم لکھ رہا تھا تو شکر ہے کہ یہ معاملہ نمٹا دیا گیا ہے۔ یہ تمام پولیس افسران اور وزیر اعلیٰ سمیت ان کا سٹاف ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ان کے ساتھی وکلاء کی سپریم کورٹ اسلام آباد آمد ورفت کے اخراجات پنجا ب کے عوام اپنے ٹیکسوں کی صورت میں برداشت کرتے رہے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ بھاشا ڈیم‘ گردشی قرضوں‘ پی آئی اے‘ سٹیل مل اور کشمیر سے بھی زیا دہ رضوان گوندل کا تبادلہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘جو کچھ ہوا ہے اسے معمولی مت سمجھئے‘ یہ سب کچھ تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت کے خلاف ڈی سی چکوال اور راجن پورکے بعدخلاف پانچواں پلانٹڈ حملہ تھا۔ سب سے پہلے حملہ افضل کھوکھر نے ایس ایچ او ہنجروال کو کہہ کر ندیم راؤ کے خلاف ا س کی کامیابی کا لیکشن رزلٹ آنے پر کرایا تھا ‘جو اس موبائل کا ریکارڈ دیکھنے کے بعد ثابت کیا جا سکتا ہے‘
جسے یہ تمام پولیس افسران استعمال کرتے رہے ‘اس کیلئے آئی ایس آئی اور آئی بی کو حکومت کی مدد کرنے کیلئے میدان میں آنا ہو گا۔ اگر ڈی پی اوضوان گوندل کے وزیر اعلیٰ ہائوس بلائے جانے اور پھر وہاں سے تبادلہ کئے جانے سے پولیس کی توہین ہوئی ہے ‘تو جناب چیف جسٹس آپ نے دیکھا نہیں یا کسی نے آپ کو بتایا نہیں کہ ثمر عباس نامی پنجاب پولیس کے سب انسپکٹر اپنی فل وردی پہنے سرکاری فرائض انجام دے رہے تھے کہ ان کو تھپڑ وں‘گھونسوں سے مارتے ہوئے اس کو وردی سمیت زمین پر گھسیٹا گیا‘تو پولیس کی توہین کیوں محسوس نہیں ہوئی‘ نہ ہی شارق کمال آر پی او ساہیوال اور نہ ہی رضوان گوندل نے اس پر احتجاج کیا ۔ جناب والا یہ کسی ایک ثمرعباس کی بات نہیں‘ اب تک نا جانے کتنے ثمر عباس قانون کے مقدس پیشے سے وابستہ وکلاء کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتے دیکھے جا چکے ہیں ‘لیکن شاید عزت صرف پی ایس پی کی ہوتی ہے کہ کبھی تبادلے‘ تو کبھی ایک رکن قومی اسمبلی کی فون کال سے ان کی توہین ہو جاتی ہے ؛اگر ملک کرامت نے منشا بم کیلئے فون کیا تھا ‘تو ڈی آئی جی کہہ سکتے تھے کہ
معذرت میں قانون کے مطابق عمل کروں گا‘لیکن سوچنے والی بات ہے کہ بات کہاں تک پہنچا دی گئی؟ کیا ڈی آئی جی حلفیہ بتا سکتے ہیں کہ ان کی اب تک کی سروس میں کتنے اراکین اسمبلی کے ملزمان کے بارے میں انہیں فون آئے اور انہوں نے چیف جسٹس کو ان سے آگاہ کیا؟” میں حلفیہ لکھ رہا ہوں کہ گزشتہ دس برسوں میں 100 سے زائد پی ایس پی افسران حمزہ شہباز کے دفتر کے باہر اپنی کسی ضلع میں پوسٹنگ کیلئے بیٹھے رہتے تھے۔آج احسن اقبال گجر تو یاد ہے‘ کیا حمزہ شہباز یاد نہیں؟ اس کے دفتر کی سی سی ٹی وی ویڈیو زکسی دن اس ملک کے حساس ادارے دکھا دیں تو یہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے کہ کس طرح گریڈ 18 سے21 ‘بلکہ 22 کے افسران حمزہ شہباز کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے۔کچھ لوگوں کی فلم دیکھ بھی چکا ہوں‘ ان میں ڈی ایم جی اور پی ایس پی کے معزز چہرے بھی ہیں۔ لاہور کے ڈی آئی جی ایک فون کال اور پاکپتن کے ڈی پی او کے تبادلہ پر بھونچال آ گیا‘ لیکن ثمر عباس؛ اگراس سے بظاہر کوئی غلطی بھی ہوئی تھی ‘تو وہ بے چارہ‘ کیونکہ صرف ایک سب انسپکٹر ہے ‘

وہ یا تو رینکر ہو گا یا پوربیشنر ‘جن کی پی ایس پی کے نزدیک کیا عزت ہو سکتی ہے؟ انہیں جب چاہیں جتنا چاہیں وکلاء ماریں پیٹیں ‘وہ کوئی پی ایس پی تھوڑی ہے۔ بے چارے سپاہی حوالدار اے ایس آئی سب انسپکٹر اور انسپکٹر یہ تو پولیس افسران کے غلام کہلاتے ہیں اور غلاموں کی بھی کوئی عزت ہوتی ہے ۔غلام تو ہوتے ہی مار کھانے کیلئے ہیں۔ طارق سلیم ڈوگر اور مشتاق سکھیرا کی انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب تعیناتی کے دوران آئے روز ڈسٹرکٹ کورٹ‘ سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ میں وکلاء کے ہاتھوں پولیس کی وہ درگت بنتی کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے اور یہ اس لئے چپ رہا کرتے کہ راجا کے ناراضی کا ڈر تھا۔ افسوس کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار جوانوں اور افسروں کی کمانڈ کرنے والوںکے منہ سے اپنے اہل کاروں کی پٹائی دیکھ کر احتجاج کا ایک لفظ نہیں نکلا۔اس لئے کہ انہیں پولیس کی عزت و وقار کا نہیں‘ پاکستان کی دی ہوئی وردی کی حرمت کا نہیں ‘بلکہ اپنے وزیر اعلیٰ کے غصے کا خوف رہتا تھا ۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب اپنے کمرے میں دیوار پر آویزاں اس بڑے سائز کے آئینے میں کسی دن غور سے اپنے جسم پر پہنی ہوئی اس وردی کو دیکھیں ‘تو شاید انہیں احساس ہو جائے کہ وہ ایک فورس کے کمانڈر ہیں ۔