counter easy hit

سینٹ پیٹرز برگ میں

میں آخری دن پوشکن ٹاؤن گیا‘ ملکہ کیتھرائن کا محل بھی دیکھا اور پوشکن کا ڈاچا بھی‘محل دولت کا سفاکانہ قتل تھا جب کہ پوشکن کا گھر مسکین شاعر کا گھر تھا‘ سادہ مگر پروقار۔ زار کا دوسرا محل سینٹ پیٹرز برگ میں تھا‘ یہ ونٹر پیلس کہلاتا ہے اور یہ بھی زمین پر انسانی صناعی کا نقطہ کمال ہے‘ ملکہ ایلزبتھ آرٹ کے خبط میں مبتلا تھی ‘ اس نے اپنے زمانے کے تمام بڑے آرٹس بھی خرید لیے تھے اور قدیم فن پارے بھی‘ آپ کو پیرس کے لوومیوزیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی آرٹ کولیکشن ونٹر پیلس میں ملتی ہے‘ محل میں تین ہزار مجسمے اور پینٹنگز ہیں اور ہر پینٹنگ پانچ پانچ سو ملین ڈالر مالیت کی ہے۔ ونٹر پیلس انسانی المیوں کی عبرت گاہ بھی ہے‘ پہلا المیہ ملکہ ایلزبتھ تھی‘ ملکہ نے اربوں روپے خرچ کرکے دنیا کا مہنگا ترین محل بنوایا لیکن وہ محل مکمل ہونے سے پہلے انتقال کر گئی‘ وہ ممتاز محل کی طرح اپنا شاہکار نہ دیکھ سکی۔ دوسرا المیہ الیگزینڈر دوم تھا‘ الیگزینڈر دوم روس کا انقلابی زار تھا‘ اس نے 1861ء میں روس میں غلامی پر پابندی لگا دی‘ تمام کسانوں‘ ہنر مندوں اور غلاموں کو آزاد کردیا لیکن یہ آزادی المیہ ثابت ہوئی‘ کسان اور مزدور نسل در نسل غلام چلے آ رہے تھے‘ آزادی کیا ہوتی ہے یہ لوگ سرے سے نہیں جانتے تھے‘ مالکان نے حکومت کے دباؤ میں آ کر انھیں نکال دیا‘یہ لوگ پرائیویٹ کام نہیں جانتے تھے‘ غلامی ان کے ڈی این اے کاحصہ بن چکی تھی چنانچہ یہ بھوکے مرنے لگے‘ دوسری طرف لینڈ لارڈز بادشاہ کے خلاف ہو گئے۔ بادشاہ پر سات حملے ہوئے لیکن وہ بچ گیا‘ آخری حملہ نہر کے کنارے ہوا‘ بادشاہ نہر کے کنارے کھڑا تھا‘

کسی نے اس پر بم پھینک دیا‘ بادشاہ کی بگھی تباہ ہو گئی لیکن وہ بچ گیا‘ پولیس نے مجرم کو گرفتار کر لیا‘ بادشاہ نے مجرم سے لائیو تفتیش شروع کر دی‘ اس دوران مجرم کا دوسرا ساتھی بم لے کر آیا اور بادشاہ کے قریب پہنچ کر بم پھاڑ دیا‘ یہ تاریخ کا پہلا خودکش بارودی حملہ تھا‘ حملہ آور مارا گیا لیکن بادشاہ شدید زخمی ہو گیا‘ بادشاہ کے جسم کا آدھا خون بہہ گیا‘ خون پتھروں پر گرا اور جم گیا‘ بادشاہ کے بیٹے اور اگلے بادشاہ الیگزینڈر سوم نے ان پتھروں کے گرد شاندار چرچ تعمیر کرایا‘ یہ واقعہ 1881ء میں پیش آیا تھا چنانچہ چرچ کی اونچائی 81 میٹر رکھی گئی‘ یہ چرچ آج بھی موجود ہے اور یہ بلڈ کیتھڈرل کہلاتا ہے‘ یہ پیٹرز برگ کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ بادشاہ چھ دن نزع کے عالم میں رہا‘ ڈاکٹر اس کا خون نہ روک سکے اور یوں وہ انتقال کر گیا لیکن اس کے خون کے دھبے آج بھی زمین پر موجود ہیں اور ان دھبوں کے گرد چرچ بھی‘ میں چرچ بھی گیا اور آنجہانی بادشاہ کے خون کے دھبے بھی دیکھے‘ الیگزینڈر دوم ونٹر پیلس میں فوت ہوا تھا‘ محل کی دیوارپر اس کی پینٹنگ موجود ہے اور محل کا آخری المیہ انقلاب روس تھا‘ لینن نے انقلاب کا آغاز سینٹ پیٹرزبرگ سے کیا تھا‘ لینن کی تقریروں نے پورے ملک میں آگ لگادی‘ عوام نے ونٹر پیلس کا گھیراؤ کرلیا اور 15 مارچ 1917ء کو نکولس دوم کا تختہ الٹ دیا‘ روس کے آخری زار نکولس دوم اور ملکہ الیگزینڈرا کو گرفتار کر لیا گیا‘ انقلابیوں نے نکولس دوم کو خاندان سمیت قید میں ڈال دیا‘ 16 اور 17 جولائی 1918ء کی درمیانی شب انقلابیوں نے شاہی خاندان کے تمام افراد قتل کر دیے ‘ کوئی بچہ اورکوئی بچی تک نہ بچی تاکہ بانس تک محفوظ نہ رہے‘ میں ونٹر پیلس کا وہ ڈائننگ ہال دیکھنے کے لیے خصوصی طور پر ونٹر پیلس گیا جہاں شاہی خاندان نے پناہ لی تھی۔ میز پر کراکری رکھی تھی اور کرسیوں کے زاویے تک انقلاب کی اس خونی شام جیسے تھے‘ روس کے آخری بادشاہ نے خاندان کے ساتھ اس ہال میں اپنا آخری شاہی کھانا کھایا تھا‘ دربار ہال کے دروازے اور کھڑکیاں کھلی تھیں‘ کھڑکیوں سے سمندر کے اداس پانیوں کا بین سنائی دے رہا تھا‘ بادشاہ نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور اس کی سلطنت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی‘ وہ ان گندے‘ بدبودار اور میلے لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا جنھیں وہ انسان نہیں سمجھتا تھا‘ وہ اس کی نظروں میں چمپینزی تھے‘ نکولس دوم اور ملکہ الیگزینڈرا کی پینٹنگ شاہی گیلری کی آخری دیوار کے آخری کونے میں لگی تھی‘ وہ دونوں شاہی لباس میں تھے لیکن نہ جانے کیوں ان کے چہروں پر اداسی کے جال بچھے تھے‘ انقلابیوں نے صرف بادشاہ کی کہنہ عمر ماں کی جان بخش دی‘ماںماریہ فیوڈوروونا ملک نہیں چھوڑنا چاہتی تھی لیکن وہ خاندان کے قتل کے بعد لندن شفٹ ہونے پر مجبور ہوگئی‘

وہ وہاں سے ڈنمارک چلی گئی اور 13 اکتوبر1928ء کو ڈنمارک میں انتقال کیا اور روسی حکومت کے حکم پر اس کی لاش روس لا کر دفن کر دی گئی یوں شاہی خاندان کے تمام افراد روسی زمین پر اکٹھے ہو گئے۔سینٹ پیٹرز برگ کمال شہر ہے‘ فضا میں ایک طراوت‘ ایک مدہوش غنودگی ہے‘ یہ دوستوفسکی‘ پوشکن اور ترگنیف کا شہر تھا‘ ٹالسٹائی‘ میکسم گورکی اور چیخوف بھی لاتعداد مرتبہ سینٹ پیٹرز برگ آئے اور اس کی فضا میں اپنی خوشبو چھوڑ گئے‘ آپ اگر بلڈ کیتھڈرل سے نہر کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے شہر کی مرکزی شاہراہ کی طرف آئیں تو مرکزی پل کے کنارے اپارٹمنٹس کی ایک بلڈنگ ہے‘ بلڈنگ کے نیچے ’’لٹریری کیفے‘‘ ہے‘ آپ کو پوشکن‘ دوستوفسکی‘ ٹالسٹائی اور گورکی کی اکثر تحریروں میں اس کا ذکر ملتا ہے‘ یہ کیفے 1816ء میں بنا اور یہ ادیبوں‘ اداکاروں‘ مصوروں اور موسیقاروں کا خاص ٹھکانہ ہوتا تھا‘ پوشکن قتل ہونے سے قبل 29 جنوری 1837ء کو اسی کیفے سے اٹھ کر گیا تھا اور پھر کبھی واپس نہیں آ سکا تھا‘ پوشکن کی کرسی 182سال بعد آج بھی کیفے میں موجود ہے‘ اس کی کراکری بھی قائم ہے‘ یہ کیفے آج بھی آباد ہے اور دنیا جہاں کے ادیب‘ مصور اور سیاستدان یہاں آتے ہیں اور دیر تک یہاں بیٹھتے ہیں۔ میں نے پانچ مئی کی پوری شام وہاں گزاری‘ دیواروں پر ان تمام مشاہیر کے ناموں کی تختیاں لگی تھیں جو یہاں آتے اور بیٹھتے تھے‘ کیفے کی فضا میں ادب اور فن کی خوشبو بھی تھی اور احترام کی حرارت بھی‘ سیڑھیوں کے سامنے دیوار پر پوشکن کی پینٹنگ بنی تھی‘ وہ گارڈن میں بیٹھا تھا‘ اس کے ہاتھ میں گلدستہ تھا اور وہ سیڑھیوں سے اترنے والے ہر شخص کو دیکھ کر مسکراتا تھا‘ وہ اسی گلی میں نہر کی دوسری طرف اپارٹمنٹ میں رہتا تھا‘ یہ گلی ونٹر پیلس کے قریب تھی‘ پوری گلی میں اپارٹمنٹس کی عمارتیں تھیں‘ زار کے دور میں یہاں امراء رہتے تھے‘ یہ اپنے اپارٹمنٹ اور کمرے کرائے پر بھی دے دیتے تھے‘ پوشکن کرائے پر رہتا تھا‘ کرائے کا یہ فلیٹ بھی اب عجائب گھر ہے‘ آپ ادب اور تخلیقی کام کا کمال دیکھیے اپارٹمنٹ کا مالک گمنامی میں مر گیا لیکن کرایہ دار اپارٹمنٹ کو بھی امر کر گیا‘ یہ اپارٹمنٹ اب عجائب گھر ہے اور یہ روزانہ اتنے پیسے کماتا ہے جتنے پوشکن پورے سال میں فلیٹ کے مالک کو ادا کرتا تھا۔میں سینٹ پیٹرز برگ آؤں اور میں دوستوفسکی کے گھر کی زیارت نہ کروں یہ کیسے ممکن تھا‘ عمیرلاہور کے رہائشی ہیں‘ یہ سینٹ پیٹرز برگ میں بزنس کرتے ہیں‘ یہ مجھے ملے اور مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا‘ عمیر نے میرے لیے گائیڈ کا بندوبست کر دیا‘ لوبا روسی گائیڈ تھی‘ میں نے اس سے دوستو فسکی کا گھر تلاش کرنے کی درخواست کی‘ لوبا نے بڑی مشکل سے وہ گھر تلاش کیا اور ہم ادب کے اس عظیم انسان کے اس اپارٹمنٹ کی طرف چل پڑے جہاں اس نے زندگی کا آخری حصہ گزارا تھا‘ دوستوفسکی کوئی دیوتا‘ صوفی یا اوتار نہیں تھا لیکن ادب پرست اس کی پرستش کرتے ہیں‘ یہ اسے ادب کا بھگوان سمجھتے ہیںاور ہم اس بھگوان کے دروازے پر کھڑے تھے۔