کراچی…..بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے یا ان سے شادی کے وعدوں پرجنسی تعلقات قائم کرنے کے کیسزکی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آئے دن میڈیا میں ایسے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جو قانوناً قابل گرفت ہوتے ہیں تاہم نیو دہلی میں سامنے آنے والےایک عدالتی فیصلے نے ملکی اور قانونی ڈھانچے کو ہلاکررکھ دیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لڑکا اور لڑکی کے خلوت میں پیش آنے والے تعلقات میںاگر لڑکی کی رضامندی شامل ہو تو یہ کوئی جرم نہیں۔ ایسے کیسز میںلڑکا عموماًشادی کے جھوٹے وعدوں پر لڑکی کو ورغلاتا ہے جن کے جھانسے میں آکر لڑکیاں دھوکا کھاجاتی ہیں اور انہیں اس بات کا بھی احساس بروقت نہیں ہوپاتا کہ وہ مریادہ کی حدود پار کرچکی ہیں ۔ ان کی آنکھ جب کھلتی ہے جب لڑکا شادی سے انکار کرتا ہے ۔ایسی صورت میں لڑکی کے پاس سوائے لڑکے کے خلاف دست درازی کا مقدمہ دائر کرنے کے کچھ نہیں رہ جاتا۔ دست درازی کے زیادہ ترمقدمات اسی تناظر میں سامنے آرہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک مقدمہ دارالحکومت نیو دہلی کی ایک عدالت میں سامنے آیا تاہم عدالت نے ملزم کو محض اس لئے مقدمے سے بری کردیا کہ جنسی تعلقات دونوں کی رضامندی سے قائم ہوئے تھے۔عدالت نے قرار دیا کہ دونوں جوانی کے خمار میں تھے اوراسی عالم میں جذبات کی رو میں بہہ گئے ۔بھارتی اخبارہندوستان ٹائمز کے مطابق لڑکی نے موقف اختیار کیا تھا کہ ملزم نے شادی کا جھوٹا وعدہ کرکے اس کی آبر وریزی کی ۔اس نے ملزم بخشی کےخلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 376 (عصمت دری) اور 506 (مجرمانہ دھمکیوں) کے تحت مقدمہ درج کرایا تھا۔عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج وریندر بھٹ نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک پر پیغامات کے ذریعے انہوں نے مراسم قائم کرنے پر اچھی طرح اورپیشگی اتفاق کیا تھا۔ یہ معمول کےپیغامات نہیں تھے۔لڑکی بھی مراسم بڑھانے پر رضامند تھی ۔لڑکی نے اپنی درخواست میں الزام عائد کیا کہ ملزم نے شادی کے جھوٹے بہانے کرکےاس کی اجازت کے بغیر دو بار اسے مجبور کیا ،جبکہ ملزم نے شادی کےاصرار پر اسے بدنام کرنے کی دھمکی بھی دی۔دنیا بھر میں عصمت دری کے آئے روز پیش آنے والے واقعات کے سبب دارالحکومت نئی دہلی کا امیج خراب ہورہا ہے۔ صرف سال 2014میں دست درازی کے1813کیسز رپورٹ ہوئےجبکہ 2013 میںاسی نوعت کے 1441کیسز سامنے آئے۔ ان میں زیادہ تر وہ کیسز ہیں جن میں لڑکے نے لڑکی سے دھوکہ دہی کے بعد شادی سے انکارکر دیا۔