counter easy hit

عمران خان کا دَورئہ چین و ایران اور درپیش بحران

پنجاب کے وزیر اطلاعات، صمصام بخاری کہتے ہیں کہ شکست تسلیم کرنا اور مشکلات سے گبھرانا عمران خان کی سرشت نہیں ہے۔ یہ بیان مبالغہ نہیں ہے۔ ہم سب کی بھی خواہش یہی ہے کہ مشکلات کے باوجود وزیراعظم جناب عمران خان کو ہر میدان میں کامیاب ہونا چاہیے۔

اُن کی کامیابی محض حکومتی اور نجی کامیابی نہیں ہو گی بلکہ ملک اور عوام بھی ساتھ ہی ثمرات سمیٹیں گے۔ وزیر اعظم صاحب خاصی بھاگ دوڑ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اب تک کئی ممالک کے دَورے کر چکے ہیں، صرف اس لیے کہ ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کر سکیں۔ حال ہی میں اُن کا چار روزہ دورئہ چین بھی خاصی اہمیت کا حامل تھا۔ چینی حکام اِس دَورے کے کتنے منتظر تھے، اس کا اندازہ پاکستان میں متعین چینی سفیر، یاؤ جنگ، کے اُس آرٹیکل سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو خانصاحب کے چین روانہ ہونے سے ایک دن پہلے ہمارے اخبارات میں شایع ہُوا ہے۔

وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان کا یہ دوسرا دَورئہ چین تھا۔ پیشِ نظر مقاصد وہی تھے: وطنِ عزیز کی معاشی درستگی۔ خانصاحب کو مگر اندرونی محاذ پر اتنی رکاوٹوں اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ اُن کے پاؤں منجمد ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔ یہ رکاوٹیں اب بحرانوں کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ وہ چند دن پہلے ایران جارہے تھے کہ عین موقع پر اور ماڑہ (بلوچستان) میں دہشتگردوں نے وہ خونی واردات ڈال دی جس میں ہماری سیکیورٹی فورسز کے درجن بھر جوان شہید ہوگئے۔اس بہیمانہ سانحہ کے جو بھی ذمے دار تھے، ہمارے وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس میں اُن کی واضح الفاظ میں نشاندہی کر دی ہے۔ بلوچستان میں کوسٹل ہائی وے پر خون کی یہ تازہ ہولی کھیلنے والوں نے دراصل ’’سی پیک‘‘ پر حملہ کرنے کی ناکام اور مذموم کوشش کی ہے۔ پاکستان اور چین کا مشترکہ اور متحدہ عزم ہے کہ دشمن چاہے جس شکل میں بھی سازش کر لے، چین پاکستان اقتصادی راہداری اپنی منزل تک پہنچ کر رہے گی۔

وزیراعظم عمران خان نے بیجنگ میں چینی حکام کے سامنے اِسی عزم کا پھر سے اعادہ کیا ہے۔ انھوں نے تہران میں ایرانی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا ہے۔ پاکستان نے نہایت صبر، عزیمت اور حکمت کے ساتھ اور ماڑہ کے سانحہ میں ’’بی آر اے‘‘ کے ملوث ہونے، اُن کے سہولت کاروں اور اُن کی ٹھیک ٹھیک لوکیشن کے بارے میں فرانزک شہادتیں ایران سے شیئر کی ہیں۔ اورماڑہ کے سانحہ کے آس پاس ہی عمران خان ایک نئے بحران سے گزرے۔ انھوں نے اپنی کابینہ میں جوہری اکھاڑ پچھاڑ کرکے ایک بڑا قدم اُٹھایا۔ اُمید رکھنی چاہیے کہ اس اکھاڑ پچھاڑ کے بطن سے خیر برآمد ہوگی۔

عمران خان کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی انھیں چاروں اطراف سے یلغار کرتے اتنے گمبھیر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت اگرچہ اپنے متنوع مقدمات میں بُری طرح اُلجھی ہُوئی ہے لیکن اپوزیشن قیادت کا یہ الجھاؤ بھی عمران خان کے لیے نت نئے بحرانوں اور چیلنجوں کا باعث بن رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان اپوزیشن کے جارح ارکان کا ’’لحاظ‘‘ کرتے پائے جاتے ہیں۔ میڈیا کا بیشتر حصہ بھی بوجوہ اُن کا ساتھ نبھاتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

ہر وزیر اعظم کی ایک میڈیا ٹیم ہُوا کرتی تھی۔ عمران خان صاحب کی میڈیا ٹیم کہاں ہے، کچھ معلوم نہیں۔ ایک تاثر یہ بھی اُبھرا کہ خانصاحب کے سابق وزیر اطلاعات اُن کے مسائل کم کرنے کے بجائے بڑھانے کا موجب بنتے رہے۔ اس بحران سے بخوبی نمٹنے کے لیے نئی مشیر اطلاعات کو میدان میں لایا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی، نون لیگ کی نسبت زیادہ مخالفت پر آمادہ ہے۔ شائد کسی موہوم  اور مبہم خوف پر قابو پانے کا ایک حربہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے لیے یہ فکر سوہانِ رُوح ہوگی کہ 9 ماہ گزرجانے کے باوجود وہ منتظر عوام کو کوئی بھی ریلیف نہیں دے سکے ہیں۔ وہ دل سے، بلاامتیاز، ملک کے تمام پسماندہ اور پِسے طبقات کو اوپر اُٹھانے کے متمنی ہیں، اس تمنا کا بار بار اظہار بھی کرتے رہتے ہیں لیکن اپنی تمناؤں میں ہنوز عمل کا رنگ نہیں بھر سکے ہیں۔

مہنگائی، گرانی اور بیروزگاری کے سبب بلند ہونے والی لاتعداد عوامی چیخیں یقینا اُن تک پہنچ رہی ہوں گی۔ وہ پریشان اور فکر مند بھی ہوں گے لیکن متنوع و سرکش بحرانوں نے انھیں اسقدر اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے کہ خواہشوں کے باوصف وہ اپنے کروڑوں چاہنے والوں کی دستگیری نہیں کر پا رہے۔ افراطِ زر بڑھا ہے اورورلڈ بینک نے یہ کہہ کر ہمیں اور بھی ڈرا دیا ہے کہ اگلے سال مہنگائی میں13.5 فیصد مزید اضافہ ہو گا اور یہ بھی کہ اگلے سال پاکستانی معیشت میں اور بھی گراوٹ آئے گی۔ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 25 فیصد کم ہو چکی ہے۔ مزید کمی کی سناؤنیاں بھی ہیں۔ وزیر اعظم اپنے ملک کو عالمی سیاحوں کے لیے پُر کشش بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا اظہار انھوں نے بیجنگ کی BRIکانفرنس میں بھی کیا ہے۔لیکن یہ بھی شائد جان گئے ہوں گے کہ اور ماڑہ اورکوئٹہ ایسے دہشتگردی کے واقعات کی موجودگی میں سیاحوں کو راغب کرنا کتنا دشوار امر ہے۔

ہرسیاستدان کی طرح اقتدار کے مرکزی ایوانوں تک پہنچنے کے لیے عمران خان نے بھی اپنے عوام کو بڑے بڑے خواب دکھائے۔عوام بیچاروں نے بھی اُن کے دعووں اور وعدوں پر صدقِ دل سے یقین کر لیا کہ عمران خان تو اُن کے دلوں میں بستے رہے تھے۔ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر شاید عمران خان صاحب کو احساس و ادراک ہُوا ہو کہ عوام سے کیے گئے وعدے ایفا کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ شائد اب وہ نواز شریف و دیگر سابقہ حکمرانوں کو درپیش مسائل زیادہ احسن طریقے سے سمجھ گئے ہوں۔ شائد انھیں یہ قلبی انشراح بھی ہو چکا ہوکہ اپنی مقتدر پارٹی کے اندر جب انتشار کی لہریں سر اُٹھاتی ہیں تو عنانِ اقتدار پر گرفت رکھنا کتنا دشوار ہو جاتا ہے۔

مالی بحرانوں کی زَد میں آئے جناب عمران خان پارٹی کے اندر بعض عناصر کے باہمی تصادم کا سامنا بھی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پارٹی کے اندر جنھیں وہ محبوب ترین رکھتے اور اہم ترین سمجھتے ہیں، اس چاہت سے پارٹی کے بعض ارکان کے دلوں میں بال آ چکا ہے۔ پنجاب میں حکومت کی دونوں اہم ترین سرکاری شخصیات کی شکر رنجیاں بے نیام اور بے نقاب ہو چکی ہیں۔ جن اتحادیوں کو مرکز مائل قوت بن کر خانصاحب کی تقویت کا باعث بننا چاہیے تھا، بوجوہ مرکزگریز قوت بن کر حکومت کے لیے مزید بحرانوں کا راستہ ہموار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ چند دن پہلے پنجاب کے گورنر ہاؤس میں چوہدری سرور کے عشائیے میں جہانگیر ترین اورقاف لیگ کی عدم شرکت نے دیکھنے سننے والوں کو نیا پیغام دیا ہے۔ جہانگیر ترین اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی باہمی کشا کش سے کیا وزیر اعظم آگاہ نہیں ہوں گے؟ گورنر ہاؤس میں کی گئی پریس کانفرنس میں چوہدری سرور کے لبوں پر آنے والے شکوہ شکایت کے کیا معنی ہیں؟ شنید ہے اُن کی اس پریس کانفرنس پر وزیر اعظم صاحب بھی برہم ہوئے ہیں۔

بطور گورنر اُن کا اپنی ایک فاؤنڈیشن سے تعلق منقطع کرنے کے پسِ پردہ کیا داستانیں ہیں؟ عوامی مسائل اور معاشی بحرانوں کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے اور محلاتی سازشیں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ وزیروں، مشیروں میں غیر منتخب ارکان کی تعداد روز افزوں ہے اور منتخب ارکانِ اسمبلی ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔نواز شریف کو مطعون کیا جاتا تھا کہ اُن کے پاس کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے اور اب حالت یہ ہے کہ کئی وزارتوں کے لیے وزیر اعظم صاحب کو منتخب افراد ہی نہیں مل رہے۔