counter easy hit

نامور صحافی کا عمران خان کو شاندار مشورہ

لاہور (ویب ڈیسک) کپتان جی! آپ بڑے معصوم ہیں، سیاست کو بھی کرکٹ سمجھ بیٹھے مگر ہماری سیاست کے بڑے پھیکے رنگ ہیں۔ یہاں خال خال ہی معجزے رونما ہوتے ہیں۔ یہ کرکٹ کا کھیل نہیں کہ ہارے میچ کی آخری بال پر کوئی ’’ٹل‘‘ لگ جائے اور گیند ہوا میں لہراتی بائونڈری کے پار ہو جائے۔ نامور کالم نگار عرفان اطہر قاضی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔آپ تو بڑے سخت گیر کپتان تھے لیکن سیاست کے اس میدان میں آپ اتنے تگڑے ثابت نہ ہوئے۔ آپ نے نو ماہ تک ان پر تکیہ کیا جن تلوں میں تیل نہیں تھا۔ آپ یقیناً بہادر ہوں گے مگر ہارے ہوئے لشکر میں۔ آپ کپتان سے وزیراعظم بن گئے مگر آپ کے اصول اور ہمت وہی رہی۔ آپ کو اسد عمر میں میانداد نظر آیا، عثمان بزدار کی شکل میں وسیم اکرم مگر کپتان جی! سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے رنگ نرالے ہیں۔ یہ کبھی آسمانوں کو چھوتی ہے تو کبھی گہری زمینوں میں دفن ہو جاتی ہے اور پھر کبھی اٹھنے کا نام تک نہیں لیتی۔ یہاں بڑے بڑے سیاسی پہلوان لمحوں میں چت ہو گئے، کپتان جی! آپ سے بہت شکوہ ہے، اب آپ ہمارے وزیراعظم ہیں، آپ نے گلی محلے کے ٹیپ بال کھلاڑیوں کو ٹیسٹ میچ کھیلنے پر لگا دیا۔ یہ کوئی عقل مندی تو نہیں۔ آپ میں ہزار خوبیاں، نیت پر کوئی شک نہیں، آپ کی دیانت کو بھی مان لیتے ہیں مگر جیب میں کھوٹے سکے ڈال کر دنیا کو فتح کرنے کی تدبیر کوئی دانش مندی تو نہیں۔ کپتان جی! آپ نے بڑی لاپروائی کی، بڑی بے احتیاطی کی۔ اپنا بلڈ پریشر ہائی کرکے سیاسی مخالفین کی ایسی تیسی پھیر دی۔ اپنی بھی حالت غیر کر لی۔ رہی سہی کسر آپ کی سابقہ ٹیم نے نکال دی۔ انہوں نے آپ کے کہنے پر حریفوں کا ایسا باجا بجایا کہ سب کی ’’پیں‘‘ بول گئی لیکن حکومت کا بھی ستیاناس کر دیا کہ ہماری قومی کرکٹ ٹیم کے روایتی انداز کی طرح مرکزی بلے باز کالی آندھی کے سامنے کیا ڈھیر ہوا کہ نو رنز پرچھ آئوٹ ہوگئے اور اب کمزور بلے بازوں کی ایک لمبی ٹیل کسی بھی وقت ڈھیر ہو جائے گی۔ اوپر سے مشکل یہ پڑی ہے کہ دوسری اننگز میں بھی اسی ٹیم سے کھیلنا ہے اور مخالفین کے رنز کا پہاڑ سر پر کھڑا ہے۔ آپ معجزے کے انتظار میں ہیں کہ بارش آ جائے اور یہ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ ڈرا ہی ہو جائے۔ ادھر پاکستانی عوام ہیں کہ اب بھی دعائیں مانگ رہے ہیں کہ کسی طرح آپ کی ٹیم پائوں پر کھڑی ہو جائے اور کوئی لمبی پارٹنر شپ لگے، چانسز اگرچہ بہت کم ہیں۔ اب آپ ون ڈائون آئیں یا مڈل آرڈر پر کھیلیں یا آخری بلے باز کے ساتھ میچ کو گھسیٹیں مگر صورتحال یہ بنتی جارہی ہے کہ کسی ایک ’’یارکر‘‘ پر پوری ٹیم ڈھیر ہو جائے گی۔ بڑی بدقسمتی ہے جس سیاسی ورلڈ کپ کی تیاری کو تقریباً دو دہائیاں لگیں اس کے نتائج مایوس کن نکلے۔ کپتان جی! آپ سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ کبھی کبھی بہت زیادہ پُراعتماد ہونا بھی بے بی ٹیموں کے ہاتھوں شکست کا باعث بن جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپ اپنی کپتانی کے جوہر دکھاتے، منیجر اپنا کام اور کوچ اپنی صلاحیتوں کو منواتا اور ٹیم میں کوئی ایک آدھ قابلِ بھروسہ، باصلاحیت کھلاڑی ہوتا جو ہارے میچ کو جتوا سکتا مگر آپ کو سمجھانا بھی تو بڑا مشکل کام ہے۔ آپ اپنی فطرت سے ہٹ کر بھی تو کچھ ماننے کو تیار نہیں ہوتے ورنہ اتنے یوٹرنز نہ لینا پڑتے کہ گھر کا راستہ ہی بھول گئے۔ اب تو آپ کے چاہنے والے بھی کہنے لگے ہیں کہ یہ کپتان نے کیا کر دیا۔ ہم مخالفین کو گالیاں دیتے رہے، میڈیا کا گلا گھونٹتے رہے اور آپ یوٹرنز پر یوٹرنز لیتے رہے۔ اب تو وہ بھی ناراض ہیں جو آپ پر مکمل بھروسہ کرتے تھے۔ انہیں آپ کے اچانک بڑے یوٹرنز پر اعتراض تو ہے ہی کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پتا نہیں یہ سب کچھ کیسے ہوگیا؟ اور کچھ شاہ محمود صاحب جیسے بھی ہیں جو پردہ پوشی کی خاطر کہتے ہیں کچھ فیصلوں کا پتا ہوتا ہے مگر ہر بات کہنے کی نہیں۔ وہ بھی بڑے کمال کے کھلاڑی ہیں۔ بظاہر تو نائب کپتان لگتے ہیں مگر ان کی اصل نظر مستقبل کی کپتانی پر ہی رہتی ہے۔ کپتان جی! اب تو صورتحال یہ نظر آرہی ہے کہ کھلاڑی میچ ہارنے کے بعد الگ الگ پروازوں سے گھروں کو لوٹیں گے اور یہ تتر بتر ٹیم نئی نئی سازشیں کرے گی۔ کبھی آپ کے خلاف تو کبھی اپنے خلاف۔ اس ٹیم کے کچھ کھلاڑی خود کو مستقبل کا کپتان سمجھنے لگیں گے۔ اب تو سوال یہ اٹھنے لگے ہیں کہ آپ نہیں تو پھر کون؟ ڈر یہ بھی ہے کہ کھلے میدان کے میچ میں کوئی ڈرامائی تبدیلی رونما نہ ہو جائے یا کوئی کھلاڑی دانستہ وکٹ کو ٹھڈا مار کر کوئی ہنگامہ برپا نہ کر دے۔ خدا کرے ایسا نہ ہو، اس طرح تو پوری دنیا میں ہماری ساکھ خراب ہو جائے گی۔ پہلے ہی بین الاقوامی کرکٹ ٹیمیں ہمارے میدانوں میں کھیلنے کو تیار نہیں، کچھ بیچ بچائو کا معاملہ کر لیں، بڑا دکھ ہوتا ہے آپ کو ناکام ہوتا دیکھتے۔ ایسے لگتا ہے آپ نہیں ہم ناکام ہوگئے۔ آپ نے بار بار ہمارا دل توڑا، ہم نے تو آپ کو گلے سے لگانے کی کوشش کی۔ آپ کو گلی محلوں میں بسنے والوں کی حقیقی داستانیں سنائیں۔ ہم تو ان کے دکھوں کا کچھ مداوا چاہتے تھے۔ ہم تو چاہتے تھے کہ آپ ریاستِ مدینہ کی طرح پاکستان کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں ننگے پائوں پھرتے، پسینے میں شرابور غریبوں کو گلے لگاتے مگر آپ نے تو غریبوں کے پسینے کو بُو سمجھا اور اپنا دامن بچا لیا۔ اب آپ کو کیا سمجھائیں؟ آپ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے شہیدوں کے یتیم بچوں، بیوائوں کو بروقت دلاسہ دینے چلے جاتے۔ آپ نے تو یوٹرنز لیتے یہ بھی نہ سوچا کہ مکران میں دشمن نے جو ہمارے دلوں پر چوٹ لگائی اس غم کو کچھ تو کم ہونے دیتے اور تبدیلی کا اعلان دو چار دن بعد کر لیتے۔ اُلٹا آپ تو چلے گئے وزیرستان جلسہ کرنے۔ کپتان جی! آپ نے ہمارا دل توڑ دیا، ہمارے خواب چکنا چور کر دیئے، آپ نے تو ہماری سچائی کو بھی ٹھوکر مار دی اور ہمیں بھی اپنا دشمن سمجھ لیا۔ کیا کیا ظلم، ستم نہیں سہا اس قوم نے۔ ہمیں تو اب کسی پر اعتبار نہیں رہا، ایک دن قبل تو آپ کہتے ہیں کہ میں بالکل کنفیوژ نہیں۔ اگلے دن آپ عوام کو اتنا کنفیوژ کر جاتے ہیں کہ سر گھوم جائے۔ کپتان جی! کچھ تو خیال کیا ہوتا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website