counter easy hit

عمران خان کھیل کے میدان سے….. سیاست کے میدان تک کا سفر….. کھیل سے سیاست کی طرف آنے والے دنیا کے نامور کھلاڑی

تحریر و تحقیق: اصغر علی مبارک

پاکستان تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان کی پارٹی نے عام انتخابات 2018 میں شاندار کامیابی کے ساتھ پہلی مرتبہ وفاق میں حکومت بنانا لی ھے اور پارٹی چیئرمین عمران خان پاکستان کے پہلےکرکٹر ھیں جو وزیر اعظم منصب تک پہنچے ھیں ۔ ایک کرکٹر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے عمران خان عالمی کپ جیتنے والے کپتان کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم بننے کا منفرد اعزاز حاصل کر لیا سابق کرکٹر اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 25 نومبر 1952 کو لاہورمیں پیدا ہوئے۔ تعلق نیازی قبیلے سے ہے۔ بچپن میانوالی میں گزرا۔ ایچی سن کالج، لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ پھر برطانیہ کا رخ کیا، وہاں اوکسفرڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔اوکسفرڈ یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔یہ کرکٹ کا میدان تھا، جہاں بین الاقوامی شہرت نے قدم چومے۔انھوں نے اپنے فرسٹ کلاس کیریر کا آغاز 1969 میں کیا، 1971 میں انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔پاکستان کو 1992 کا عالمی جتوانا ان کا بڑا کارنامہ تھا۔عمران خان کا شمار پاکستان کرکٹ کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے وہ پاکستان کے پہلے کپتان تھے، جن کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے بھارت اور انگلینڈ کو ان کی سرزمین پر ہرایا۔کرکٹ کے بعد سماجی خدمات کے میدان میں نام کمایا۔
کینسر کے مریضوں کے لیے لاہور میں شوکت خانم میموریل اسپتال بنانا ایک ایسا کارنامہ ہے، جس نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔ شوکت خانم پاکستان کا وہ پہلا اسپتال ہے جہاں کینسر کے مریضوں کو مفت علاج کی سہولت مہیا کی گئی۔انھوں نے 25 اپریل 1996کو تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ابتدائی کوششوں میں انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔2002 کے الیکشن میں وہ صرف میانوالی سے جیت سکے۔ 2008 میں انھوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔تاہم2013 میں ان کی جماعت ایک بڑی قوت اختیار کر چکی تھی ۔الیکشن مہم کے دوران اسٹیج سے گر کر شدید زخمی ہوگئے تھے پھر بھی اسپتال کے بستر سے انہوں نے اپنی جماعت کی قیادت جاری رکھی۔ 2013 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی ن لیگ کے بعد مقبول ترین جماعت ٹھہری۔ اس نے خیبرپختون خواہ میں حکومت بنائی اور بڑی اپوزیشن جماعت بن کر ابھری۔انھوں نے کرپشن کے خلاف علم بلند کیا۔ دھرنوں اور احتجاج کا راستہ اختیار کیا، جس کی وجہ سے منتخب حکومت کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔پی ٹی آئی ہی نے پاناما کیس کو ہائی لائٹ کیا، جس کی وجہ سے نواز شریف کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا،انھیں کئی ملکی و بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا، جس میں صدراتی ایوارڈ بھی شامل ہے۔انھوں نے تین شادیاں کیں۔ پہلی جمائما خان سے، دوسری ریحام خان سے۔ ابتدائی دونوں شادیاں طلاق پر منتج ہوئیں۔ انھوں نے تیسری شادی بشری بی بی سے کی۔عمران خان نے اپنے حالات زندگی کو کتابی شکل بھی دی، جو بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔ ان کی زندگی پر فلم اور ڈاکومینٹرزی بھی بنائی گئیں۔حالیہ انتخابات میں پانچ حلقوں سے بیک وقت فتح یاب ہوکر عمران خان ملکی سیاست کی مضبوط ترین سیاسی شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اور وہ سنہ 2018 سے 2023 تک پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ ان کے اقدامات اور فیصلے مستقبل میں دیرپا اثرات مرتب کریں گے۔پاکستانی عوام کو نیا کپتان اور عمران خان کو نیا سیاسی میدان مبارک ہو۔ کسی کھلاڑی کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ ایک ایسی ٹیم کو عالمی چیمپین بنادے جس کا کہیں شمار نہ ہو اور ایسی پارٹی کو اکثریت دلا دے جس کا کہیں امکان نہ ہو۔ عمران خان ناممکن کو ممکن بنانے کا فن جانتے ہیں ۔ عمران نے خوداپنی پارٹی بنائی اور مسلسل کشمکش کرتے رہے ۔ کئی ناکامیوں کے باوجود وہ بددل نہیں ہوئے بلکہ اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ نواز شریف و شہباز شریف اور آصف زرداری و بلاول بھٹو جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کو شکست فاش دے کر وزیراعظم بن جانا ایک حقیقت ھے عمران خان جس طرح پہلے کھلاڑی اور پھر سیاستداں ہے اسی طرح نواز شریف تاجر پہلے اور سیاستداں بعد میں تھے ۔ عمران خان نے نواز شریف کی بدعنوانی کے خلاف مسلسل جہاد کیا ۔یہاں تک کہ عدالت نے نواز شریف کو اقتدار سے محروم کروا دیا ۔ انہیں اور ان کی بیٹی مریم نواز کو ۱۰ اور ۷ سال کی سزا سنا دی، پاکستان کی عدالت نے ملک کے سربراہ کو سزا سنا کر ایک عظیم مثالقائم کی ۔اس بار انتخابات ایک غیر سیاسی وزیراعظم کی قیادت میں ہوئے ۔ نواز شریف کو جس وقت سزا سنائی گئی وہ برطانیہ میں اپنی اہلیہ کا علاج کرا رہے تھے۔ نواز شریف کو یقین تھا کہ پاکستان لوٹتےہی انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔اس کے باوجود وہ اس امید واپس آئے کہ ان کی اور بیٹی کی حراست کے سبب ہمدردی ووٹ انہیں کامیاب کوا ردیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ پاکستانی فوج نے اس بار دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے کسی جماعت یا رہنما کی کھل کر حمایت نہیں کی۔ اس مرتبہ نواز شریف کے گڑھ صوبہ پنجاب میں حافظ سعید کی تحریک اللہ اکبر (ملی مسلم لیگ) ، مولانا خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک پاکستان اور سپاہ صحابہ کے مولانا محمد احمد لدھیانوی کی راہِ حق پارٹی کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ ان کے سبب پاکستان تحریک انصاف کو کامیابی حاصل کرنے میں خوب مدد ملی ۔ اس طرح نواز شریف سے دومرتبہ شکست کھانے کے بعد پسندیدہ امیدوار عمران خان نون لیگ کو ہرانے میں کامیاب ہوگے ۔ ۔عمران خان’جدید پاکستان‘ کا نعرہ لگا کر انتخابی میدان میں اترے کھلاڑیوں نے کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے بڑے تجربہ کار سیاستدانوں کو کلین بولڈ کردیا۔عمران نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز خدمت خلق سے کیا تھا ۔ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد ان کے نام پر کینسر اسپتال قائم کرکے مستحقین کو مفت میں اعلیٰ طبی سہولیا ت فراہم کرنے کا مبارک قدم ان کوملک کے سب سے اعلیٰ عہدے تک لے گیا ۔ اس سفر کے بامِ عروج پر پہنچ کر عمران نے اعلان کیا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں نہیں رہیں گے بلکہ اس عمارت کو تعلیمی ادارے میں تبدیل کردیا جائے گا۔عمران خان نے کہا کہ وہ پاکستان کو مدینہ منورہ کے طرز پر ایک فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں ۔ عمران خان اگر پاکستان کو مدینہ کا ہلکا سا پرتو بھی بنانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ نہ صرف ملک کی عوام کے لیےباعثِ خیرو برکت ہو گا بلکہ ساری دنیا کے لیے نمونہ بن جائے گا ۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو شکوک و شبہات تھے ان کوانتخابی کامیابی کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں دور کردیا۔ کشمیر کے اندر امن و مان قائم کرنے کے باہمی مذاکرات کی پیشکش کرنے کے بعد عمران خان نے ہندوستان کے ساتھ ایک قدم کے جواب میں دوقدم بڑھنے کی خواہش ظاہر کرکے برصغیر ہندو پاک میں جوقابلِ تحسین مثبت فضا پیدا کی ہے ،اس کے لیے وہ خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں ،عمران خان پہلے پلیئر نہیں جنہوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا بلکہ ان سے قبل اور ان کے بعد بھی متعدد کرکٹرز نے کھیل کے میدان کو خیرباد کہنے کے بعد سیاسی میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ ھاکی ورلڈ کپ کے فتح اختر رسول مسلم لیگ نون اور قاسم ضیاء پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ممبر پنجاب اسمبلی رھے ……پاکستان میں سابق کھلاڑیوں کا انتخابی میدان میں طبع آزمائی کرنا کوئی نئی بات نہیں لیکن اس مرتبہ جہاں کوئی کھلاڑی کئی برس کے بعد انتخابی میدان میں اترا ہے وہیں کچھ پرانے کھلاڑی اس میدان کو ہی چھوڑے بیٹھے ہیں۔ہاکی کے سابق کپتان اختر رسول سولہ برس کے بعد دوبارہ الیکشن کے میدان میں اترے مسلم لیگ نواز سے اپنی عملی سیاست کا آغاز کرنے والے اختر رسول نے آخری بار انیس سو ستانوے میں انتخاب لڑا تھا۔قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان تین مرتبہ لاہور سے پنجاب اسمبلی کے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بھی رہے۔جبکہ ان کے ساتھی قاسم ضیاء نے سولہ سال کے بعد پہلی بار انتخاب میں حصہ نہیں لیا قاسم ضیاء دو مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزب مخالف اور پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔سابق کرکٹر سرفراز نواز اور عامر سہیل کے انتخاب نہ لڑنے کے فیصلے کے بعد عمران خان واحد کرکٹرتھے جو اپنی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ ہوتے ہوئے عام انتخابات میں بطور امیدوار سرگرم رھے ۔پاکستانی کرکٹر سرفراز نواز پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں مشیر کھیل رھےسابق کرکٹر سرفراز نواز نے پچیس برس کے بعد دوبارہ انتخابی سیاست کا رخ کیا اور گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات کے لیے اپنی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کی طرف اسی حلقے میں کاغذات نامزدگی بھی جمع کرائے جہاں سے عمران خان نے انتخاب لڑنا تھا۔تاہم سرفراز نواز نے بعد میں اپنے کاغذات واپس لے لیے جس پر ان کے بقول ان کے اس فیصلے سے ان کی جماعت کو بھی مایوسی ہوئی تاہم انہیں ایسا فیصلہ اپنی بیماری کے باعث کرنا پڑا۔سابق کرکٹر سرفراز نواز انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے رکن بنے تاہم انیس سو اٹھاسی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر ناکام ہوگئے۔ سرفراز نواز کیطرح سلیم ملک کا شمار پاکستان کے باصلاحیت کرکٹر میں ہوتا ہےاور وہ قومی کرکٹ ٹیم کے بہترین کھلاڑی رہے ہیں جنہوں نے اپنے 17سالہ کرکٹ کیرئیر میں کئی ریکارڈ قائم کیے۔ 1982ء میں سری لنکا کے خلاف اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں انہوں نے سینچری اسکور کرکے دنیا کے سب سے کم عمر سنچری بنانے والے بلے باز کا اعزاز حاصل کیا۔ 25جولائی 2017کوسلیم ملک نے لاہور میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما،چوہدری پرویز الہٰی سے ملاقات کی اور ق لیگ میں باقاعدہ شمولیت کے ساتھ ملکی سیاست میں قدم رکھنے کلا اعلان کیابہرام ڈنشا جی آواری پاکستان کی معروف کاروباری شخصیت ہونے کے ساتھ کراچی پارسی انجمن کے صدربھی ہیں۔ لیکن وہ کاروبار کے ساتھ کھیل اور ملکی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔وہ ملک کے معروف پیراک اور کشتی رانی کے کھیل سے منسلک تھے اورکھیل میں کئی میڈلز حاصل کیے۔1976ء اور 1980ء میں کراچی یاٹ کلب میں ’’کموڈور ‘‘کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے 1978ء میں بنکاک میں ہونے والے ایشین گیمز میں کشتی رانی کے مقابلوں میں منیر صادق کی پارٹنر شپ میں پاکستان کے لیے سونے کا تمغہ جیتا۔ 1982ء میں وہ نئی دہلی میں منعقد ہونے والے ایشین کھیلوں کے مقابلے میں پاکستان ٹیم کی طرف سے اپنی اہلیہ گوسپی کے ساتھ شریک ہوئے اور ملک کے لیے دوسرا طلائی تمغہ جیتا۔ 1978ء میں کینیڈا میں منعقدہ کشتی رانی کی عالمی چیمپئن شپ میں وہ نقرئی تمغہ جیت کر دوسرے نمبر پر رہے۔دسمبر 1981میں جب صدر ضیاء الحق نے ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ’’مجلس شوریـ‘‘ بنائی تو بہرام ڈی آواری کو پارسی برادری کی نمائندگی کے لیے اس کی رکنیت دی گئی۔1988 کے عام انتخابات میں وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بنے،سابق پاکستانی صدر فاروق لغاری پیپلز پارٹی کے دور میں صدر پاکستان بنے وہ ایشین گیمز میں میں پسٹل شوٹنگ ٹیم کا حصہ بھی رہے تھے ذیل میں ان عالمی کھلاڑیوں کا مختصر جائزہ پیش خدمت ھے جنہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا
..ایلک ڈگلس ہوم برطانیہ کے واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ بھی کھیلی۔ انہوں نے 1920 کی دہائی میں 6مختلف ٹیموں سے 10 فرسٹ کلاس میچز کھیلے جبکہ ایم سی سی کے دورہ جنوبی امریکا کی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔سیاست میں آنے سے قبل برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ایلک ڈگلس ہوم ایک مایہ ناز فرسٹ کلاس کرکٹر کے طور پہچانے جاتے تھے ،انگلینڈ کے کپتان گبی ایلن انہیں ایک موثر سوئنگ باولر سمجھتے تھے اور وزیر اعظم کا منصب چھوڑنے کے بعد 1966 میں ڈگلس ایم سی سی کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔
سری لنکا کو 1996 کا عالمی کپ جتوا کر دنیا کو حیران کر دینے والے کپتان ارجنا راناٹنگا نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا۔
کامیاب کپتان اور بلے باز رہنے کے ساتھ رانا ٹنگا کا سیاسی سفر بھی کامیابی سے جاری ہے اور انہوں نے ملک کے کئی اہم مناصب پر اپنی خدمات انجام دیں اور حال ہی میں وہ ملک کے نائب وزیر سیاحت کی خدمات انجام دے رہے تھے۔
1996 میں سری لنکا کو ورلڈ کپ جتوانے والے اہم اراکین کی بات کی جائے تو اروندا ڈی سلوا کے بعد دوسرا نام سنتھ جے سوریا کا نام ذہن میں آتا ہے جنہوں نے عالمی کپ میں اپنی جارحانہ بیٹنگ سے دنیا کے تمام باؤلنگ اٹیک کے چھکے چھڑا دیے۔اپنے کپتان راناٹنگا کی طرح جے سوریا نے بھی سیاست میں قدم رکھا اور پارلیمنٹ کا بھی حصہ بنے جہاں 2010 میں وہ اپنے آبائی علاقے متارا سے ایم پی بنے۔ سیاست کے بل بوتے پر جے سوریا نے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا اور 2011 میں انگلینڈ کا دورہ کرنے والی سری لنکن ون ڈے ٹیم میں منتخب ہو گئے تاہم کرکٹ کے میدان میں بھی اپنی سیاسی مہارت کا مظاہرہ کرنے سے باز نہ رہے اور ایک ون ڈے میچ کے بعد ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔
1960 میں بلے بازوں کے لیے ڈراؤنا خواب تصور کیے جانے والے ویسٹ انڈیز کے ویزلے ہال نے ٹیسٹ کرکٹ میں 192وکٹیں حاصل کیں اور کھیل سے کنارہ کشی کے بعد سیاست میں قدم رکھا۔انہوں نے بارباڈوس سینیٹ اور اسمبلی دونوں میں خدمات انجام دیں جبکہ 1997 میں وہ جزیرے کے وزیر سیاحت بنے۔ بعدازاں وہ چرچ منسٹر بنے اور پھر 2012 میں نائٹ بن گئے۔
چارلس برگس فرائی دنیا کے ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے متعدد کھیلوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی اور انگلینڈ کے لیے کرکٹ کے ساتھ ساتھ فٹبال کے میدان میں بھی نظر آئے۔صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے رگبی اور لانگ جمپ میں بھی شرکت کی اور مبینہ طور پر انہیں البانیہ کی بادشاہی کے تاج کی بھی پیشکش کی گئی تھی۔اپنی زندگی میں انہوں نے نیول اکیڈمی چلانے کے ساتھ ساتھ اسپورٹس میگزین بھی نکالا اور سیاسی میدان میں آمد کے بعد تین مرتبہ پارلیمنٹ تک رسائی کی کوشش کی لیکن ہر مرتبہ انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا،
نواب منصور علی خان پٹودی کا شمار بھارت کے عظیم ترین کپتانوں میں ہوتا ہے اور وہ اپنے دور کے بہترین فیلڈر بھی تصور کیے جاتے تھے۔انہوں نے 1971 اور پھر 1991 میں عام انتخابات میں شرکت کی لیکن دونوں مرتبہ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور یوں وہ سیاسی محاذ پر کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
47ٹیسٹ میچوں میں بھارت کی قیادت کا اعزاز رکھنے والے محمد اظہر الدین کا شمار ہندوستان کے کامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے اور ان کی زیر قیادت بھارت نے متعدد اہم فتوحات حاصل کیں۔2000 میں میچ فکسنگ اسکینڈل پر ان پر تاحیات پابندی عائد کی گئی جس کے ساتھ ہی ان کا انٹرنیشنل کیریئر اختتام پذیر ہو گیا اور انہوں نے سیاست میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔2009 میں وہ کانگریس کا حصہ بنے اور اسی سال انتخابات میں مرادآباد سے سیٹ جیت کر پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔اس کے علاوہ ونود کامبلی، کیرتی آزاد، جان آرلٹ، ٹیڈ ڈیکسٹر، جان میجر اور نوجوت سنگھ سدھو سمیت متعدد کرکٹرز نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور ملی جلی کامیابیاں حاصل کیں۔تاہم کرکٹ سے ہٹ کر ایک کھلاڑی ایسا بھی ہے جس نے کھیلوں سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور اپنے ملک کا صدر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
جیورج ویاہ کی قسمت اس وقت بدلی جب آرسینے وینگر نے 21سالہ فٹبالر کو کیمرون کے لیے کھیلتے ہوئے دیکھا اور انہیں یورپ لے کر آ گئے اور انہوں نے اے ایس موناکو کی ٹیم کو جوائن کیا۔جیورج ویاہ کو 1995 میں بیلن ڈی اور دیا گیااس کے بعد انہوں نے فٹبال کی دنیا کے نامور کلبوں جیسے پیرس سینٹ جرمین، چیلسی، مانچسٹر سٹی اور اولمپک مارسیلی کےساتھ منسلک رھے
جیورج فیفا ورلڈ پلیئر آف دی ایئر اور 1995 میں بیلن ڈی اور جیتنے والے اب تک واحد افریقی کھلاڑی ہیں۔تاہم وہ اپنے آبائی ملک کو نہ بھولے اور کھیل سے کنارہ کشی کے بعد سیاسی میدان میں قدم رکھتے ہوئے 2005 کے عام انتخابات سے قبل کانگریس فار ڈیموکریٹک چینج پارٹی بنائی اور ان کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا تاہم تعلیم مکمل نہ ہونے کے سبب وہ ناکام ہو گئے۔جیورج ویاہ نے گزشتہ سال لائبیریا کا منصب صدارت سنبھالا تھا2007 میں انہوں نے اپنا ہائی اسکول مکمل کرنے کے بعد فلوریڈا سے گریجویشن کیا اور 2014 میں سینیٹر منتخب ہو گئے۔2016 میں انہوں نے دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور اس مرتبہ فتح نے ان کے قدم چومے اور وہ دسمبر 2017 میں صدر منتخب ہوئے اور اس وقت لائبیریا کے صدر ہیں