counter easy hit

“Imam Zain-Ul-Abideen Day!”

"Imam, Zain-Ul-Abideen, Day!", a column, by, Assar, chohan, آج 14 فروری ہے اور دُنیا کے کئی ملکوں میں “ویلنٹائن ڈے” منایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک مخصوص طبقے میں ویلنٹین ڈے منانے کا رواج ہے اور بعض مذہبی طبقوں کی طرف سے اِس کی مخالفت کا رواج بھی۔ 14 فروری 273ءکو قدیم اٹلی کے “بشپ” (اعلیٰ درجے کے عیسائی پادری) “سینٹ ویلنٹائن” کی ”شہادت“ کے دِن عیسائی دُنیا میں ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں (میاں بیوی بھی) ایک دوسرے سے محبت اور خلوص کے اظہار کے لئے پھول، تہنیتی کارڈز اور مختلف قِسم کے تحائف بھجواتے ہیں۔
گذشتہ سال 14 فروری کو امریکی صدر براک اوبامہ نے ویلنٹائن ڈے پر اپنی نظم اپنی اہلیہ “میشال اوباما”کے نام منسوب کی تھی۔ موجودہ امریکی صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے سالِ رواں کے ”ویلنٹائن ڈے“ پر اپنی اہلیہ “میلانیا ٹرمپ”کے نام کوئی نظم منسوب کی ہے یا نہیں؟ مجھے یقین ہے کہ ”صدر ٹرمپ شاعرنہیں ہیں تو وہ نظم کیسے لکھیں گے؟۔ البتہ میرے دوست ”شاعرِ سیاست“ نے مجھے جنابِ ٹرمپ کی ایک پنجابی فَین خاتون کی طرف سے یہ ”ماہِیا“ ضرور بھجوایا ہے کہ ….
” گلّ سُن وے “ٹرمپ” ماہِیا!
وَیلنٹائن ڈے تے
دے مَینوں اِک “جمپ ” ماہِیا!“
ہمارے سیاستدانوں کی طرف سے ”وَیلنٹائن ڈے“ پر اپنی بیگمات سے محبت اور خلوص کے اظہار کے لئے اُن کے نام سے نظمیں منسوب کرنے کی خبر ابھی عام نہیں ہُوئی ہے۔ اِس لئے کہ نظم لِکھنے کے لئے کسی کا شاعر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 11 مئی کے عام انتخابات سے پہلے 7 اپریل کو پیپلز پارٹی کے شاعر سینیٹر چودھری اعتزاز احسن الیکشن کمشن لاہور کے دفتر میں اپنی اہلیہ¿ محترمہ بشریٰ اعتزاز کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے لئے گئے تو اُنہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے کہا تھا کہ” مَیں ” جورُو“ (بیوی) کا غُلام ہُوں، اِس لئے مَیں اُس کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے لئے آیا ہُوں“۔
جناب اعتزاز احسن نے یہ بھی کہا تھا کہ ”میری طرح صدر زرداری اور عمران خان بھی جورُو کے غُلام ہیں۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل اُلرحمن بھی اور انگلستان کا شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر بھی جورُو کا غُلام تھا۔ جناب اعتزاز احسن کے اِس بیان کی جناب آصف زرداری، جناب عمران خان، میاں نواز شریف اور مولانا فضل اُلرحمن نے تردید نہیں کی تھی، خاموشی اختیار کی تھی۔ 9 اپریل 2013ءکو ”نوائے وقت“ میں میرے کالم کا عنوان ”شاعرِ سیاست“ کا یہ شعر تھا کہ ….
”کِتنا اعلیٰ مقام جورُو کا؟
ہر کوئی ہے غُلام جورُو کا“
مَیں نے لِکھا تھا کہ ”عام طور پر 90 فیصد مرد جورُو کے غُلام ہوتے ہیں اور باقی 10 فیصد جھوٹ بولتے ہیں“ اور مَیں بقائمی ہوش و حواس حلفیہ بیان کرتا ہُوں کہ مَیں جورُو کا غُلام نہیں ہُوں کیونکہ میری دونوں بیویاں ”جنت مکانی“ اور ”خُلد آشیانی“ ہوگئی ہیں“۔
مَیں مولوی نہ ہونے کے باوجود ”ویلنٹائن ڈے“ منانے کا کبھی قائل نہیں رہا حالانکہ میری پہلی شادی آج سے 51 سال پہلے 14 فروری 1966ءکو ہُوئی تھی۔ مَیں نے اور میری مرحومہ بیوی اختر بانو (جِن کی وفات 29
جولائی 2000ءکو ہُوئی تھی) ہر سال سادگی سے اپنی شادی کی سالگرہ ضرور مناتے رہے لیکن اُس سالگرہ کا ”ویلنٹائن ڈے“ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میرے بیٹے اور بیٹیاں بھی اپنی اپنی شادی کی سالگرہیں مناتے / مناتی ہیں۔ ”ویلنٹائن ڈے“ نہیں لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ مَیں اور میری اولاد اندرون اور بیرون ملک ”ویلنٹائن ڈے“ منانے والے فرزندانِ و دُختران پاکستان کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جائیںاور اُن مولویوں کی حمایت کریں کہ جو اپنی مرضی کے ہر فعل کو خلافِ اسلام قرار دیتے ہیں۔
جو مولوی صاحبان عام جلسوں میں اور الیکٹرانک میڈیا پر پرانی اور نئی نسل کی معلومات کو تازہ کرتے رہتے ہیں کہ ”پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا“۔ وہ اِس حقیقت پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے کہ اُن کے اکابرین (خاص طور پر کانگریسی مولویوں) نے مصّورِ پاکستان علاّمہ محمد اقبال اور بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظم کے خلاف کُفر کے فتوے بھی دئیے تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل صحافیوں نے قائدِاعظم سے پوچھا کہ ” آپ شیعہ ہیں یا سُنّی؟“ تو قائداعظم نے کہا تھا کہ ”مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں لیکن ہر سال 21 رمضان اُلمبارک کو ہم سب مسلمان یومِ شہادت علیؓ مِل کر مناتے ہیں“۔ علاّمہ اقبال نے اپنے فرزند ڈاکٹر جسٹس (ر) جاوید اقبال کو تلقین کی تھی کہ ”اہلِ سُنّت کے مسلک پر قائم رہو لیکن اہلِ بیتؓ اور آئمہ اطہارؓ کا احترام لازمی ہے“۔
علاّمہ اقبال اور قائداعظم اپنے پاکستان کو ”اتحاد بَین اُلمُسلمِین“کی روشن مثال بنانا چاہتے تھے اور اُمتِ مُسلمہ کا مشعل بردار لیکن جب عید میلاداُلنبی ،آئمہ اطہارؓ اور اولیائے کرامؒ کے عُرس کے موقع پر مزارات اور جلوسوں پر خُودکُش حملے ہوں گے؟ اور خُودکُش حملہ آوروں کے سہولت کار ہماری نئی نسل کے ہر فعل کو خلافِ اِسلام قرار دیتے رہیں گے تو ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کا نام محض نام ہی رہے گا؟۔ مَیں اُن اولیائے کرام اور دروی صفت اِنسانوں سے بہت متاثر ہُوں جو بادشاہوں سے ملاقات کے لئے نہیں جاتے تھے بلکہ بادشاہ اُن سے ملاقات کو آتے (بعض اوقات ترستے) تھے۔ ایسے ہی ایک درویش صفت انسان راولپنڈی کے آغا حامد علی شاہ موسوی سے مَیں زندگی میں صِرف تین مرتبہ مِلا ہُوں۔
2007ءمیں مجھے سیّد قمر زیدی کے ذریعے آغا حامد علی شاہ موسوی کا پیغام مِلا کہ ”اثر چوہان صاحب!۔ دانشور، کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی کی کتاب ”مَصَابیح اُلجنان“ ( جنت کے چراغ) کا پیش لفظ لِکھ دیں“۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ مَیں نے لِکھ دِیا۔ کاظمی صاحب نے، کتاب میں میرے پیش لفظ کے آخر میں لِکھ دِیا تھا کہ ”اثر چوہان صاحب کا تعلق اہلِ سُنّت سے ہے لیکن آپ اہلِ بیتؓ کا بہت احترام کرتے ہیں“۔
آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی کے عِلم میں تھا کہ ”مَیں نے نعت ہائے رسولِ مقبول اور حضرت علی مرتضیٰ ؓ، حضرت امام حسینؓ، سیّدہ زینبؓ، امام زین اُلعابدینؓ، اپنے پیر و مُرشد خواجہ غریب نواز حضرت مُعین اُلدّین چشتیؒ اور کئی دوسرے اولیائے کرام کی منقبتیں لِکھی ہیں۔ ماہنامہ ”آستانہ“ اسلام آباد کے جون 2007ءکے شمارے میں حضرت امام زَین اُلعابدینؓ کے یومِ ولادت میری منقبت شائع ہُوئی تھی۔ کل (13 فروری کو ) مجھ سے سیّد عباس کاظمی نے ٹیلی فون پر کہا کہ ”اثر چوہان صاحب!۔ آج یومِ ولادتِ حضرت سجادؓ ہے اور آج مجھے دس سال پہلے کی لِکھی ہُوئی آپ کی منقبت بہت یاد آ رہی ہے“ تو معزز قارئین و قاریات! ایک دِن بعد ہی سہی، کیوں نہ آج ہم سب ’’امام زین العابدین ؑ ڈے ‘‘ منائیں؟۔ دس سال پہلے میری لِکھی ہُوئی منقبت کے تین شعر حاضر ہیں….
شاہانِ اہل بَیت کے شَہزادؓ ، آگئے
مَسجُود بھی ہے خَنداں کہ سجّادؓ ، آگئے
….O….
مِینار نُور ، مَشعل نہج اُلبلاغہ ہیں
اہلِ صَفَا کے مُرشد و اُستاد آگئے
….O….
یاد آئے جب نبِیرہ¿ مَولا علیؓ ، اثر
سب مومنِین کرب و بَلا ، یاد آگئے

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website