counter easy hit

اج میرا مرنے نوں جی کردا ۔۔۔۔ پاکستان میں کئی اہم وزارتوں پر فائز رہنے والے شخص نے اتنی مایوس کن بات کیوں کہہ ڈالی ؟ آپ بھی پڑھیے

لاہور ;سابق صوبائی وزیر پنجاب ٹی وی پر امیدواروں کے اثاثوں کے ٹکر چل رہے تھے اور حیران بلکہ پریشان کن حد تک  تھے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو کسی نہ کسی وقت برسرِاقتدار بھی رہے تھے۔ میرے سب سے چھوٹے بیٹے نے جو ابھی Job سے واپس آیا تھا

سابق صوبائی وزیر رانا اکرام ربانی اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ اور لیپ ٹاپ بھی نہیں اتار پایا تھا مجھ سے سوال کیا: ’’ابو آپ بھی تو وزیر صحت تھے‘‘؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، میرے بڑے بیٹے نے اسے بتایا کہ ’’جب ابو وزیر بنے تھے تو مخلوط حکومت تھی۔ ابو کے پاس 3/4اضافی وزارتیں بھی کافی عرصہ رہی ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کئی سوال پوشیدہ تھے۔ پھر اس نے ٹی وی کی طرف دیکھا، ان اثاثوں کے ساتھ انہیں صادق اور امین قرار دیا جا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ معزز و مقدس منتخب اداروں کے قابل تعظیم منتخب اراکین کے نام بھی آ رہے تھے، جنہیں میں بھی اچھی طرح جانتا تھا، بلکہ دنیا جانتی ہے۔ بدقسمتی سے ’’رشوت‘‘ ہمارے معاشرے کی رگ رگ میں سرایت کر گئی ہے۔ حرام حلال کی تمیز تو ہمارے علمائے دین قائدین اور مشائخ نہیں کرتے تو ملاوٹ کرنے والے گدھے، کتے کا گوشت کھلانے والے بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں، ہر طرح ، ہر قیمت پر پیسہ بنانا مقصد بن گیا ہے۔ ترقیاتی فنڈ کے نام پر رشوت، کوٹے میں ملازمتیں دینا رشوت، ان ملازمتوں کا فروخت ہونا رشوت۔۔۔ ’’کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں‘‘۔۔۔

آج تبدیلی کی باتیں بھی ہوتی ہیں، لیکن میرے خیال میں تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بے انصافی پر، معاشرتی ناہمواری پر، بنیادی حقوق نہ ملنے پر عوام کی قوت برداشت جواب نہیں دے جاتی اور ہماری قوت برداشت کی حد ناپنے کا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا۔ ہے تو لطیفہ لیکن تلخ حقیقت بھی یہی ہے کہ ’’جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ ہمیں لائن میں لگنا پڑتا ہے‘‘۔۔۔ (میٹرولائن یا اورنج لائن نہیں)سڑکوں پر مائیں بچوں کو جنم دیتی ہیں، ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر چار چار مختلف امراض کے مریض لیٹے ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، ذرائع ابلاغ کے لئے وہ محض ایک خبر ہے اور بس روزگار میسر نہیں، سکول نہیں،جبکہ ٹیچر ایم این اے یا ایم پی اے یا وزیر کے ڈیرے پر کام کرتے ہیں اور تنخواہ محکمہ تعلیم سے لیتے ہیں۔ آج وطن عزیز میں دیانتداری اور شرافت کی سیاست کو قتل کر دیا گیا ہے اور قاتلوں میں ہم سب شامل ہیں اور اس برائی کے لئے ہم سب نے اپنا اپنا کردار بھرپور انداز میں نبھایا ہے۔سیاستدان، مذہبی اور سیاسی رہنما، سول اور ملٹری بیورو کریسی، عوام ذرائع ابلاغ جو کسی کو خوش کرنے کے لئے معاوضے پر رنگین محفلوں میں Enjoy کرنے کے لئے ایسی ایسی کہانیاں بناتے ہیں

کہ وہ سیاسی کارکن جو سیاست کو عبادت کا درجہ دیتا ہے، خدمت کا ذریعہ سمجھتا ہے، دیانتداری کی وجہ سے سب کی مخالفت مول لیتا ہے، اس کی ساری زندگی کی ’’تپسیا ‘‘ اور نیک نامی جو اس نے اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر بنائی ہوتی ہے، خاک میں ملا دی جاتی ہے۔والی تخت جائے نماز پر بیٹھ کر جھوٹ بولنے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔ مسجد نبویؐ میں گنبد خضرا کے سائے میں جھوٹ بولنے سے پرہیز نہیں کرتا (یہ کہانی پھر سہی) آج ہمارا قومی المیہ یہی ہے کہ شرافت کو بزدلی، دیانتداری کو گناہ اور اہلیت کو جرم بنا دیا گیا۔ہر قیمت پر اقتدار میں آنا اور ہر قیمت پر اقتدار میں رہنا مقصد حیات بن گیا ہے۔ پارٹی کا ٹکٹ لاٹری کا ٹکٹ بن گیا۔ نکل آئی تے ’’موجاں ای موجاں‘‘ ترقی کرنا ضروری ہے۔ ہونا بھی چاہیے کہ الیکشن میں وہی حصہ لے سکتا ہے جو کروڑوں اربوں کا مالک ہو(کہاں سے آئے کسی کو کوئی غرض نہیں)۔ لینڈ کروزر پر مہم چلائے ،محافظوں کے ڈالے آگے پیچھے ہوں، چھوٹی موٹی سواری والے کو تو عوام بھی گھاس نہیں ڈالتے ۔جہاںآٹا ، گھی،چینی، چائے، بسکٹ، سگریٹ کے پیکٹ بنا کر تقسیم ہوتے ہوں۔ پولنگ والے دن قیمے والے نان اور بریانی کی پلیٹ مل جائے، کافی ہے۔

آج کل بہت شور ہے کہ ’’عوام‘‘ پوچھتے ہیں کہ 5سال کہاں رہے؟ ہمارے لئے کیا کیا؟ ایسا کرنے والوں کی ’’خوب ٹھکانی‘‘ ہونی چاہیے۔کیا ووٹ دیتے وقت صحیح انتخاب کیا۔ اس وقت تو نہ چور دیکھا، نہ اچکّا دیکھا۔ نہ ہیروئن فروش نہ ایفیڈرین فروش دیکھا۔سب کچرا اسمبلیوں میں بھیج دیا، پھر توقع کرتے ہو کہ وہ حضرت عمر بن خطاب کے پیروکار بن جائیں۔ ووٹ دیتے وقت ہر وابستگی سے بالاتر ہوکر ہر وفاداری کو بھول کر صرف اور صرف وطن سے وابستگی ،وطن سے وفاداری، اپنی اور اپنی نسلوں کی بھلائی ،خوش حالی کا سوچ کر انتخاب کرو تو 5سال بعدیہ پوچھنا نہ پڑے اور نہ ہی یہ تمہارا حق ہے۔ تمہارے اسی طرز عمل سے ،کراس لاپرواہی سے ، غیر ذمہ داری سے، وہ جو سیاست کو تجارت کی بجائے عبادت اور مال بنانے کی بجائے خدمت کا ذریعہ اور اقتدار کو تمہاری ہی دی ہوئی امانت سمجھتے رہے، بعد میں اپنی اس احمقانہ سوچ اور عمل کو یاد کرکے پشیمان ہوتے ہیں۔ یہاں آمریت بھی آتی ہے تو یہ کہہ کر کہ ’’سیاست دان اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تھے، اس لئے ہمیں آنا پڑا‘‘۔۔۔ وہ بھی بعد میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے اپنے ’’رفقاء‘‘ کی ایک ایسی ہی ٹیم تیار کرتے ہیں۔مجلس شوریٰ یا پارلیمنٹ میں ان لوگوں کو لے کر آتے ہیں، جن کی دم پر پاؤں رکھا جا سکے۔

ایک ’’ابا جی‘‘ نے اپنی اولاد کو نصیحت یا وصیت کی کہ جس نے موقع ملنے پر اس ملک کو نہیں لوٹا، وہ بعد میں پچھتایا۔ بچوں نے بھی وہ بات پلے باندھ لی اور آج ان کی جائیدادیں ملک میں اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں،بہت اچھا کیا۔۔۔ وہ بھیمہدی یا مسیحا کی ایڈوانس ٹیم تو ہے نہیں کہ ان کے آنے کی راہ ہموار کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’بوٹ‘‘ چاٹ کر آنے والے جب ان کے ’’اکبراعظم‘‘ بننے کی کوشش کے راستے میں سپیڈ بریکر آجائیں تو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی قوالی شروع ہو جاتی ہے، لیکن ’’احساس ذمہ داری‘‘ کا یہ عالم برقرار رہتا ہے کہ ’’اگر میرے اثاثے میرے ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں تو تمہیں کیا‘‘ کہنے سے باز نہیں آتے اور قابل شرم ہیں وہ درباری جو اس بات پر تالیاں بجاتے ہیں۔ ’’پہلے کہتے ہیں کہ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے ، پھر کہتے ہیں کبھی ہوتی ہے، کبھی نہیں ہوتی‘‘۔ والی تخت نے اپنی گورننس میں ایسا ماحول بنا رکھا تھا کہ ’’آسمانوں سے فرشتے بھی اتارے جاتے، وہ بھی سچ کہتے تو مارے جاتے‘‘۔’’اشرافیہ‘‘ کی کرپشن پر بات کرو۔ جمہوریت خطرے میں، بغیر حاضری کے حاضری الاؤنس وصول کرنے والوں کی بالادستی خطرے میں۔

سویلین بالادستی کا سوال پیدا ہوجاتا ہے۔ سفارش قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایک سہولت کار پکڑا گیا، قیامت آ گئی، سیکرٹریٹ بند ہو گیا۔کابینہ کا خصوصی اجلاس جو کبھی ہوا ہی نہیں، بلا لیا جاتا ہے ، اسمبلی میں مذمتی قرارداد پاس کروائی جاتی ہے۔ پاس کرنے والوں کی 100فیصد تحاریک استحقاق انہی سہولت کاروں کے خلاف ہوتی ہیں جن کے ہاتھوں وہ ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ ڈر صرف یہ تھا کہ دباؤ میں آکر ’’کھرا‘‘میری طرف نہ روانہ کر دے۔ امریکہ میں ،اسرائیل میں، ایران میں، فلپائن میں، چین میں کرپشن پر بے شمار برسراقتدار لوگ سزا پا گئے، پھانسی چڑھا دیئے گئے، لیکن کسی نے نہیں کہا یہ سازش ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ’’یہ کھا رہے بانٹ کر، نہ شرم، نہ حیا،جیسے میرا وطن کوئی چوری کا مال ہے‘‘۔ پاکستان میں کرپشن کسی بھی ایک شعبہ زندگی تک محدود نہیں رہی۔ پورے نظام میں سرایت کر گئی ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ کرپشن والے بڑے نام کبھی پکڑے ہی نہیں جاتے۔اب امید ہوئی کہ پکڑے گئے ہیں۔سزا ہوگی تو ایک خوف پیدا ہو جائے گا! اور ہم بھی سرنگ کے سرے پر روشنی دیکھ سکیں گے، ورنہ ابھی تک تو صرف گزرنے والی ٹرین کی لائٹ ہی دیکھتے رہے ہیں، لیکن جس طرح ہر چور، ڈاکو، لٹیرا ، منی لانڈرنگ کرنے والا ،پاکستان سے باہر اکاؤنٹ اور اثاثے رکھنے والا اہل ، صادق اور امین قرار پا رہا ہے۔ میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ بچوں کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر ’’اَج میرا مرنے نوں جی کردا‘‘۔