counter easy hit

میں نے سکوتِ شب کو ایک سلسلہء سخن دیا

یہ بیسویں صدی کی آخری دھائی کا کہوٹہ ہے۔ لنگ ندی کے اس پار ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے چھ سات کلومیٹر پر پھیلے جنگل کو پیرس بنا دیا ہے۔ ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں عالی دماغ دن رات سائنسی تجربات میں مصروف ہیں۔

بموں اور میزائلوں کے کامیاب تجربوں سے کہوٹہ عالمگیر شہرت حاصل کر چکا ہے۔ لیکن لنگ ندی کے ادھر کا منظر یکسر مختلف ہے۔ یہاں اب بھی بانسری کی دھن پر موکل دھمال ڈال رہے ہیں، ڈھول کی تھاپ پر برہنہ پا ڈالیں رقص کر رہی ہیں ، کتوں ککڑوں اور بٹیروں کا ٹکراؤ ہو رہا ہے، تیتروں کی آوازیں لگ رہی ہیں ،جگہ جگہ والی بال کے تماش بینوں کا شور اٹھ رہا ہے، رات دیر گئے تک گھڑے ستار کی ماتمی لے پر پوٹھوہاری شعر خوانی کی محفلیں جمی ہوئی ہیں۔

اسی دوران ایک مسیحا بغل میں سخن کا صحیفہ دبائے شہر میں داخل ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدلنے لگتا ہے۔ علمی اور فکری تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے۔ شعور کی بیداری عبادت ٹھہرتی ہے۔ لفظ کی حرمت پر بات ہونے لگتی ہے۔ انجیلِ آگہی کے ورق کھلتے ہیں۔ سنتِ سقراط کا احیاء ہوتا ہے۔ حقیقت اشیاء کے ادراک کی دعائیں ہونے لگتی ہیں۔ شہر کے ہوٹلوں میں وجود اور جوہر، محنت و سرمایہ اور زمان و مکاں پر مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ کچھ شاعر مل بیٹھتے ہیں۔ ادبی نشستوں اور شاموں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سخن کے مسیحا جاوید احمد کے جشن تک آ پہنچتا ہے جو 6 اپریل کو کہوٹہ میونسپل لائبریری میں منعقد ہوا۔ جس کی نظامت حسن ظہیر راجہ، مہمان خصوصی شاہد زمان اور صدرات عباس تابش نے کی۔

اس موقع پر جاوید احمد کے مقامی دوستوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سنگلاخ لسانی پٹی میں دل کے لہجے میں گفتگو کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے سخن کے اتنےغنچے خوشبو کے سفر پر روانہ کر دیے ہیں کہ آنے والے کل جنت نظیر کشمیر کی چوکھٹ کہوٹہ کی فضائیں بارود کی باس کے بجائے شاعری سےمشکبار ہوں گی۔ شیراز حیدر نے کہا کہ جاوید احمد نے شجاعت، بہادری، دلیری اور عسکری روایات کے حامل کہوٹہ کو شعری اور ادبی پہچان عطا کی۔

عبدالقادر تاباں نے کہا کی جاوید احمد باکمال ہیں اور ہمیشہ جاوداں رہیں گے۔ مہمان ِ خصوصی شاہد زمان نے کہا کہ ادب پورا آدمی مانگتا ہے۔ جاوید احمد بننا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ صدرِ محفل عباس تابش نے کہا کہ کہوٹہ پاکستان کا محافظ ہے اور ادبی حلقوں میں کہوٹہ کی پہچان جاوید احمد ہے۔ انہوں نے کہا نوجوانوں کو فیس بک کے بجائے ادبی رسائل میں چھپنا چاہئیے۔

صاحبِ جشن جاوید احمد نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ شاعروں اور پیغمبروں کو اس کے علاقے نے تسلیم نہیں کیا لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے کرنل (ر) ظفر، میجر حفیظ، ڈاکٹر محمد عارف قریشی، سیاسی اور سماجی شخصیت راجہ وحید احمد خان، چیئرمین ٹی ایم اے کہوٹہ راجہ ظہور اکبر کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر کہوٹہ لٹریری سوسائٹی کی جانب سے صاحبِ جشن کو اعترافِ فن ایوارڈ دیا گیا۔ تقریب کے بعد مشاعرہ ہوا۔ منتخب شعراء کا ایک ایک شعر قارئین کے ذوق کی نذر ہے