
بلوچستان جس قدر سنگلاخ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ میدانوں میں گِھرا ہوا ہے، اِسی طرح سے اِسے ایک عرصے سے علیحدگی پسندانہ شورش اور فرقہ واریت کے شعلوں نے بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، لیکن اِن سب سے ہٹ کر اگر جائزہ لیا جائے تو بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے شمال کی جانب تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سنگلاخ چٹانوں میں 1894ء میں تاجِ برطانیہ کے دور میں لوگوں کو فراہمیِ آب اور زیرِ زمین پانی کی سطح بُلند رکھنے اور آس پاس کی اراضی کو سیراب کرنے کے لئے ہنہ جھیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔
ہنہ جھیل موسمِ سرما میں مہاجر پرندوں کی بہترین آماجگاہ رہی ہے، سائبیریا سے آنے والے آبی پرندے یہاں موسمِ سرما میں پہنچتے اور موسم بہار کی آمد تک یہیں رہتے اور افزائش نسل بھی کرتے تھے۔ اِن پرندوں میں بڑی تعداد میں مرغابیوں کی ہوتی تھی۔
27 ایکڑ رقبے پر پھیلی اِس جھیل میں 32 کروڑ 20 لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے اور گہرائی تقریباً 43 فٹ ہے۔ بارشوں اور برفباری کا پانی مختلف گزرگاہوں سے ہوتا ہوا اوڑک روڈ پر واقع براستہ سرپل جھیل تک پہنچتا ہے۔








پہنچے۔
جہانِ فانی سے چلے گئے ہیں۔ ہنہ جھیل کی خوبصورتی اور پُر فضا ماحول میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن اِس جھیل کے دہانے پر تعمیر کیا جانے والا قلعہ نما دروازہ بھی فنِ تعمیر اور انجنئیرنگ کا نادر نمونہ ہے، ہر ایک سی چھوٹی پگڈنڈی آپ کو اس دیوہیکل دروازے کی چھت پر لے جاتی ہے۔


لاتعداد مقامی اور غیر ملکی سیاح ہنہ جھیل کی قدرتی خوبصورتی اور خوشگوار فضاء کی بناء پر شہر کے ہنگاموں سے دور اِس پُرسکون اور پُر فضا مقام پر چند روز قیام کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، اگر اِن سیاحوں کے لئے یہاں ایک بڑا ہوٹل یا چند اقامتی کاٹیجز تعمیر کردیے جائیں تو ہنہ جھیل کی دلکشی سے تجارتی فوائد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
نوٹ: یس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
