counter easy hit

حافظ سعید کی نظربندی نیوز لیک کی ہی کڑی ہے

Hafiz, Saeed's, house, arrest, is, outcome, of , news, leak, scandal, by, Rehmat, Ali, Raziہرچند یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ چند ہی ماہ پیشتر حکمران لیگ نے نیوز لیک سکینڈل کی چھاچھ اندیشوں کی چھلنی میں بھر بھرکر بسروچشم یوں اڑائی کہ بڑے بڑے بقراطوں کو بھی ریوڑی کے پھیر میں ڈال دیا مگر اس صورتِ حرام کے پیچھے جس شیطان کی تھوبڑی تھی،اس کی زیب وزینت بھی کچھ ایسے چہروں کا رجسٹر ہے جنکے حلیۂ لطیف سے رہ رہ کر جمہوریت ٹپکتی ہے جسے چاٹ چاٹ کر میڈیا کے بانوروں کی زبانیں پسرتی نہیں تھکتی۔

زیرِ نظر معاملہ کسی متقی کی دستار کا نہیں بلکہ ملکی سلامتی کا مسئلہ ہے جس میں مہا کلاکاروں نے کمال فنکاری سے سو چھید کیے ہیں‘ گزشتہ برس ستمبر کے اولین ہفتے لائن آف کنٹرول اور نیشنل ایکشن پلان کے حوالہ سے سول ملٹری قیادت کے دو اعلیٰ سطح کے اجلاس ہوئے جن کی حساس معلومات کو ایک مؤقر انگریزی اخبار میں رپورٹ کی شکل میں لیک کیا گیا جسکا مرکزی خلاصہ یہی تھا کہ ایک اعلیٰ سطحی Hafiz Mohammad Saeedاجلاس میں سول و فوجی قیادت کے درمیان دہشتگرد تنظیموں سے نمٹنے کے معاملہ پر شدید اختلافات سامنے آئے۔

Cyril Almeida revealed several key figures in the government contacts

یہ خبر اس لحاظ سے انتہائی حساس تھی کہ اس سے کچھ ہی عرصہ قبل انڈیا نے الزام لگایاتھا کہ پاکستان میں قائم شدت پسند تنظیموں کے اراکین نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی کیمپ پر حملہ کرکے18فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا جب کہ پاکستان نے اس واقعہ کی تردید کی تھی‘اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات ازحد کشیدہ چلے آرہے ہیں۔

اسی خبر کی وجہ سے دُنیا کو پاکستان کو چارج شیٹ کرنیکا موقع ملا‘بھارتی اخبارات اور چینلز نے اس معاملے کو خوب اچھالا اور کہا کہ بھارت جو کہتا تھا وہ صحیح ثابت ہوگیا‘ اس سیکیورٹی بریچ سے غیرریاستی اداکاروں کے بارے میں ہماری ہی طرف سے دشمنوں کے مؤقف کی تائید و تشہیر ہوئی‘ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی حساس میٹنگ کے بعد سول اور فوجی قیادت کے تعلقات کو انتہائی کشیدہ کون کرا رہاتھا اور اس کے پسِ پردہ محرکات کیا تھے، اس سلسلے کی کڑیاں اب واضح ہورہی ہیں۔

اہم ترین حکومتی منصب سے جس زبان واندازمیں فوج پر حملہ کیا گیا اورجس طرح نوازلیگ کے رکن اسمبلی رانا افضل نے ایک نجی چینل پر بیٹھ کر ایک دو بار نہیں بلکہ اینکر کے بار بار دریافت کرنے پر تین چار دفعہ دہرایاتھا کہ اگر نواز شریف کو ڈی ریل کیاگیا تو امریکا پاکستان کو تورا بورا بنا کر رکھ دیگا،اس سے قومی سلامتی سے متعلق بہت سے سوالات نے جنم لیا‘ رانا افضل نے 6اکتوبر کو قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے اجلاس میںبھی اسی تلخ کلامی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا،’’دُنیا بھر کے تھنک ٹینک ہم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ نے حافظ سعید کو کھلا کیوں چھوڑا ہوا ہے‘‘۔

یہ دونوں اتفاقات امریکا، بھارت اور مغرب کو دکھانے کے لیے کیے گئے تاکہ دُنیا بھر کو باور کرایا جائے کہ پاکستان کے حکمران تو حافظ سعید سے چھٹکارا چاہتے ہیں لیکن News leak case, submitted to the committee PMفوج رکاوٹ بنتی ہے اور جب بھی نوازحکومت مسعود اظہر اور حافظ سعید کو ان کے ساتھیوں سمیت پکڑنے لگتی ہے تو یہ طاقتور لوگ ان کے ہاتھ باندھ دیتے ہیں۔

سرل المیڈا کی اس متنازعہ خبر کی وجہ سے جو بدمزگی اور شکایت پیدا ہوئی، اس کے محرکات کا سراغ یہی ہے کہ ایک دانستہ پلاننگ اور ودیشی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے عسکری اداروں کے متعلق بدگمانی پیدا کرنیکی منظم سازش کی گئی جس کے لیے حکومت کی صفوں میں موجود مخصوص سازشی عناصر نے ایک صحافی کو استعمال کیا‘ مقتدرہ کے دباؤ کے باوجود حکومت نیوزگیٹ تحقیقاتی کمیشن بنانے میں ڈنگ ٹپاتی رہی اور جب سابق آرمی چیف راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ میں 20دن رہ گئے تو قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پنجاب حکومت کے ایک ماتحت ریٹائرڈ جج جسٹس عامر رضا کی سربراہی میں اپاہج قسم کا کمیشن تشکیل دیدیا گیا جس نے تحقیقات مکمل کرنے کے لیے 30دن کا ٹائم فریم دیا۔

یہ 7 رکنی تحقیقاتی کمیٹی صرف وقت حاصل کرنے کے لیے بنائی گئی جو ایک ماہ کی ٹال مٹول کے بعد معروض ہوسکی‘ اس میں 5ارکان سول جب کہ مسلح افواج کی نمائندگی آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کا ایک ایک نمائندہ کررہا تھا۔ کمیٹی کے دیگر ارکان میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز، صوبائی محتسب پنجاب نجم سعید اور ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر عثمان انور شامل تھے‘ جسٹس (ر)عامر رضا خان شریفوں کے پرانے نیازمند ہیں‘ وہ 1979ء سے 1991ء تک لاہور ہائیکورٹ کے جج رہے‘ 1979ء میں ان کے پاس ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا عہدہ بھی رہا‘ وہ اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر آف لاء اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل بھی ہیں‘ مسلم لیگ(ن) نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے بھی جسٹس (ر) عامر رضا کا نام تجویز کیا تھا تاہم اپوزیشن جماعتوں کا اتفاق نہ ہونے کے باعث وہ نگرانِ اعلیٰ پنجاب نہ بن سکے۔

موصوف کی صاحبزادی جاتی امراء میں شریف اسکول کی وائس پرنسپل ہیں‘ اس طرح اس ناز ک کام کی ابتدا ہی ہمدردی کاووٹ حاصل کرنے سے ہوئی‘ سب سے حیران کن تعیناتی پنجاب کے صوبائی محتسب کی تھی‘ ویسے اگر اس کمیشن کی ہیئت ترکیبی کا سرسری جائزہ لیاجائے توسول حکام میں کوئی ایک بھی اس طرح کے نازک معاملات کی تحقیقات کاتجربہ نہیں رکھتاتھا‘حقیقت تو یہ ہے کہ ایک غیرحاضر اخبارنویس سے پوچھ گچھ کے معاملے میں سب سے پہلے وزارتِ اطلاعات کے نرم وگرم چشیدہ افسران کوشامل کیا جانا چاہیے تھا جن کو اس نازک کام کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔

نیوز لیکس کی تحقیقات میں وزارتِ اطلاعات کے بعد سب سے اہم کردار آئی ٹی ماہرین کا ہوسکتا تھا مگرانھیں بھی کمیٹی سے باہر رکھا گیا‘ اس دور جدید میں خفیہ سراغ رسانی کا سب سے بڑا ذریعہ مواصلاتی جاسوسی ہے جس میں موبائل فونز اور انٹرنیٹ معلومات کے حصول کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔

6 اکتوبر سے 6 نومبر تک پاکستان کے تمام متعلقہ ادارے جنھیں قوم کے کان اور آنکھیں سمجھا جاتا ہے اندھے، گونگے اور بہرے بنے اس دلچسپ تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کاانتظار کرتے رہے اور اس قابلِ اعتراض کمیشن نے اپنا کام شروع بھی کردیا‘ تحقیقاتی ٹیم نے 15 دسمبر 2016ء تک فائنڈنگ حکومت کو پیش کرنا تھیں‘ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ محولہ خبرلیک نہیں پلانٹ کی گئی تھی۔

6اکتوبر کی جس خبر نے قومی منظرنامے پر کچھ سوالات کھڑے کیے اس میں کئی حکومتی عہدیداروں کے نام لیے جاتے رہے جن میں وہ بھی شامل تھے جنھوں نے ان دونوں اجلاسوں یا کسی ایک میں بھی شرکت نہیں کی تھی، البتہ سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو وزیرداخلہ چوہدری نثار نے بادی النظر میں ذمے دار قراردیا جنھیں وزیراعظم نے اپنی ناموس بچانے کے لیے مستعفی کروادیا۔

متنازعہ خبر کا مقصد جان بوجھ کر سول ملٹری تعلقات میں عین اس وقت رخنہ اندازی تھا جب بھارتی اشتعال انگیزی نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں بلکہ لائن آف کنٹرول پر بڑھ رہی تھی‘ شریفوں کے ہمدرد کمیشن کے منتخب سربراہ کی طرف سے ایک آزاد اور موثرانکوائری ہونا ایک غور طلب اَمر ہے‘ یہ ایک تاریخ ہے کہ ریٹائرڈ ججوں کی سربراہی میں بننے والے کمیشنوں کی رپورٹیں ہمیشہ سردخانوں کی نذر ہوئی ہیں‘ مجرم کو بروقت کٹہرے میں لانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں انکوائری ہونی چاہیے تھی جس سے صرفِ نظر کیا گیا۔

وزیرداخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ جانتے ہیں اس کے پیچھے کون ہے اور کس نے یہ کروایا ہے، تو پھر کمیشن کی ضرورت توباقی ہی نہیں رہتی تھی‘ وہ متعلقہ قانون کے تحت ذمے داران کی نشاندہی کرکے معاملے کو انجام تک پہنچاسکتے تھے‘ حکومت کی پہلی ترجیح 29نومبر تک بحفاظت پہنچنا تھا کیونکہ 20نومبر کے بعد نئے فوجی سربراہ کے تقرر کا اعلان ناگزیر تھا‘قومی سلامتی کے اداروں نے پہلے ہی تحقیقات مکمل کررکھی تھیں اور اہم ترین ثبوت بھی اکٹھے کرلیے تھے اور اس پر کسی بھی وقت سخت ردِعمل آسکتا تھا، چنانچہ تفتیش تومنظرعام پر آنے کے کچھ نہ کچھ امکانات ظاہر تھے‘ وزیرداخلہ جو اس میں اہم کردار ادا کررہے تھے وہ بھی کمیشن کے سربراہ کی نامزدگی سے خوش نہیںتھے اور انھوں نے نجی محفل میں اس کا اظہار بھی کیاتھا۔

خبرکو خاص وعام تک پہنچانے کے لیے سرل المیڈا کو ای سی ایل پر ڈالا گیاتاکہ شور مچے اور سلامتی کے ادارے بدنام ہوں‘ یہ سب وزیراعظم کی مرضی اور حکم کے بغیر کیسے ممکن تھا؟ کمیٹی کی سربراہی آئی ایس آئی کو دینے پر زور دیا گیا تھا جو وزیراعظم نے نہ ہونے دیا‘ اگر ایسا ہوجاتاتو دُودھ کا دُودھ اور پانی کا پانی ہوچکا ہوتا۔

اب جسٹس عامر رضا کمیشن کی رپورٹ تو آچکی ہے مگر حکومت اسے منظرِ عام پر لانے میں آئیں بائیں شائیں سے کام لے رہی ہے‘ مصدقہ ذرائع کے مطابق بظاہر تو یہی کہا جارہا ہے کہ جلد ہی کمیشن اپنی رپورٹ وزارتِ داخلہ کو ارسال کریگا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وزیرداخلہ کو یہ فائنڈنگ موصول ہوچکی  جس میں خبرلیک کرنیوالے کا کوئی ذکر موجود نہیں‘ کمیشن کی یہی مبہم رپورٹ چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی بھجوائی گئی ہے جب کہ ان دونوں اصحاب کو رپورٹ آنے سے بہت پہلے خبر لیک کرنے اور کرانیوالوں کے ناموں کا علم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے ایک رسمی معافی بھیجی گئی  جسے’’مہربانوں‘‘ نے اوکے کردیا ہے تاہم اس ضمن میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ حکومت مقتدرہ کی نئی قیادت سے پیہم یہ اصرار کرتی رہی ہے کہ خبرلیک کرنے پر تو اس نے معافی مانگ لی ہے مگر جو خبر تھی، اس پر بھی فوجی قیادت کو غور کرنا چاہیے اور سول حکومت کی عالمی دباؤ کے پیشِ نظر جائز مجبوریوں کو بھی سمجھنا چاہیے۔

بدیں وجہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے حکومت کو کالعدم تنظیموں پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت دے دی گئی ہے‘ حافظ سعید اور اس کے ساتھیوں کی نظربندی اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے اور آنیوالے دنوں میں ہوسکتا ہے کہ مولانا مسعود اظہر اور کچھ دیگر لوگوں کو بھی ان حالات کا سامنا کرنا پڑے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان نے 68سالوں سے کشمیر کا جو مقدمہ بلاتعطل لڑا ہے، نوازحکومت نے اس سارے انتفاضہ پر پانی پھیر کر رکھ دیا ہے‘ دنیا میں حریت کی اصل جنگ کشمیر اور فلسطین میں ہی لڑی جارہی ہے اور اتفاق دیکھئے کہ جس دن فلسطین کے صدر محمود عباس پاکستان میں اپنے سفارتخانے کا افتتاح کررہے تھے، اسی دن مجاہدِ کشمیر حافظ سعید کو گرفتار کرکے ہاؤس اریسٹ کر دیا گیا جس سے پوری دنیا میں یہ منفی پیغام گیا کہ پاکستان کسی بھی قیمت پر کشمیر کا دعویدار نہیں اور وہ مسئلہ فلسطین کی طرح کشمیر کو سنجیدہ مسئلہ نہیں سمجھتا‘ حافظ سعید کی گرفتاری سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی کوئی مشکل نہیں ہے کہ 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے اور اس بار حافظ سعید اسے پاکستان بھر میں بڑے جوش وجذبے سے منانے کا اعلان کرچکے تھے جس سے بھارت انتہائی خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا اور اسے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ حافظ سعید کے یہ کشمیرڈے منانے کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین بھی لاوے کی طرح اُبل کر بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔

نوازشریف کا ممنون ہونے کے بجائے بھارت حافظ سعید کی گرفتاری کو اس کے باوجود ڈراما قرار دے رہا ہے اور مطالبہ کررہا ہے کہ حافظ سعید کو انڈیا کے حوالے کیا جائے‘ نوازحکومت کے اس اقدام کا ابھی تک امریکا اور مغربی دنیا کی طرف سے کوئی مثبت ردِعمل بھی سامنے نہیں آیا، نہ ہی ماسکو اور بیجنگ نے اس پر کسی موقف کا اظہار کیا ہے‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ حافظ سعید کو دہشتگرد نہیں مجاہد سمجھتے ہیں مگر بھارت کی وجہ سے مصلحتوں کا شکار ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی مذہبی تنظیمیں اس پیشرفت کو ٹھنڈے پیٹوں نہیں لیں گی اور حکومت کے خلاف متحدہ محاذ بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگائیں گی۔ حافظ سعید کا نام تو ای سی ایل میں بھی ڈال دیا گیا ہے مگر سرل المیڈا کا نام جب ای سی ایل پر ڈالا گیا تھا تو محبِ وطنوں نے بڑا غوغا کیا تھا‘ یہ وہی سرل المیڈا ہے جس نے خبر کو لیک کیا، پھر امریکا جا پہنچا۔ تصور کرنا پڑیگا کہ سرل المیڈا نے جو کچھ لکھا ہے، وہ اسے ملک کے اندر سے لکھوایاگیا یا سرحد پار سے، کیونکہ جب کشمیر کی آزادی کی جنگ ایک فیصلہ کن موڑ کی جانب بڑھ چکی تھی،ایسے میں وطنِ عزیز کی حفاظت کے لیے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالی افواجِ پاکستان کی کردارکشی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا اس کا مقصد کشمیریوں کو بددل کرنے کے لیے پیغام دینا تھا؟ نیوز لیکس پاک فوج کے خلاف ہے‘ اس بارے بھی کوئی دورائے نہیں کہ یہ رپورٹ امریکا بھارت کی تیار کردہ ہے۔

پرویزرشید کو محض قربانی کا بکرا بنایا گیا‘ اس میں برسراقتدار خاندان، خاص وفاقی وزراء، سینئر من پسند بیوروکریٹس شامل ہیں جن میں سے کچھ افسران نے مقتدرہ حلقوں کو وعدہ معاف گواہ بھی بننے کی پیشکش کی تاہم حکومت اپنی روایات کے مطابق پانامالیکس کی طرح اس مسئلہ پر بھی ٹال مٹول اور تاخیر سے کام لیتی رہی ہے‘ آفیشل سیکیورٹی بریچ پاناما سے بڑا مسئلہ ہے، وزیراعظم اسکو روک نہیں سکتے‘یہ پوچھ گچھ نہیں ہوئی کہ اسٹوری باہر کیسے آئی، یہ اس ملک کے ساتھ بڑی دشمنی کی گئی ہے، اس کا مقدمہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج ہونا چاہیے۔

افسوس کہ اس سے زیادہ خطرناک اور سنگین مسئلہ نیوز لیکس کا ہے مگر اس پر سب نے خاموشی اختیار کررکھی ہے‘ یہ پاک فوج اور پاکستان کا مسئلہ ہے‘ سپریم کورٹ کو اس کا بھی ازخودنوٹس لے کر ملک دشمنوں کو کیفرکردار تک پہنچانا چاہیے۔پاک فوج کے امیج کو اقوامِ عالم کی نظروں میںیوں خودساختہ طور پر داغدار کیا جائے گا تو قوم تو یہی سمجھے گی کہ جہاںہمارا میڈیا ریاستی اداروں کی ناموس پر کیچڑ اچھال رہا ہے وہیںحکمران اپنے ملک میں بیٹھ کر مودی سرکار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اس پلانٹڈ اسٹوری کا گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو یہ خبر پاکستان پر ایٹمی حملے کے مترادف تھی‘ اس خبر کی آڑ میں انڈیا، پاکستان کی مذہبی درسگاہوں پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں آچکا تھا‘ یاد دلاتے چلیں کہ اقوامِ متحدہ اور امریکا کی یہی پالیسی عراق اور افغانستان میں بھی رُوبہ عمل لائی گئی تھی اور قومی سلامتی سے متعلق اجلاس کی خبرلیک نہیں بلکہ پلانٹڈ طریقے سے فیڈ کی گئی تھی‘ یہ خبر فیڈ کرنے کامقصد بھی عالمی برادری کو پیغام دینا تھا کہ جہادی گروپس اور غیرریاستی عناصر پر ہمارا موقف ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے مختلف ہے اور ہم عسکری ادارے کو قائل کرنیکی کوشش کررہے ہیں‘ پاکستان کی افواج کا رویہ دُنیا میں اب بھی گونج رہا ہے۔

امریکی کانگریس پر اسرائیلی اور انڈین لابسٹ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا جائے، اور ہمارے حکمران ملک کے اتنے خیرخواہ ہیں کہ انھوں نے ٹرمپ کے بھبکی مارتے ہی اپنی ٹوپیاں اتار کر اس کے غلیظ جوتوں پر رکھنا شروع کردی ہیں‘ وہی رانا ثناء جو کالعدم تنظیموں کے محسن کہلاتے تھے یہ کہنے لگ پڑے ہیں کہ ’’ جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی کسی بیرونی دباؤ پر نہیں بلکہ نیشنل ایکشن پروگرام اور اپنے قومی مفادات کے تحت ہوئی۔

مسئلہ کشمیر پر جماعت الدعوۃ کا موقف پاکستان کے موقف سے مطابقت نہیں رکھتا‘ پاکستان کا اصولی موقف واضح ہے کہ کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد جاری رکھی جائے گی جب کہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ہی ممکن ہے جس کے لیے پاکستان اپنا بھرپور اور موثر کردار ادا کررہا ہے تاہم اگر کوئی کشمیر میں عملاً جدوجہد کی بات کرتا ہے تو یہ پاکستان کا موقف نہیں اور نہ ہی ہم اپنی سرزمین پر کسی کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں لہٰذا جماعت الدعوۃ کے خلاف جو کچھ کیا آئین وقانون کے تحت کیا اور یہی پاکستان کے مفاد میں ہے‘ ہم خود کو عالمی برادری سے الگ تھلگ نہیں کرسکتے۔

ذمے دار ملک کی حیثیت سے اپنی سرزمین پر کسی قسم کی انتہا پسندی اور شدت پسندی کی اجازت نہیں دینگے‘ ہر حالت میں حکومتی رٹ برقرار رکھی جائے گی‘ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جارہی ہے‘ اب انھیں کسی قسم کے احتجاج، جلسے، جلوس اور ریلی کی اجازت نہیں ہوگی جب کہ فورتھ شیڈول کے تحت ان کے لوگ پکڑے جاسکتے ہیں‘ جماعت الدعوۃ کے سرگرم عہدیداران اور ذمے داران کے حوالہ سے انتظامی مشینری کو ہدایات جاری کی جاچکی ہیں‘ انھیں اپنے آپ کو آئین وقانون کے تابع بنانا ہوگا اور ایسے طرزعمل سے پرہیز کرنا ہوگا جس سے پاکستان کے لیے مشکلات بڑھیں‘‘۔

علاوہ ازیں وفاقی حکومت کی طرف سے ایک حکم نامہ بھی جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق ’’فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور جماعت الدعوۃ امن اور سیکیورٹی کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کی مرتکب ہورہی تھیں اور سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 1267 کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب جیسی سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی ہیں‘‘۔

حکومت کو اس کارروائی کے خلاف شدید عوامی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے‘ یہ حکم نامہ یقینا عدالت میں بھی چیلنج ہوگا‘ حکومت کو اپنے احکام کا جواز ثابت کرنا پڑیگا‘ جہاں تک تنظیم کی بھارت میں دہشتگردانہ کارروائیاں کرنے کا تعلق ہے بھارتی حکومت اس کا ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ پاکستان، خود دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے‘ وہ کس طرح اپنے شہریوں کو دوسرے ملکوں کے خلاف دہشتگردی کی اجازت دے سکتا ہے‘ جماعت الدعوۃ جو کالعدم لشکرطیبہ کا ’’چہرہ‘‘ ہے، مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کا ساتھ دے رہی ہے۔

بہرحال عالمی برادری کے الزامات اور اعتراضات سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ کشمیریوں کی صرف سیاسی، سفارتی اور اخلاقی سطح پر حمایت کی جائے‘ ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ملک وقوم کو کسی بھی سنگین صورتحال سے بچایا جائے‘حکومت کی اس کارروائی سے یہ سمجھا جائے گا کہ یہ سب کچھ امریکا کے دباؤ کے تحت ہوا ہے جسکے بارے میں امریکا میں ہمارے سفیر کو وائٹ ہاؤس بلاکر تنبیہ کی گئی تھی کہ پاکستان جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی کرے ورنہ پابندیوں کے لیے تیار ہو جائے۔

بھارت، کالعدم لشکر طیبہ اور پھر جماعت الدعوۃ کی تحریک آزادی کشمیر میں دلچسپی کے باعث خاصا مشتعل اور اس تنظیم کے خاتمے کے لیے عرصہ سے کوشش کررہا تھا‘ امریکا کے سابق صدور اور بالخصوص اوباما دور میں امریکا میں بھارتی لابی جسے یہودیوں کی حمایت حاصل تھی، بہت متحرک رہی‘ اس کا مطالبہ تھا کہ جماعت الدعوۃ کو ختم اور حافظ سعید کو بھارت کے حوالے کیا جائے، جن پر دہشتگردی کے بعض واقعات میں ملوث ہونے کا الزام ہے‘ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو بھارت کو امریکا سے اپنا دیرینہ مطالبہ منوانے کا موقع مل گیا۔

بھارت اس معاملے کو سیکیورٹی کونسل میں لے جاتا رہا جہاں ہم محض چین کے ویٹو کی وجہ سے بچ جاتے رہے‘ ملک وقوم کے مفاد کے تحفظ کے لیے بعض اوقات بڑے تلخ فیصلے کرنا پڑتے ہیں‘ جہاں تک اس پر منفی ردعمل کا اظہار کرنیوالوں کا تعلق ہے، انھیں یہ جان لینا چاہیے کہ نوبت اب یہاں تک آگئی تھی کہ پابندیاں لگنے کی صورت میں‘ حالات بڑے خراب ہوجاتے‘ اس معاملے میں ہمارا دوست چین بھی ہمیں یہ مشورہ دے رہا تھا کہ اس ایشو سے جذبات سے بالا ہوکر نمٹا جائے۔

یہ دور ماضی سے مختلف ہے‘ آج دہشتگردی سب سے بڑا اور سنگین الزام ہے‘ یہاں تک کہ آزادی اور حقِ خودارادیت کی تحریکوں کو دہشتگرد قرار دیا جارہا ہے‘ امریکا اور بھارت اور اسرائیل ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں‘ انھیں بھی بچانا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے اس اقدام سے ٹرمپ انتظامیہ اور بھارت مطمئن ہوتا ہے یا نہیں‘ یا ڈومور کے مطالبے آنا شروع ہوجائیں گے‘ بہرکیف امریکا پر واضح کردیا جائے کہ وہ بھارت کو خوش کرنے کے لیے پاکستان کو دبانے سے گریز کرے‘ جماعت الدعوۃ کے علاوہ بھی ہمارا بعض ایسے نیٹ ورکس سے تعلق جوڑا جارہا ہے جن پر افغانستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں کا الزام ہے‘ ملکی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے الزامات سے بچنے کی کوشش کی جائے۔

اب جب حکومت نے ان کو نظربند کردیا ہے تو ایک بار پھر انڈیا کی رال ٹپک رہی ہے اور وہ بھی اپنے دیرینہ سرپرست امریکا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرنے لگا ہے، لیکن یہ شاید اس کی بھول ہے، جمہوری حکمرانوں کی اپنی مجبوریاں ہوں گی، مگر فوج کی کمان اس وقت ماضی کی طرح وطن و دختران وطن فروش طالع آزما ڈکٹیٹر کے ہاتھ میں نہیں، ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو ہندو بنیے کی رگ رگ سے واقف ہے، وہ اس کے ناپاک عزائم کو ماضی میں محاذوں پر بھی ناکام بناتا رہا ہے۔

حافظ سعید کو سرکار نے کیوں نظر بند کیا؟ اس کے اسباب و محرکات سے قطع نظر، اس فیصلے کو ملک بھر میں اچھی نظر سے بہرحال نہیں دیکھا گیا اور مختصر نوٹس پر ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جس طرح عوام نے احتجاج کیا، ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حافط سعید کو رہا کیا جائے، اس سے حکومت اور اداروں کو عوامی امنگوں کا اندازہ لگا لینا چاہیے۔ایک ایسا معاشرہ جس ملک کے حکمران لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہوں اور عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا جائے۔

وہاں اک شخص اٹھتا ہے کو جسکا مقصد صرف دکھی انسانیت کے ساتھ ہمدردی ہو،اگر کہیں سیلاب آجائے تو پیش پیش ہو،زلزلہ آجائے غرض کوئی بھی آفت آجائے تو یہی آگے آگے ہو،تھر پارکر اور بلوچستان میں کنویں کھدوا کردے، اسپتال اور ڈسپنسری بنوائے،جہاں تعلیم کی ضرورت ہو وہاں اسکولز تعمیر کروائے اور جہاں بھی کہیں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جارہے ہیں ان کے لیے آواز اٹھائے خواہ وہ کشمیر ہو یا فلسطین۔

حافظ سعید کی نظر بندی سے قبل ان کا ویڈیو پیغام آیا، وہ کہہ رہے تھے، جب میں نے 2017ء کو کشمیر کا سال قرار دیا اور 26 جنوری سے 5 فروری تک عشرہ کشمیر منانے کا اعلان کیا تو مجھے یہ خدشہ ضرور تھا کہ انڈیا کو یہ بات ہضم نہیں ہوگی، اور یہی ہوا جب حافظ سعید نے جب 2017ء کشمیر کا سال منانے کا اعلان کیا اس وقت سے بھارت پاکستان پر دباؤ ڈالنے لگا، بھارت کا میڈیا چیخنے چلانے لگا اور امریکا پاکستان کو دھمکیاں دینے لگا کہ اگر تم نے حافظ سعید کی آواز کو نہ دبایا تو ہم پاکستان پر گھیرا تنگ کردیں گے اورمالی تعاون بند کردیں گے۔

المیہ ہے کہ اب تک ہماری حکومت کی اپنی خارجہ پالیسی واضح نہیں ہے اور ہر طرف سے بیرونی خطرات میں گھری نظریاتی بنیادوں پر وجود میں آنیوالی مملکت وزیر خارجہ کے بغیر چل رہی ہے۔ کشمیر کاز اور کشمیر کی آزادی اس ملک کے سرفہرست مسائل میں تو ہمیشہ رہی ہیں، لیکن لاکھوں افراد کی قربانیوں کے باوجود منزل ہنوز دور است۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنابِ چیف جسٹس کو سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے ایک تو اس کالعدم والے قضیے کو حل کرنا چاہیے اور ہماری حکومتوں کو مل بیٹھ کر یہ بات طے کرلینی چاہیے کہ جہادی تنظیمیں یا مدارس جس دور میں جہاد افغانستان و کشمیر میں سرگرم رہے، یہ ان کا ذاتی نہیں، ریاست کا فیصلہ تھا، لہٰذا ’’دہشتگرد‘‘ اور ’’مشکوک‘‘ کی رَٹ ترک کرتے ہوئے ان کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کرنا چاہیے، ورنہ یہ حقیقت اربابِ اقتدار سے بھی مخفی نہیں کہ یہ پرامن لوگ سراپا احتجاج بن گئے تو انھیں سنبھالنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بس کا روگ نہیںہوگا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website