counter easy hit

گورنری کی عمر

آج میں جس بھی محفل میں گیا وہاں موضوع ِسخن صوبہ سندھ کے نئے گورنر جسٹس سعید الزماں صدیقی کی ذات ِ گرامی تھی۔ سب سے زیادہ گفتگو ان کی طویل العمری کے حوالے سے سنائی دی۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز کرے۔ غالب نےاسی عمر میں کہا تھا

مضمحل ہوگئے قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں
شاعر ِ مشرق نے ضعیفی کو جرم کہتے ہوئے اس کی سزا مرگ ِ مفاجات قرار دی ۔شاعرِ لاہورنے کہا کہ انہیں صدرِ پاکستان ممنون حسین نے صرف اس لئے گورنر لگوایا ہے کہ ان کی پیرانہ سالی پر بہت گفتگو ہونے لگی تھی انہوں نے سوچا کہ چلو اس طرح توپوں کا رخ کسی اور طرف ہوجائےگا۔ایک اطلاع کے مطابق گورنر کی سیکورٹی کے قافلے میں ایمبولینس اور ایک عددنرس کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔سب سے دلچسپ وہ خبر تھی جو حلف وفاداری کی تقریب ملتوی ہونے پر کسی شوخ رپورٹر نےلگائی کہ’’گورنر سندھ جسٹس سعید الزماں صدیقی کی حلف وفاداری کی تقریب ملتوی کر دی گئی اب یہ تقریب کل صبح ساڑھے دس بجے ہوگی ( بشرطِ زندگی )‘‘۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ ان کےلئے مزارِ قائد کی سیڑھیاں چڑھنا ناممکن ہوگیا ۔
آج ہی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ صدیقی صاحب کے اختلافات کی بنیاد کا قصہ مجیب الرحمن شامی کی زبانی سنا ،جس خوبصورتی سے انہوں نے سنایا ۔اُس خوبصورتی سے بیان کر نا تو میرے لئے ممکن نہیں پھر بھی داستاں سراہوتا ہوں ۔انہوں نے بتایا کہ ان دنوں روزنامہ پاکستان پروردی پوش انقلابیوں نے اپنی آنکھیں گاڑ لی تھیں۔ بہت تنگ کیا جارہا تھا ۔ابھی جسٹس رفیق تارڑ ہی صدر پاکستان تھے ۔ میں نے انہیں فون کیا اورکہاکہ میں چاہتا ہوں کہ روزنامہ پاکستان کی تقریب میں آپ شرکت کریں مگر انہوں نے معذرت کرلی کہ موجودہ صورت حال میں میرے لئے ممکن نہیں کہ میں آپ لوگوں کے فنکشن میں آ سکوں ۔(ایوان صدر کے قیدی اپنی مرضی سے کہاں جا سکتے ہیں ) مجھے خیال آیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سعید الزماں صدیقی کو تقریب میں بلایا جائے ۔ میں نے مناسب سمجھا کہ ان سے ملاقات کرکے انہیں دعوت دی جائے ۔میں اسلام آباد آیا۔ ان سے ملا ۔ دعوت دی تو انہوں نے کہاکہ شامی صاحب! ابھی دو دن پہلے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کوئی جج بھی کسی سوشل تقریب میںشریک نہیں ہوگا ۔اگر آپ نے دو دن پہلے بھی دعوت دی ہوتی تو میں ضرور شرکت کرتا۔بس اتنی ہی بات ہوئی۔ چائے پی اور میں واپس آگیا ۔دوسرے ایک روزنامہ کے ایڈیٹر (جو کالم نگار اور اینکر بھی ہیں )نےپہلے صفحے پر یہ خبر لگائی کہ مجیب الرحمن شامی نےنواز شریف کا خصوصی پیغام چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی تک پہنچادیا۔خبر کی تفصیل اتنی دل دہلانے والی تھی کہ جنرل پرویز مشرف کی نیند اڑ گئی۔انہوں نے کسی سے مشورہ کئے بغیر فوراًپی سی اوپر اوتھ لینے کے احکامات جاری کر دئیے ۔جسٹس سعید الزماں صدیقی نے پی سی او پر اوتھ اٹھانے سے انکار کر دیااورعہدہ چھوڑ کر ہیرو بن گئے ۔اپنی اپنی قسمت کی بات ہے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ،جنرل پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنا کر بھی ہیرو نہ بن سکے۔
بہرحال وزیراعظم نواز شریف کو ان کی یہ ادا بھی پسند آگئی۔ انہوں نے دوہزار آٹھ کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کی طرف سے انہیں صدارتی امیدوار نامزد کیا۔ یہ بات الگ ہے کہ اُس وقت وزیراعظم نواز شریف کو یہ معلوم تھا کہ ہمارے پاس اتنے ووٹ نہیں ہیں کہ صدیقی صاحب صدرِ پاکستان بناسکیں۔ پھر جب وقت آیا تو صدر پاکستان ممنون حسین کے شہد آمیزدہی بھلے اُن پر سبقت لے گئے۔بہرحال وہ صوبہ سندھ کے گورنر بن چکے ہیں یہ اور بات بقول سید نصیر شاہ…کیسی بچگانہ ضدیں ہیں اِس ضعیفی میں نصیر اِس ہمکتے ہاتھ سے کیا چاند پکڑا جائے گا
ویسے تاریخ بتاتی ہے کہ عمررسیدہ لوگ ہمیشہ وزیراعظم نواز شریف کےلئے فائدہ مندثابت ہوئے ہیں۔ دوہزار تیرہ کے انتخابات کے وقت پاکستان کے نگران وزیر اعظم میرہزار کھوسو تھے جن کی اُس وقت عمر پچاسی سال تھی اور چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم تھے جو عمر میں وزیر اعظم سے بھی کئی سال بڑے تھے۔ شریف فیملی ہمیشہ سے بزرگوں کا احترام کرتی چلی آ رہی ہے ۔ انہوں نے آج تک نوے سالہ معروف نعت خواں عبدالرزاق جامی کو بھی اپنے ساتھ رکھا ہواہے جو ان کے والد گرامی میاں شریف کو نعتیں سنایا کرتے تھے۔ وزیراعظم نے وزارت خارجہ بھی اپنے ستاسی سالہ بزرگ سرتاج عزیز کے حوالے کی ہوئی ہے ۔بیاسی سالہ راجہ ظفر الحق کو مسلم لیگ نون کا چیئرمین بنایا ہواہے۔78 سالہ جسٹس سعید الزماں صدیقی اس حوالے سے ان صاحبان سے کم عمر ہیں بلکہ وہ توابھی تک ستر کی دہائی میں ہیں ۔پی ٹی وی کے چیئرمین مرشدی عطاالحق قاسمی سے صرف چھ سال بڑے ہیں ۔سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید سے تقریباًآٹھ سال بڑے ہوں گے۔ وزیراعظم کےمشیربرائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ عرفان صدیقی سےبھی سات آٹھ سال بڑے ہوں گے۔ گورنر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا سے بھی تقریباً سات آٹھ سال بڑے ہیں۔گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی بھی ان سے صرف پانچ سات سال چھوٹے ہیں۔یعنی ان کی کوئی اتنی عمر نہیں جتنا احباب نے شور مچا رکھا ہے۔ویسے بھی صوبہ سندھ میں بزرگوں کی حکومت کا رواج ہے ابھی چند ماہ پہلے تک جو صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ تھے قائم علی شاہ، وہ صدیقی صاحب سے تقریباً دس سال بڑے ہیں۔ ان کے چلے جانے کے بعد صوبہ سندھ کو کسی اور بزرگ کی انتہائی اشد ضرورت تھی جو ان کے گورنر بننے سے پوری ہوگئی ہے۔ اہل سندھ اِس سلسلے میں اہل پنجاب کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔

بشکریہ جنگ

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website