counter easy hit

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر ! نعمان قادر مصطفائی

فرانس میں کچھ عرصہ پہلے تو سنا تھا کہ حجاب کے حوالے سے پابندی کا بل پیش ہوا تھا اور فرانس نے حجاب پر پابندی کا بل منظور کرکے اپنے خبث باطن اور تعصب کا مظاہرہ کیا تھامگر کیا خبر تھی کہ اس سر زمین پر کچھ گماشتے ایسے بھی ہیں جو اسلامی شعائر کا مذاق اُڑانے کے ساتھ ساتھ پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۖکے بارے میں بھی اپنے غلیظ ذہنوں میں گھٹیا تصورات رکھتے ہیں اور مغرب آئے روز رسول ِ رحمت ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے بنا کر مسلمانوں کے دل چھلنی کرتا رہتا ہے حالانکہ حجاب ہمارے اسلامی کلچر کا لازمی جزو ہے پاکستان میں ہر مذاہب کے ماننے والوں کواپنے کلچر کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے مگر مغرب میں رسو ِ رحمت ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلامی اقدار سے اظہارِ نفرت کیوں؟

فرانس میں حجاب پر پابندی دراصل مسلمان بچیوں کے لیے حصول ِ تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف تھافرانس میں نئے قا نون کے تحت عوامی مقامات اور عدالتوں میں چہرہ چھپانے پر پا بندی لگا ئی گئی ہے ایسا کرنے والی کسی بھی عورت کو پولیس اسٹیشن بلا کر نقاب اُتارنے کو کہا جاتا ہے حکم عدولی پر ڈیڑھ سو یو رو جر مانہ کیا جاتا ہے اس موقع پر بھی مقامی مسلمانوں نے نئے قا نون پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا مسلم خواتین کا موقف تھاکہ وہ نقاب پہن کر اپنا کام جاری رکھیں گی فرانس میں 2 ہزار سے زائد خواتین برقع پہنتی ہیں فرانس چہرے پر نقاب پر پابندی پر عمل کرنے والا پہلا ملک بن گیا تھا

حجاب پر پابندی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے کیونکہ فرانس میں اس وقت 60 لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں وہ یہاں سب سے بڑی اقلیت ہیں فرانس کی حکومت کو اقلیت کا احترام کر نا چاہیے تھاپا کستان دنیا میں واحد ملک ہے جہاں اقلیت محفوظ ہے اور اُن کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہے ہم نے آج تک احتجاج نہیں کیا کہ اقلیتیں مسلمانوں والا لباس استعمال کریں حتیٰ کہ گرجا گھروں میں اپنے مذہب کے مطا بق عبادت کرنے والی نن ز اور رہبائیں بھی آزاد ہیں کہ وہ اپنے مذہبی لباس میں عبادت کریں ،سکھ اپنے لباس میں اور ہندو اپنے لباس اور کلچر کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ہماری طرف سے کبھی بھی تعصب کا اظہار نہیں کیا گیا

مگر یاد رہے کہ سچائی و راستی کا کارواں جب بھی عزم وہمت کے ساتھ نکلا ہے باطل کی غلاظتوں میں لتھڑے اور پرورش پانے والے باطل شعاروں نے صادق جذبوں سے لبریز اس عظیم قافلے کا راستہ روکنے کی ہمیشہ مذموم کوشش کی ہے مگر شاید عقل کے اندھوں اور شیطان کے بندوں کو کون سمجھائے کہ اللہ کے بندوں اور حق کے قافلے کا سفر روشنی اور خوشبو کے سفر سے استعارہ ہے روشنی کی کرن اور خوشبو کے جھونکے کے راستے کو نہ تو کوئی آہنی فصیل اور نہ ہی کوئی چٹان روک سکی ہے وادی مکہ سے اُٹھنے والی یہ تحریک گنبد خضراء کے روحانی فیض کی طرح اب ایک عالمگیر اور آفاقی تحریک کا روپ دھار چکی ہے اور اس وقت اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور ہر چوتھا شخص مسلمان ہے

مسلمانوں کے نزدیک کہتے ہیں کہ ”عشق کے قرنیوں میں پہلا قرنیہ احترام رسالت مآبۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس دل میں یہ احترام نہیں وہ دل نہیں پتھر کی سل ہے بلکہ اس سے بھی بد تر ہے۔” سیرت و میلاد کا بیان انتہائی احتیاط کا متقاضی ہے۔ ایک حقیقت شناس عارف نے کہا تھا…باخدا دیوانہ باش وبا محمد ہوشیار …یہ وہ ذکر لذیز ہے جسے ہونٹوں پر لانے سے قبل عشق و محبت کی سر مستیوں و سرشاریوں میں مجذوب شاعر کو کہنا پڑا تھا
ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است

گداز کے عنبر میں گندھے اور کیفیتوں کے عطر میں بسے شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ کے یہ الفاظ صدیوں سے گُنبدِ افلاک میں گونج رہے ہیں اور قرنوں گونجتے رہیں گے
بلغ العلی بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو علیہ وآلہ

یہ وہ نازک اور حساس موڑ ہے جہاں گولڑہ شریف کے سید زادے پیر مہر علی شاہ ایسی بلند پایہ ہستی بھی ششدرو ساکت رہ جاتی ہے
سبحان اللہ ما اجملک
ما احسنک ما اکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنائ
گستاخ اکھیاں کھتے جا لڑیاں

یہ تو خیر بڑی ہستیاں تھیں یہاں تو غالب ایسے رندباش شاعر کو بھی اس امر کا کامل ادراک ہے کہ بارگاہِ رسالت مآب ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گلہائے تحسین پیش کرنا ہم ایسے کج مج بیانوں کا نصیب کہاں!
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کہ آں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است

لا ہور کے عرب ہوٹل میں ایک دفعہ کمیونسٹ نوجوان نے جو بلا کے ذہین تھے ، اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔۔۔۔اس وقت دو بوتلیں چڑھا چکے تھے اور ہوش قائم نہ تھے تمام بدن پر رعشہ طاری تھا حتی ٰ کہ الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زبان سے نکل رہے تھے ادھر ”انا” کا یہ عالم تھا کہ اپنے سوا کسی کو نہیں مانتے تھے شاعر تو شاذ ہی کسی کو مانتے تھے ہمعصر شعراء میں جو واقعی شاعر تھا اسے بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے

کمیونسٹ نوجوان نے فیض کے بارے میں سوال کیا ، طرح دے گئے ، جوش کے متعلق پوچھا ، کیا وہ ناظم ہے ، سردار جعفری کا نام لیا ، مسکرائے ۔۔۔۔فراق کا ذکر چھیڑا ، ہوں ہاں کر کے چپ ہوگئے ساحر لدھیانوی کی بات کی ، سامنے بیٹھا تھا ،فرمایا مشق کرنے دو ، ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا ۔۔۔۔نام سنا ہے احمد ندیم قاسمی ؟فر مایا میرا شاگرد ہے نوجوان نے دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں تو بحث کا رخ ہی پھیر دیا

حضرت : فلاں پیغمبر کے بارے میں کیا خیال ہے ؟آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں نشہ میں چور تھے زبان پر قابو نہیں تھا لیکن چونک کر فر مایا : کیا بکتے ہو ؟۔۔۔۔۔ادب و انشاء یا شعر و شاعری کی بات کرو کسی نے فوراََ افلاطون کی طرف رخ موڑدیا ان کے مکالمات کی بابت کیا خیال ہے ؟ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا، مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے فر مایا :اجی ، پوچھو یہ کہ ہم کون ہیں، یہ ارسطو و سقراط یا افلاطون آج ہوتے تو ہمارے حلقہ میں بیٹھتے، ہمیں ان سے کیا کہ ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں

اس لڑ کھڑاتی ہوئی آواز سے فائدہ اُٹھا کر ایک ظالم قسم کے کمیونسٹ نے سوال کیا :آپ کا حضرت محمد ۖ کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ یہ سنتے ہی جیسے وہ ہوش میں آگئے ، فوراََ سنبھل کر بیٹھ گئے ، بلور کا گلاس اُٹھا کر سوال کرنے والے کے سر پر دے مارا اور گرج کر یوں بولے ، جیسے کوئی بجلی کڑکی ہو ، بدبخت :ایک عاصی سے سوال کرتا ہے ایک سیاہ رو سے پوچھتا ہے ، ایک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے ؟تمام جسم کانپ رہا تھا ایکا ایکی رونا شروع ہوگئے گھگی بندھ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا ؟تمہیں جرات کیسے ہوئی ؟گستاخ ، بے ادب :”با خدا دیوانہ باش و بامحمدۖ ہوشیار”اس شریر سوال پر توبہ کرو ، تمہارا خبثِ باطن سمجھتا ہوں ،،،، خود قہر و غضب کی تصویر بن گئے ،ادھر اس نوجوان کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ، اس نے بات کو موڑنا چاہا مگر اختر کہان سنتے تھے اسے اُٹھوا دیا پھر خود اُٹھ کر چلے گئے تمام رات روتے رہے کہتے تھے ”یہ لوگ اتنے نڈر ہوگئے ہیں کہ آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں ، میں گناہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں ”

آج بھی انسانیت اگر راہ ہدایت اور شاہراہ کامرانی کی متلاشی ہے تو اسے فاران کی چوٹیوں پر طلوع ہونیوالے آفتاب کے سامنے اپنی جھولیاں گدا یانہ اور فقیرانہ پسارنا اور پھیلانا ہوں گی ہما رے ”سُوٹڈ بُوٹڈ ”حکمرانوں کو بھی ہمت نہیں ہوئی اور نہ ہی دولت کے پُجاری موجودہ حکمرانوں کو احساس ہوا ہے کہ وہ فرانس کے صدر ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون اور امریکہ کے صدر باراک او بامہ سے توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے خالی خولی احتجاج ہی کر سکیں ،احتجاج کیسے کرتے اور کس منہ سے کرتے ؟ جنہوں نے ہمیشہ غیروں کے ٹکڑوں پر اپنی زندگی کی سانسیں باقی رکھی ہوں اُن کی غیرت اور اسلامی حمیت کب سلامت رہتی ہے ؟وہ اور تھے جنہوں نے یورپ کی سرزمین میں ببانگ ِ دہل کہا تھا کہ

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش ِ فرہنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ میں خاک ِ مدینہ و نجف

ہمارے موجودہ حکمرانوں کو فرصت ہی نہیں کہ وہ توہین رسالت ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلامی اقدار کی پامالی پر یورپ کے سفارت خانوں کو احتجاجی مراسلہ ہی بھیج دیتے اُن کی تو ترجیحات ہی دوسری ہیں کہ ملکی سرمایہ کو کیسے اونے پونے داموں نجکاری کے نام پر اپنے نام کرانا ہے حالانکہ کسی بھی زندہ مسلم قوم کا اصل سرمایہ اُس کے غیرت مند وہ افراد ہوتے ہیں جو ناموس رسالت ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ملک و قوم کی خاطر مرتے اور جیتے ہیں بے حِس حکمرانوں کو نہ تو کچھ سُجھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ دکھائی دیتا ہے انہوں نے اپنی آنکھوں پر بے حِسی اور بے غیرتی کی پٹی باندھ رکھی ہے اور اپنے کانوں پر کاگ چڑھا رکھے ہیں

ہماری تمام تر سیاسی ، سماجی تحریکیں اور تنظیمیں چُپ سادھ لیے ہوئے ہیں اور تو اور انسانی حقوق کی چیمپیئن اور مغربی سوچ کی حامل اور مغربی افکار کی پہریدار این جی اوز کے نمائندوں عاصمہ جہانگیروں ، عاصمہ جیلانیوں ، ہود ،ہنود ،یہود بھائیوں، مبشر حسنوں ،نام نہاد مولوی محمود اشرفیوں ،تحسین مفتیوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی ، مغرب کی نوکری ، چاکری کرنے اور اُن کی دہلیز پر چند ڈالرز کے عوض سجدہ ریز ہونے والے کیسے اپنے ”آقائوں ” کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں ؟بے حسی ، مادہ پرستی ، بے غیرتی ، بے حمیتی کے اس جھُلستے صحرا میں شان ِ رسالت مآب ۖ کے لیے جدوجہد کرنے والی تن تنہا دینی جماعتیں ہیں جو میں سمجھتا ہوں ”آبِ زُلال ” کی حیثیت رکھتی ہیں ۔۔۔کہتے ہیں کہ ”جہاں قومی خودی کی نگہبانی فدویوں کے ہاتھ آجائے اور ریاستی انا کی پاسبانی خواجہ سرائوں کی ذمہ داری ٹھہرے وہاں حکمرانوں کی بے حسی معمول کی بات ہے ”

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی مغرب کی خر مستیوں اور منافقتوں کو نوجوان نسل تک پہنچانے میں بُخل کا مظاہرہ کر رہا ہے بلکہ امریکہ کی بد بودار، کثیف ، غلیظ اور تعفن زدہ فضا کو عام کرنے میں اپنا ”خاص”رول پلے کر رہا ہے کیونکہ ہم سراپاکمرشلائز ہو کر رہ گئے ہیں مغرب بالخصوص فرانس کی اس دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے اس سیلاب کے آگے اگر جرات و حمیت ،غیرت ِ ملی اور قومی شعور کا بند نہ باندھا گیا تو پھر آنے والی نسل کو یہ بد تہذیبی ،بد تمیزی اور امریکی مداخلت کا طوفان بہا کر لے جائے گا خانقاہوں کے سجاد گان بھی لمبی تان کے سو رہے ہیں داتا کی نگری لاہور میں کئی ایسے ”پیر ” موجود ہیں جو رسول ِ رحمت ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کا صدقہ کھاتے ہیں اُن کی ساری لش پش اور کروفر ، پروٹول رسول ِ رحمت ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے ہے مگر وہ بھی اپنی خانقاہوں میں گدیوں سے چِپکے بیٹھے ہیں اور ہمیشہ اُن کے دل و دماغ میں درِ رسول ۖ کی حاضری کی بجائے امریکہ اور یورپ یاترا کی سوچ گردش کرتی رہتی ہے جبکہ یورپ اور مغرب ہماری ثقافت اور غیرت کی دھجیاں بکھیرنے پہ تُلا ہوا ہے

مادر پدر آزاد،فارن فنڈڈ ، فارن پیڈ اور میڈ این جی اوز مختاراں مائی کے مسئلے پر تو آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں اور پلے کارڈ لے کر ”پلے بوائز ” و ”کال گرلز ” کا تحفظ کرنے کے لیے پریس کلبز کے باہر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہیں اور پھر ڈالرنائنز ڈ این جی اوز کی حمایت میں امریکی سفارت خانہ بھی حرکت میں آجاتا ہے امریکی راتب پر پلنے والوں کی ”حالت زار” دیکھ کر ٹیلی فون کی گھنٹیاں کھڑکنے لگ جاتی ہیں اور ہمارے حکمرانوں کے دل بھی ساتھ ساتھ دھڑکنے لگ جاتے ہیں مگرشان ِ رسالت ۖکے مسئلے پر اس طرح کی خاموشی ،چہ معنی دارد؟ فرانس سے شائع ہونے والے میگزین چارلی ہیبڈومیں چھپنے والے خاکو ں کی وجہ سے دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے اور دنیا میں امن و سلامتی کے عمل کو سبوتاژ کر نے کی گھنائونی کوشش کی گئی ہے ناموس رسالت ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مسلمانوں کا بچہ بچہ کٹ مرے گا مگر توہین رسالت ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برداشت نہیں کرے گا مغربی ٹکڑوں پر پلنے والے بے حس امریکی پٹھوایک سادہ اور عام ان پڑھ مسلمان کی یہ صدا بھی سن لیں کہ ”کائنات کی تمام تر سلطنتیں رسول ِ رحمت ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین مقدس کی نوک پر قربان کی جا سکتی ہیں ”

عام مسلمان یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ دنیائے کائنات کے عظیم ترین قائد ،کمانڈر انچیف امت کے غم خوار آقاء ،رسول رحمت ،حضور نبی کریم ۖ کی شان میں کوئی توہین کرے اور وہ بر داشت کر جائے ؟ ڈاکٹر علامہ اقبال نے مسلمانوں کے اسی والہانہ ، بے ریا اور بے لوث جذبے کی اپنے کریم آقاء ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی تصویر یوں کھینچی ہے کہ ”یہ مسلمان فاقہ کشی کی بدولت تو زندہ رہ سکتا ہے مگر اس کے قلوب و اذہان سے اگر روح ِ محمد ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکال لی جائے تو یہ فوراََ مر جائے گا ”کیونکہ ایک مسلمان کی زندگی کی سانسیں گنبدِ خضراء سے وابستہ ہیںاگر اس کو گنبدِ خضراء کی روحانی تسکین اور ٹھنڈک سے الگ کر لیا جائے تو زمانے کی گرمی اسے جھُلساکے رکھ دیتی ہے

مسلمانوں کا مرنا جینا غلامی رسول ۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہے مسلمان وہ ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریاست ِ مدینہ کے بانی پیغمبر انسانیت ، رسول ِ رحمت حضور نبی کریم ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آفاقی پیغام کی بالا دستی کے لیے اپنا تن من دھن حتیٰ کہ سب کچھ قربان کردیا اور اپنے کریم آقاۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فر مان لَا ےُومِنُ اَحَدُ کُم حتَیٰ اَکُونَ اَحَبَ اِلیہِ مِن وَالِدِ ہِ وَ لَدِ ہِ وَالنَاسِ اَجمَعِین کی روشنی میں اُمت ِ مسلمہ کی مائوں ، بہنوں اور قوم کی بیٹیوں کودُختر ِ مشرق نے شاعر ِ مشرق کی زبان میں یہ آفاقی ، کائناتی پیغام دیا کہ
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دَہر میں اسم ِ محمد ۖصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُجالا کردے
اور
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ؟لوح و قلم تیرے ہیں

تحریر ! نعمان قادر مصطفائی