counter easy hit

پاکستان کی جمہوریت، اپنی خیر منا

Shabbir Khurshid

Shabbir Khurshid

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

آج کے پاکستان میں جو کھیل کھیلے جا رہے ہیں وہ جمہوریت کے لئے کسی طرح بھی نیک شگون نہیں ہے۔عمران خان خود ان اور کے ساتھ کھڑے لوگ بمعہ شیخ رشید کے فوجی بوٹوں کو مسلسل آواز دے رہے ہیں اور لند ن سے بھی بار بار یہ ہی صدائیں آر ہی ہیں۔کہ جمہوریت کا گلا دبا کر فوج اقتدار پر قبضہ کر لے اور حال ہی میں ریٹائر ہونے والے بعض جنرل اور کچھ ماضی کے پٹے ہوے سکے جمہوریت کو پٹڑی سے اتانے کے لئےبے چین دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ میں جو گیم منظم کیا جا رہا ہےوہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

کچھ ن لیگ سے عہدوں پر ناراض لوگ اچانک بغیر کسی وجہ کے سیاسی میدان کے شہسوار بنا دیئے گئے ہیں۔ان کو فعال کرنے والوں میں مشرف کی باقیات بہت اہم کر دار ادا کررہی ہے۔یہ بات ہر پاکستانی جانتا ہے کہ جنرل کریسی مشرف کو بچانے کا کھیل ایک مدت سے کھیل رہی ہے نواز شریف حکومت کو مسلسل یہ دھمکی ہے کہ اگر مشرف کو سیف پیسج نہ دیا گیا تو تم بھی سکون سے حکومت نہ کر سکو گے اور عین ممکن ہے کہ ایک مرتبہ پھر تمہیں بوٹوں کی جھنکار سننی پڑ جائے۔اس کے بعد تمہارے لئے بھی کوئی جائے پناہ تلاش کرنا ممکن نہیں رہے گی۔

یا تو بات ما ن لو یا ٹینشن قبول کر لو !!! عمران خان کے دھرنوں، جلسے، جلوسوں نے ساری قوم کو سر درد میں مبتلا کررکھا ہے۔ دوسری جانب اخلاقی میدان میں ان کی اور ان کے ہمنواﺅںکی پستی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں ملک کی معیشت کا بھٹہ بٹھانے کا شائد عزم کر لیا ہے کیونکہ اگر لوگ معشی مشکلات کا شکار ہوں گے تو عوام بپھر سڑکوں پر آجائیں گے اور حکومت کے لئے مزید مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔بنیادی طور پرتو یہ ان کی پنجہ آزمائی تخت پنجاب کی لڑائی ہے۔جو لڑی بھی پنجاب میں ہی جا رہی ہے۔مگر سارا پاکستان اس لڑائی کی وجہ سے اعصابی پریشانی کا شکار بنا دیا گیا ہے۔

سیاست کے میدان کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس میں بعض لوگوںکو مرغے لڑا نے کا شوق در آیا ہے۔وہ ایک جانب جمہوریت بچاﺅ ،جمہوریت بچاﺅ کی صدائے دل دوز بلند کر رہے ہیں، تو دوسری جانب لڑاﺅ اور تماشہ دیکھو کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ان میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پیش پیش ہیں ۔کراچی میں ایم کیو ایم کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل پاتا ہے۔جبکہ پیپلز پارٹی تختِ سندھ کی حکمران ہے ۔دونوں جماعتوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ نواز دشمنی کو فریضہ جمہوریت کے نام پر انجام دے کر عمران خان کو بقول شخصے قائد اعظم اور ذولفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کی سیاست کا سب سے مقبول سیاست دان بنا دیا ہے؟

جنہوں نے دھرنوں کے نام پر پورے شہرِ کراچی کو ایک روز کے لئے روز گار، تعلیم ، علاج معالجے اور انصاف کے ایوانوں میں جانے اور عوام کے فائدے کی سر گرمیوں سے محض اپنے چند ہمدردوں کے ذریعے جام کر دیا۔ جلاﺅ گھراﺅ بھی ہوا خواتین اینکرز کے ساتھ بد سلوکی بھی کی گئی، مگر اس کو دیکھنے والی نہ تو آنکھیں تھیں اور نہ ہی اس جلاﺅ گھراﺅ اور خواتین کے ساتھ بد سلوکی اور مغلظات کو روکنے والی کوئی قوت موجود تھی۔شہرِ قائد(کراچی) بے یارو مددگار یتیموں کی طرح اپنی بے بسی پر 12، گھنٹوں تک آنسو بہاتا رہا ،مزدور اپنی روزی سے محروم رہا طالبعلم علم کی پیاس نہ بجھا سکا،مریض اپنے علاج کےلئے گھر وں سے نہ نکل سکے شہری انصاف کے ایوانوں تک نہ پنہچ سکے،شہرِ قائد کی ہر سڑک ٹائروں سے جل رہی تھی اور پی ٹی آئی کے رہنما اپنی اکڑ میں کہہ رہے تھے کہ میں دیکھتا ہوں کونسا پولیس والا میرے لوگوں کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے!!!

پھر بھی دھرنا پر امن تھا ، ”اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا“ عمران خان کو فری ہینڈ دلواکر سیاسی بازیگر بھی طمانیت محسوس کر رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے جمہوریت اور ن لیگ کو گھر بھیجا جا سکتا ہے اور اسکرپٹ رائٹر کا ایجنڈا کامیاب بنایاجا سکتا ہے۔اس ضمن میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری ایک دو حساس ایجنسیاں بھی متحرک ہیںجس سے ملک میں ماضی جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش شائدکی جارہی ہے۔اس کے علاوہ سندھ میں دو ناکام لیگوں کی کامیابی بھی اور حکمرانوں کے اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی کوششیں بھی یہی غمازی کر رہی ہے جس سے کہ پسِ پردہ کسی ہلچل کی غمازیبھی ہورہی ہے۔

عمران خاں جو بنیادی طور پر سیاست دان نہیں ہیں ن لیگ حکومت بھی ان کو پیپلز پارٹی کی سیاسی حیثیت کے پیش نظر جانے انجانے طریقے پر سیاست دان بنانے کی دوڑ میں شائد کسی سے پیچھے نہیںہے۔ان کے دھرنے توجو خود بخود دم توڑ رہے تھے۔ مگر فیصل آباد میں قانونی اداروں کی نااہلی اور ایک شخص کے قتل نے عمران خان کی ڈوبتی لٹُیاکو ترا کرنا کام دھرنوں میں تھوڑی سی جان تو پیدا کر دی ہے۔ جس کے نتیجے کے طور پر کچھ نہ کچھ پریشانیاں تو ن لیگ کوبھی برداشت کرنا پڑے گی۔

وہ لوگ جن کے کاروبار میں جمہوریت سوٹ نہیں کرتی ہے ۔ہر لمحہ کروٹیں بدل رہے ہیں، اور عمران جیسے لوگ ان کا آخری سہارا ہیں۔ عمران خان جو بنیادی طور پر کھلاڑی تو ہیں مگرسیاست کی ابجدسے ابھی بہت دور ہیں، کیونکہ زبان اور بیان ان کا سیاست دانوں کا سا ہے ہی نہیں اور نہ ہی ان کا روئیہ سیاسی ہے۔جو ان کی پارٹی اور خیبر پختون خوا میں ملاحظہ بھی کیا جاسکتا ہے۔مگر مشرف دور کی نوازشوں نے انہیں سیاست کے میدان میں چھلانگ لگانے کے مواقعے فراہم کرائے گئے۔ اب عمران خان کھلاڑی کا روپ چھوڑ کر سیاست کا ایک نیا بہروپ اپنا کر میدانِ سیاست میںاتارے جا چکے ہیں۔شطرنج کے کھلاڑیوں نے 2013، کے انتخابات کے نتائج سے مایوس ہو کر 16، ماہ بعد نئے سرے سے انہیں میدان میں اتار کر سیاست کی بساط غیر جمہوری طریقے پر لپیٹ دینے کا ایجنڈا سونپا ہے۔

تا کہ ملک میں انارکی پیدا کر اکے بوٹوں کا راستہ ہموار کرنے میں مدد مل سکے۔ اس صورتِ حال میں ہر پاکستانی جمہوریت کے مستقبل سے پریشان ہے دکھائی دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر پاکستانی کہہ رہا ہے پاکستان کی جمہوریت اپنی خیر منا۔کہ تجھے اگر کانٹا بھی لگا تو سارا پاکستان اُس کی ٹیس محسوس کرے گا اور ہمارے دشمن ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر بغلیں بجا رہے ہوں گے

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com