counter easy hit

حکومت نابینا معذور افراد کو کوٹہ سے نوکریاں کیوں نہیں دے رہی؟

Blind People Protest

Blind People Protest

تحریر :میاں نصیراحمد
سرکاری نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ مقرر ہونے کے باوجود حکومت معذور افراد کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے اور ملک کے نوے فیصد معذور لوگ بے روزگاری کا شکار ہیں حکومت سپیشل افراد کے کوٹے سے ان کو نوکریاں کیوں نہیں دے رہی ان کا قصور یہ ہے کہ وہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم میں اپنے حق مانگ رہے حکومتی شخصیات معذوروں کی زندگی سنوارنے اور انکو انکے تمام حقوق دینے کے وعدے تو کرتی ہیں لیکن افسوس ان وعدوں کو وفا کرنے کا عملی مظاہرہ کسی بھی سطح پر نظر نہیں آتاجہاں پربڑی غورطلب بات یہ ہے نابینامعذورافراد کے لیے ملازمتوں کا کوٹہ بھی مخصوص کیا گیا جن کا اطلاق تمام سرکاری نیم سرکاری اور پرائیوٹ اداروں پر ہوتا ہے تاکہ معزور افراد کو ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جا سکیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے معزور افراد کے کوٹہ کا قانون صرف کتابوں تک ہی رہ گیا ہے

ہر ادارہ ملازمت کے حصول کے لیے اپنی مرضی سے کوٹہ بناتا ہے جبکہ کئی ادارے تو اس کو مناتے ہی نہیں اور معزور افراد کو ملازمت کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑ تی ہیں وہ بچارے تو پہلے ہی زمانے کے ستائے ہوئے افراد ہوتے ہیں ادارے ان کیساتھ ایسا سلوک کرکے ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور وہ زمانے کے ستائے معزور افراد بھیک منگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اگر تمام قوانین اور حوصلہ افزائی صرف دکھاوا ہے تو ان افراد کے ساتھ اتنا بڑا مذاق کیوں کیا جاتا ہے معذور افراد مو معارے میں اپنی جگہ بنانے اور ایک با عزت زندگی گزارنے میں ویسے ہی انتہاء دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے میں حکومت وقت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان معزور افراد کی دیکھ بھال اور نگہداشت میں اپنا حصہ ڈالے لیکن حکومت کی بے

حسی کی وجہ سے معزور افراد کوان جائز حقوق نہیں ملنے رہے نابینا افراد معاشرے کا اہم جزو ہیں اور روزگار کی عدم دستیابی،قانون ساز اداروں میں معذور افراد کی نمائندگی کا نہ ہوناحکومت کو معزور افراد کی ملازمت کے لیے اپنے اندر احساس پیدا کرنہ ہوگاترقی یافتہ اور باشعور جمہوری مملکتوں اور ریاستوں میں شہریوں کو محض کسی جسمانی معذوری کی بناء پر امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ انہیں بھی صحیح اور صحت مند شہریوں کی طرح ہر قسم کے حقوق سے مستفید ہونے کے بھر پور مواقع فراہم کئے جاتے ہیں بعض ممالک میں تو معذور افراد کو صحیح سالم افراد کی نسبت کئی درجہ زیادہ اہمیت بھی دی جاتی ہے ہمارے ملک میں اگرنابینامعذورافراد کو آگے بڑھنے کے بہتر مواقع فراہم کئے جائیں تو وہ مفید شہری کی حیثیت سے ملک کی تعمیر وترقی میں موثر کردار ادا کرسکتے ہیں

وہ بھی عام آدمی کی طرح اپنی زندگی گزار سکیں حکومت کا نابینا افراد کے سا تھ کیا ہوا وعدہ وفا نہ ہوسکاحکومت معاشرے میں باعزت روزگار دینے کے وعدوں سے منحرف ہوگئی ہے حکومت اور نابینا افراد کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں ، نابینا افراد نے مطالبات کی منظوری تک پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا ہے ، صوبائی حکومت نابینا افراد کو سپیشل افراد کے کوٹے سے نوکریاں کیوں نہیں دے رہی معزور افراداسی معاشرے کا حصہ ہیں ، حکومت سپیشل افراد کے کوٹے سے نابینا افراد کو نوکریاں دے تین ماہ قبل بھی وزیر اعلیٰ پنجاب سے مذاکرات ہوئے تھے اور سپیشل افراد کوروزگار دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اج تک وہ وعدہ وفا نہیں ہوسکا نابینامعذورافراددرخواستیں دے دے کر تھک چکے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے ان کی درخواستیں ردی کی ٹوکری میں پھینک دی ہیں غورطلب بات یہ ہے

نابینا معذور افراد نے اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے پولیس کا لاٹھی چارج بھی برداشت کیا لیکن ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہوئے معذورافراد کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کے بارے میں قانون سازی اور کسی واضح پالیسی کا نہ ہونا ہو معذور افراد کو نوکریاں فراہم کرنے میں انہیں ہر سطح پر نظرانداز کیا جاتا ہے اس حوالے سے وفاقی حکومت کی کارکردگی پنجاب سے بھی بدتر ہے معذور افراد کے لئے تعلیم، صحت، نوکری اور قومی و صوبائی اسمبلی میں نشستیں مختص کی جائیں اگر معذور افراد کے لئے سرکاری اداروں میں روزگار کی فراہمی کوٹے کے تحت یقینی بنا دی جائے تو معاشرے کا یہ حصہ احتیاج اور افلاس سے گلو خلاصی میں کامیاب ہو جائے گا

میری حکومت پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس پاکستان اور چاروں وزیراعلی صاحبان سے اپیل ہے کہ معزور افراد کے کوٹہ والے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے اور میری اپیل ہے ان تما م پرائیوٹ اداروں سے کہ وہ معزور افراد کی ملازمت کے لیے اپنے اندر احساس پیدا کریں انہیں حیرت کی نظر سے نہ دیکھیں تاکہ معزور افراد بھی عام آدمی کی طرح اپنی زندگی گزار سکیں اور زمانے کے لیے مثال بن جائیں۔۔

Mian Naseer Ahmad

Mian Naseer Ahmad

تحریر: میاں نصیر احمد