counter easy hit

غزہ کی تعمیر نو کیلئے سعودی حکومت کی امداد

Relief

Relief

تحریر : مصعب حبیب
سعودی عرب کے نائب وزیراعظم اور وزیر دفاع ولی عہد شہزادہ سلمان نے فلسطینی حکومت کو غزہ کی تعمیر نو کیلئے ہر ممکن مددو تعاون کا یقین دلایا ہے۔ ریاض میں فلسطینی وزیر اعظم رمی حمد اللہ سے ملاقات کے دوران شہزادہ سلمان نے کہاکہ اسرائیل کی بلاجواز جنگ سے ہونے والے نقصانات کے ازالہ اور تعمیر نو کے اقدامات پر سعودی عرب تیزی سے عمل درآمد پر یقین رکھتا ہے۔حرمین نیوز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد اور فلسطینی وزیر اعظم کے مابین صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون اورفلسطینیوں کو ان کے گھروں میں بسانے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھانے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا۔ فلسطینی وزیر اعظم رمی حمد اللہ نے سعودی حکومت کی مسلسل حمایت پر شہزادہ سلمان کا شکریہ ادا کیااور کہاکہ سعودی عرب کی سیاسی اور مالی امداد سے فلسطینی عوام خاص طور پر غزہ کی پٹی پر رہنے والے فلسطینیوں کے معمولات زندگی بہتر بنانے میں بہت مدد مل رہی ہے۔حرمین نیوز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی وزیر اعظم نے غزہ کی تعمیر نو کیلئے فنڈز جمع کرنے کی کوششوںا ور تازہ ترین سیاسی و اقتصادی صورتحال سے بھی سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان کو آگاہ کیا۔ انہوںنے کہاکہ ڈونر ممالک کے تعاون سے ہم غزہ کی تعمیر نو کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ سرد موسم میں فلسطینی مشکلات سے دوچار ہورہے ہیں۔ ڈونر ممالک اس حوالہ سے اپنی ذمہ داری ادا کریں۔

اسرائیل نصف صدی سے زائد عرصہ سے نہتے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔آئے دن بمباری کر کے پھول جیسے بچوں کو مسلا جاتا ہے۔ بچوں،بوڑھوں اور خواتین سمیت کوئی فلسطینی اسرائیلی جارحیت اوراس کی بدترین دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کی طرف سے اسرائیلی حملوں پر شدید احتجاج کیا جاتا ہے مگر افسوس کہ ستاون اسلامی ممالک کی حکومتوں میں سے کسی نے آگے بڑھ کر عملی طور پر اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ انبیاء کی سرزمین فلسطین پر آگ اور خون کی ہولی کیوں کھیل رہا ہے؟ سب خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر کسی مسلم حکومت نے کبھی کوئی ایک آدھ مذمتی بیان دیا بھی تو وہ اسی پر اکتفا کر بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ریاست کا حق ادا ہو گیا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے۔ سوشل میڈیا پر معصوم بچوں کے قتل و خون کی ایسی تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

امریکہ و یورپ کا میڈیا تو صیہونی مظالم پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے اور اصل حقائق دنیا تک پہنچنے نہیں دیے جارہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم میڈیا کی طرف سے بھی اس طرح کا بھرپور کردار دیکھنے میں نہیں آیا جو انہیں ادا کرنا چاہیے تھا۔اسرائیلی بمباری سے اب تک سینکڑوں بچے، بوڑھے اور جوان شہید ہو چکے ہیں مگر اس کی بربریت رکنے میں نہیں آرہی۔ تمامتر عالمی دبائو کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیلی فوج آئے دن غزہ میں گھس کر زمینی کاروائی کا آغاز کر دیتی ہے۔ ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہیں۔عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مساجدومدارس کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتاہے۔کچھ عرصہ قبل فلسطین میںاسرائیلی دہشت گردی کے حوالہ سے گارڈین نے حقائق پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی جس میں ساڑھے تین سو سے زائد سابق اسرائیلی فوجیوں کے نہتے فلسطینیوں پر مظالم کے اعترافات کو پیش کیا گیا ۔ رپورٹ میں فلسطینیوں کے ساتھ چیک پوسٹوں پر کئے جانے والے تذلیل آمیز رویے، فائرنگ اور حملوں کے سینکڑوں واقعات کو بیان کیا گیا جس میں اسرائیلی فوجیوںنے ہوشربا انکشافات کرتے ہوئے بتایاکہ ہمیں اوپر سے جو ہدایات ملتی ہیں ان کے مطابق ہماری ترقی اور کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ فلسطینی مسلمانوں کی لاشیں کمانڈر کے پاس لیجائی جائیں۔

ہمیں ہمارے سینئرز کی طرف سے سمجھایا جاتا تھا کہ گرفتاریوں میں وقت ضائع مت کرو ‘ اس کام میں تو برسوں ضائع ہو چکے ہیں ہمارے پاس صرف مردہ دہشت گردوں کی لاشیں آنی چاہئیں اس لئے ہم ہر رات مختلف علاقوں میں چھاپے مارتے’ فائرنگ کرتے اور ایسا ماحول پیدا کرتے جیسے ہم پر جوابی فائرنگ ہوئی ہے۔ اس دوران جو کوئی بھی ہمارے ہاتھ لگ جاتا ہم انہیں گرفتار کر لینے یا قتل کر دیتے۔ یہ ایسی صورتحال تھی کہ جس میں آپ بس دوربین سے دیکھتے رہتے تاکہ کسی کے نظر آنے پر اسے قتل کرسکیں کیونکہ یہی ہمارا کام قرار دیا گیا تھا۔گارڈین کی رپورٹ میں سابق اسرائیلی فوجیوں کا کہنا تھا کہ فلسطینی اس حوالہ سے شدید ذہنی تنائو کا شکار رہتے ہیں کہ انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کب انہیں پکڑ کر جیل میں ڈال دیاجائے گا؟ اور پھر ملازمت کے دوران ہمارا یہ عالم تھا کہ جو کوئی فلسطینی کسی ناکے پر ذرہ بھر بھی احتجاج کرتا اسے پکڑ کر چھوٹی سی جیل میں ڈال دیاجاتا اور پھر کئی کئی دنوں تک ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ ہم نے انہیں جیل میں ڈال رکھا ہے۔ رپورٹ میں اسرائیلی مظالم کے نت نئے طریقے بیان کئے گئے ہیں جنہیں سننا اور پڑھنا ایسے کسی شخص کے بس میں نہیں ہے جو اپنے دل میں انسانیت سے بھی ذرا سی بھی ہمدردی رکھتا ہے۔

بہرحال اسرائیل کی حالیہ دہشت گردی پر ساری دنیا چیخ چیخ کر اسے بند کرنے کا کہہ رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اسرائیلی بربریت رکوانے کیلئے او آئی سی جیسے اداروں کی جانب سے بھی کوئی خاص جرأتمندانہ کردار ادا نہیں کیاجارہا جس سے چھوٹے سے ملک اسرائیل کو اس قدرشہ ملی ہوئی ہے کہ وہ کسی کو خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں عالم اسلام کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئیں۔اسرائیلی دہشت گردی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ وہ ممنوعہ ہتھیار استعمال کر رہا ہے جس سے متاثر ہونے والوں کی لاشیںجل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ فلسطین کے معصوم بچے اور عورتیں آج پھر کسی صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی منتظر ہیں اور اس وقت کی راہیں تک رہی ہیں جب کوئی مسلم سپہ سالار فلسطین کے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے،ہنستی مسکراتی بستیوں کواجاڑنے اور کیمیائی و جراثیمی ہتھیاروں کے ذریعے ان کے پیاروں کی نسل کشی کا سلسلہ بند کروائے گا اور وہ بھی آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔

آخر میںیہاں میں سعودی عرب کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گاکہ پاکستان اور دیگر اسلامی ملکوں کی طرح اس نے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی بھی ہرممکن مددوحمایت کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری سے پیدا ہونے والے انسانی المیہ سے نمٹنے کے لیے پچاس ملین ڈالر کی خطیر رقم غزہ میں فلسطینی ہلال احمر کو پیش کرنے کا حکم جاری کیا اور کہا کہ 200 ملین سعودی ریال کی اس خطیررقم سے فلسطینی زخمیوں اور بمباری سے بے گھر ہونے والے افراد کی علاج معالجے ، خوراک اور رہائش کی فوری ضروریات پوری کی جائیں گی۔اب ایک بار پھر جب فلسطینی وزیر اعظم رمی حمداللہ نے سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان سے ملاقات کی ہے تو سعودی حکومت نے انہیں غزہ کی تعمیر نو کیلئے ہر ممکن مددوتعاون کی یقین دہانی کروئی ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ تمام مسلم ممالک مالی امدادکی طرح مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیلی ظلم وستم سے نجات دلانے کیلئے بھی عملی کوششیں کریں یہ پوری مسلم امہ پر فرض ہے۔

تحریر : مصعب حبیب