counter easy hit

ووٹر کی عزت بھول گئے

قارئین کرام! آج کچھ بات کرتے ہیں ووٹر کی عزت کی. اس سے تو اہلیان پاکستان بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے منتخب کردہ امیدوار عوام کی (اپنے ووٹرز) کی کتنی عزت کرتے ہیں. سیاسی پارٹیاں اب بھی “ووٹ کو عزت دو” کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آتی ہیں. لیکن افسوس کہ ان کو صرف ووٹ کی عزت ہی عزیز ہوتی ہے اور وہ بھی صرف اور صرف اس وقت جب ان کو کوئی مشکل درپیش ہو. جبکہ ووٹرز کی عزت تو ان کی جانب سے کچھ یوں کی جاتی ہے کہ ووٹر کو مہنگائی کے گہرے کنویں میں دھکیل دیا جاتا ہے. ووٹر چیخ چیخ کر تھک جاتا ہے مگر افسوس کہ ایم پے ایز یا ایم این ایز کے کانوں پر تو جوں تک نہیں رینگتی. ان کو اپنے ملکی حالات کی بالکل خبر نہیں ہوتی. ان کو خبر ہوتی ہے تو صرف اور صرف اپنے کاروبار کی، بنگلوں اور گاڑیوں کی.ان کو خبر ہوتی ہے تو صرف حریف کی خامیوں کی. ان کو خبر ہوتی ہے تو صرف ٹاک شوز میں شرکت کرنے کی.ان کو سوچ ہوتی ہے تو صرف اور صرف اپنے رشتہ داروں کی.ووٹرز کو روزگار کا کہا تو جاتا ہے وعدہ تو کیا جاتا ہے لیکن افسوس کہ وعدہ کبھی وفا نہیں ہوسکتا.ان کو وعدہ وفا کرنا شاید یاد نہیں رہتا. غریب بے چارہ فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر عینکیں,گھڑیاں اور رومال بیچتا ہے اور اپنی زندگی بسر کرتا ہے.لیکن افسوس کہ جب ہمارے ایم پی ایز اور ایم این ایز ان سڑکوں سے گزرتے ہیں تو ان کی نظر ان غریبوں پر نہیں پڑتی.لیکن جب الیکشن قریب آتے ہیں تو یہ ان کے درمیان جاکر ہمدردی دکھاتے ہیں اور بے روزگاری کا مکمل خاتمہ کرنے کے دعوے کے ساتھ ہی اگلے الیکشن تک کے لیے غائب ہو جاتے ہیں.
ہمارے پیارے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے بچے بیرون ملک زیر تعلیم ہوتے ہیں لیکن افسوس ایک ووٹر کہ جس کی وجہ سے یہ ایم این ایز یا ایم پی ایز منتخب ہوتے ہیں ان کے بچے سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوتے ہیں.ان کے پاس اپنے بچوں کے لیے سکول کی وردی تک خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے.اگر کسی طرح محنت و مشقت کے بعد کسی شخص کے بچوں کا داخلہ ہو بھی جائے تو ہمارے ملک میں ہماری غلط نامزدگی اور سلیکشن کی وجہ سے دیہی علاقوں میں طلباء کے لیے کوئی خصوصی بس سروس بھی نہیں ہے.طلباء بے چارے صبح سویرے بس اڈوں پر دھکے کھا رہے ہوتے ہیں.مگر افسوس کہ یہ منظر کسی سیاسی رہنماء کی آنکھوں سے نہیں گزرتا.ان کی نظریں کیوں غرباء اور ان کے پر نہیں پڑتیں.کیا صرف ووٹر کا مقصد ووٹ دینا ہے.کیا اس کو جینے کا حق نہیں.کیا ووٹر کو صرف ووٹ کے حصول کے لیے ہی استعمال کیا جانا چاہیے.کیا غریب انسان نہیں ہوتے.کیا ان کے حقوق نہیں ہیں.کیا غریب پیدا ہونا جرم ہے؟؟ان سوالات کے جواب کون دے گا؟کیا غریبوں کے بچے تعلیم.حاصل نہیں کرسکتے کیا ان کے لیے بس سروس کا کوئی حق نہیں.کیا عوام اہلیانِ پاکستان نہیں ہیں؟؟ووٹر کو ووٹ کے حصول کے لیے محکمہ صحت کی بہتری کے وعدے کئے جاتے ہیں.لیکن اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح یہ وعدہ بھی وفا کرنا بھلا دیا جاتا ہے.جب ان کو تکلیف ہوتی تو ماشاءاللہ سے بیرون ملک کسی اچھے سے اسپتال میں جاکر اپنا علاج کراتے ہیں.ان کے بچے بھی دنیا کے نمبر ون اسپتالوں میں پیدا ہوتے ہیں لیکن افسوا کہ ووٹرز کے بچوں کو سڑکوں پر جنم لینا پڑتا ہے.ووٹرز کے لیے اسپتالوں میں سہولیات کا فقدان نظر آتا ہے.کیا غریبوں کے لیے ملک میں اور قانون جبکہ امیروں کے لیے اور ہے؟؟کیا غریبوں کو صحتیاب ہونے کا حق نہیں؟؟؟کیا غریب کیڑے مکوڑے ہیں؟؟
کیا غریب ان امیروں کی گاڑیوں سے کچلے جانے کے لیے پیدا ہوتے ہیں.کیا غریب ہونا کوئی بیت بڑا جرم ہے؟؟کہ ان کو وزیروں اور مشیروں کی ریلیوں میں گاڑیوں کے نیچے کچل دیا جاتا ہے.ان کے پروٹوکول کی وجہ سے عوام کے بچے سڑکوں پر جنم لیتے ہیں.ان کے پروٹوکول کی وجہ سے ایمبولینسیں گھنٹوں رکے رہنے سے اموات ہوتی ہیں.مگر افسوس کہ ہربار ہر طرف مرتے صرف غریبوں کے بچے ہیں.ہر بار صرف غریب ہی جان کی باذی ہارتے ہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غرباء کے لیے اتنی بے حسی کس لیے؟؟کیا غریب کسی کی اولاد نہیں؟؟کیا خدا نے انہیں خلق نہیں کیا.کیا وہ امراء کی غلامی کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟؟
زراعت ہمارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے.کسان بے چارے سالہا سال زراعت کے پیشے پر کام جاری رکھے ہوتے ہیں.لیکن افسوس کہ اس ملک میں کسانوں کے حقوق بھی محفوظ نہیں ہیں.کسانوں پر بھی ظلم و بربریت کی انتہا کردی جاتی ہے کو ان کی کاشت کی رقم بھی پوری نہیں ملتی.کسان بے چارے سارا سال محنت کرتے ہیں لیکن افسوس کہ اگر گنے کی بات کی جائے تو ملز مالکان گنے کی بجائے عوام کی کرشنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.کپاس,دھان اور گندم میں بھی کسانوں کی یہی حالت ہوتی ہے.بیج کھادیں اور دیگر کیمیائی مواد کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتیں ہیں لیکن جب آمدن کی بات کی جائے تو وہ صرف وہی کسان ہی جان سکتا ہے اور محسوس کرسکتا ہے.جب الیکشن کے دن قریب ہوتے ہیں تو یہ سیاست دان وعدے کرکر تھکتے نہیں ہیں اود کسانوں کے بہت دلیری سے حامی بننے کی اداکاری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.ان سیاسیوں سے اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ پچھلے دور حکومت میں آپ نے کسانوں کی بہتری کے لیے کیا فرائض سرانجام دئیے.کیا یہ اپنے کسان ووٹرز کی بھلائی کے لیے کسانوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرتے ہیں؟؟تو جواب ملتا ہے “نہیں”.ان کو تو صرف اپنے ووٹ عزیز ہوتے ہیں.اس کے بعد ووٹرز کی عزت کرنا شاید یہ اپنی توہین سمجھتے ہیں.الیکشن کے بعد ووٹرز میں آنا بھی ہمارے سیاسی مناسب نہیں سمجھتے.اب آتے ہیں شعبہ صحافت کی طرف تو یہ پیشہ ایک مقدس پیشہ ہے.میں اپنے وطن کے نڈر,بے باک,باکردار اور باضمیر صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جو اپنے ملک کی عوام کو حق و سچ دکھاتے ہیں.دن رات اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں.لیکن افسوس کہ کچھ ایسے بھی سیاسی ہیں کہ جن کو سچ دیکھنا مناسب نہیں لگتا.یا پھر حریف کے اچھے کام دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی.کچھ سیاسی تو صحافیوں پر دباؤ ڈالنا بھی شروع کردیتے ہیں کہ آپ فلاں کو اتنی عزت کیوں دیتے ہیں جبکہ ہمیں تو اس میں ایسی کوئی خوبی نظر نہیں آتی.آپ فلاں کو اچھا کیوں کہتے ہیں جبکہ اس میں تو کوئی اچھائی نظر نہیں آنی چاہیے.آپ میرے فلاں بندے کو برا بھلا کیوں کہتے ہیں جبکہ آپ کو تو اس کی تعریف کرنی چاہیے.مگر با کردار اور باضمیر صحافی ان کے دباؤ میں نہیں آتے جبکی ان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں.جی ہاں بلکل جیسا کہ سمبڑیال کے نڈر اور بے باک صحافی زیشان اشرف بٹ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور بعد ازاں اس صحافی کو سچ دکھانے کے ڈر سے شہید کردیا گیا ہے.
کیا یہ ووٹر کی عزت کی جارہی ہے.عوام کب ان کی شناخت کرے گی.کیا صحافی کی کوئی عزت نہیں ہوتی.کیا یہ صحافی اس ملک کا حصہ نہیں ہیں؟؟کیا ایک صحافی کو سچ لکھنے سے روکنا آپ کے نزدیک مناسب ہے؟؟کیا صحافی اس وطن کا قیمتی سرمائیہ نہیں ہیں.یا بدقسمتی سے ہمارے بعض سیاسی ان کی عزت کرنا نہیں جانتے.کیا صحافیوں کو دھمکیاں دینا دلیری ہے؟؟میں عوام سے سوال کرتا ہوں کہ کیا صحافیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا مناسب ہے.کیا ایک سیاسی رہنماء کو یی زیب دیتا ہے کہ وہ صحافی کو اپنے فرائض سرانجام دینے کی بجائے اس پر دباؤ ڈالنا شروع کردے؟؟کیا یہ افراد ووٹر کی عزت کرنا جانتے ہیں.کیا یی افراد عوام کے لیے فائدہ مند ہیں؟؟اگر نہیں تو پھر عوام ان کو کیوں نہیں پہچان پا رہی.کیوں اپنے لیے ہمیشہ کی طرح مشکلات پیدا کررہی ہے.کیا اب بھی ایسے سیاستدانوں سے اچھے کی امید کی جاسکتی ہے.بلاشبہ ایسے سیاستدان جس پارٹی میں بھی ہوں وہ ملک کے لیے خطرے کا باعث ہیں اور ملکی ترقی میں رکاوٹ ہیں.عوام کو چاہیے کہ اپنے ضمیر کی سنیں.ایک اور مثال پیش کرتا ہوں کہ جب تیار ہونے کو ہوتی ہے تو فصلی بٹیرے تشریف آور ہوتے ہیں لیکن پھر بعد میں وہاں سے رفو چکر ہوجاتے ہیں.آخر پر عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمیشہ ایسے بندے کا انتخاب کریں کہ جو ووٹ کے ساتھ ساتھ ووٹر کی عزت کرنا بھی جانتا ہو.ایسے افراد کا انتخاب کریں کہ جس کو وطن کی ترقی سب سے زیادہ عزیز ہو.ووٹ کے عمل کو بھی اتنی سنجیدگی سے لیں جتنی سنجیدگی سے اپنے بچوں کے لیے کچھ منتخب کرتے ہیں.یہ وطن بھی ہمارے لیے ماں کی حیثیت رکھتا ہے.اس کے سربراہ کو منتخب کرنے کے عمل کو بھی فکر سے کام کرنا ہوگا.سیاستدان ووٹ کو تو عزت دیتے ہیں لیکن ووٹر کو عزت کون دے گا.ان کسانوں کو عزت کون دے گا؟؟صحافی برادری کو عزت کون دے گا.میرے ان سوالات کے جواب کون دے گا.بے شک سیاستدان ایماندار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی موجود ہیں لیکن ان کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے آخر ہر کی شعر تحریر کیا ہے کہ
افسوس ایم این ایز, ایم پی ایز حلقوں میں آنا بھول گئے
بس ووٹ تو لینے یاد رہے,سب وعدے قسمیں بھول گئے
موصوف تو وعدے کرتے رہے,غرباء کے بچے مرتے رہے
ساقی ووٹ کی عزت یاد رہی ووٹر کی عزت بھول گئے

تحریر: سبطین عباس ساقی