counter easy hit

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے حصہ 1

Journalism

Journalism

تحریر: رانا عبدالرب
زیست کے سفر پر جب ماضی کے صفحات کو کریدنے کا موقع ملتا ہے تو دامن ِزیست میں سوائے کانٹوں کے کچھ ہاتھ نہیں آتا، لیکن جہاں اتنے کانٹے ہوں وہاں پھول کی مہک نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں، یہی مہک سفر میں زاد راہ کا کام دیتی ہے اور انسان منزل کے قریب سے قریب تر ہوتا جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ کامیابی بھی راہی پر نازاں ہوتی ہے۔ کانٹوں اور پھولوں کی کہانی کو اگر فطرت کی نظر سے دیکھیں تو باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خالق کائنات نے پھولوں کے ساتھ کانٹوں کا تصور ہی اسی لئے دیا کہ پھولوں تک رسائی تب ہی ممکن ہے جبکہ انگلیوں کی پوریں درد کے احساس سے گذرتی ہیں۔

5ستمبر 2009ء تھا۔ جب راقم الحروف نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا ۔ہاتھ میں کاغذ قلم لئے راقم سینئر صحافی کے دفتر پہنچا اور بتایا کہ میں نے صحافتی میدان میں نیا قدم رکھا ہے اور مجھے آپ کی رہنمائی درکار ہو گی۔موصوف نے من بھر گالیاں صحافتی شعبے کو دیتے ہوئے میرے پاتھ میں دفتر کی چابیاں تھماتے ہوئے کہا کہ آپ کل صبح سے دفتر تشریف لے آئے گا اور اس کی کل سے صفائی ستھرائی آپ کی ذمہ ہو گی۔

ایک لمحہ کے لئے تو دل نہ مانا لیکن جنوں کی لت نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔(او ریوں کئی دفاتر میںذمہ داریاں دیں) وقت گذرتا گیا اور راقم روز گالیوں کے نشتر سہتا ۔پھر نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ ”روز کے مرنے سے بہتر ہے کہ جینے کی ایک کوشش کی جائے”اور راقم نے شروع سے سفر شروع کیا اور کئی دفاتر کی غالب کی طرح ”خاک چھانی ،قسقہ کھینچا،دیر میں بیٹھے ،بس ترک اسلام نہیں کیا ”اور بدلے میںملا کیا۔۔۔؟؟؟

ان تلخ تجربات سے اس نتیجہ پر پہنچا کہ کیسے ممکن ہے کہ وہ لوگ جن کی معاشرہ میں ایک شناخت بن چکی ہے راقم ان کی جگہ کیسے لے سکتا ہے ؟پرانے لوگ کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کے برابر کی کرسی پر بیٹھے اور اس کی اپنی ایک الگ شناخت ہو؟ ہاں ایسا ممکن ہو سکتا ہے اگر آپ ان کے اسسٹنٹ بن کر یا پھر آپ اپنا کندھا ان کے استعمال کے لئے رکھ چھوڑیں تب جا کر کہیںآپ کو بھی برابری کی کرسی مل سکتی ہے ۔وگرنہ آپ لاکھ پڑھے لکھے کیوں نہ ہوں،لاکھ ان سے بہتر کیوں نہ لکھ سکتے ہوں، لاکھ ان کے نظریات سے آپ کے نظریات مثبت کیوں نہ ہوں۔

Journalist

Journalist

لاکھ آپ صحافتی اصولوں پر پورا ہی کیوں نہ اترتے ہوں ،آپ اگر مندرجہ بالا (سینئر کے بنائے ہوئے خود ساختہ اور من گھڑت قوانین )کو نہیں مانیں گے تو اچھے صحافی ماننا تو درکنار ،آپ صحافت کا نام تک استعمال نہیں کر سکتے(کیوں کہ آپ ورکنگ جرنلسٹ نہیں)۔ ہمارے ہاں جنگ اصولو ںکی نہیں مفادات کی لڑی جاتی رہی ہے اور شاید آئندہ بھی ایسا ہی ہو۔۔۔۔؟؟؟

راقم الحروف انہی مایوسیوں کی گٹھری لئے زندگی کے لمحات گذار ہی رہا تھا کہ پھر”بول ٹی دی ”پر پابندی لگی اور راقم کی آنکھوں نے دیکھا کہ پھر سے وہی” مناپلی والی سرکار یں”پھر سے متحد ہو کر اس ننھے پودے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی تھی لیکن ظلم کی شب لمبی تو ہو سکتی ہے۔ لیکن صبح کا اجالا بڑی سے بڑی سیاہ رات کے اندھیرے کو کھا جاتا ہے اور وہی ہوا اس بار ”مناپلی والی سرکاروں”کو مات کھانی پڑی کیوں کہ شعور کا بیج پودا بننے کو ہے ۔اب نئی نسل کو اس بات کا باخوبی ادراک ہے کہ :۔

فکر ِ نو خیز تجھے طفل بھلا کون کہے
کتنے بوڑھے تری تقلید پہ آمادہ ہیں

اب وہ جانتی ہے کہ اب انگلیوں کی پوروں نے درد کا احساس برداشت کر لیا ہے اب پھول تک رسائی کا وقت ہے ۔اور پھولوں والے جان لیں کہ اب انہیں کانٹوں کا درد سہنا ہوگا۔ (جاری ہے۔۔۔۔

Rana Abdulrab

Rana Abdulrab

تحریر: رانا عبدالرب
03156150150