counter easy hit

سیلاب کے اسباب اور سدباب کا لائحہ عمل

Flood

Flood

تحریر : علی عمران شاہین
پاکستان ان دنوں جس سب سے بڑے مسئلہ کا سامنا کر رہا ہے، وہ مون سون کی بارشوں سے پیدا ہونے والی زبر دست سیلابی کیفیت ہے۔ شمالی علاقہ جات اور چترال میں بے تحاشا بارشوں نے خوب تباہی مچا رکھی ہے تو ان بارشوں سے آنے والا پانی پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں کو لتاڑ رہا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہیں، ان کی فصلیں سیلاب برد ہو چکی ہیں تو گھر اور مال و اسباب سے بھی وہ محروم ہو کر جگہ جگہ نان جویں کیلئے ترس رہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ سیلاب متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا، گھر بھی بنا کر دیں گے، ہر نقصان کا ازالہ کریں گے۔ حکم آتا ہے کہ تمام ادارے سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے دن رات ایک کر دیں، وغیرہ وغیرہ۔یہ سب اپنی جگہ بجا لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لوگ سیلاب کی وجوہات پر کبھی غور نہیں کرتے، اس کے تدارک کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے اور ہر سال مدد و بحالی کے نعرے لگا کر وقت گزارنے پر ہی اکتفا کرتے نظر آتے ہیں۔

ہمارے ملک کے آسمانی آفات سے نمٹنے کیلئے قائم ادارے این ڈی ایم اے نے جب کہا کہ موجودہ سیلابی کیفیت میں اگر بھارت نے پانی چھوڑ دیا تو بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہو گی۔ اس پر کسی نے کوئی غور نہیں کیا کہ بھارت آخر کیوں اس طرح کرتا ہے؟ جب ہم پہلے ہی برساتی پانی میںڈوبے ہوتے ہیں تو وہ بے تحاشا پانی یکدم چھوڑ کر ہمیں مزید غرق کر ڈالتا ہے۔ بھارت اسے تسلیم بھی کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس پرکوئی بات نہیں ہوتی۔ یوں ہمارے ہاں سیلابوں سے ہونے والی بے تحاشا تباہی کی اس ایک بہت بڑی وجہ کا کہیں دور دور تک نام و نشان بھی نظر نہیں آتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں ملک کے قدرتی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کیلئے کبھی کچھ نہیں ہوا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سیلابوں کو روکنے کیلئے سب سے کارگر قرار پانے والے جنگلات اور درختوں کا ہماری پاک سرزمین سے تو خاتمہ ہی ہو چکا ہے۔

ماہرین ماحولیات سے پوچھئے، وہ آپ کو بتائیں گے کہ کسی بھی ملک کے ماحول اور معیشت کیلئے اس کے 25فیصد رقبے پر جنگلات ضرورت ہیں لیکن ہمارا ملک وہ بدقسمت خطہ ہے کہ جس میں اس وقت جنگلات محض 3فیصد رہ گئے ہیں۔ یہ جنگلات بارشوں کے قدرتی نظام کوبھی بہت حد تک برقرار رکھتے اور پھر بارش پانی کو زمین میں جذب رکھ کر سیلاب کی کیفیت پیدا ہونے سے روکتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے ڈیموں کی مدت استعمال بھی بڑھتی ہے کیونکہ ڈیموں کو بھرنے والی مٹی اور ریت کویہ پکڑ کر رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہزارہ، آزاد کشمیر اور دیگر پہاڑی علاقوں میں بچے کھچے معمولی سے جنگلات کا جس تیزی سے قتل ہو رہا ہے، اس کی طرف کسی کی نگاہ نہیں۔ محکمہ جنگلات کا کام جنگلات کی حفاظت اور بڑھوتری ہے لیکن یہ الٹا جنگل سمگلرز کے ساتھ مل کر اس سبز سونے کی دن رات لوٹ مار میں مصروف ہیں۔

دوسری طرف بارش کے پانی کو سنبھالنے کیلئے جن ڈیموں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے ہاں کوئی بھی بنانے کو تیار نہیں۔ ہماری قوم قیام پاکستان سے لے کر آج تک کالا باغ ڈیم کے چکر میں پھنسی ہوئی ہے اور اس کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے دوسرا کوئی ڈیم بھی نہیں بنا۔ پانی ذخیرہ کرنے اور بارش کے پانی کو روکنے کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں تو لامحالہ یہ پانی سوائے تباہی کے ہمیں اور کیا دے سکتا ہے۔ اگر ہم دیگر ممالک کی طرح ڈیم بنا کر بارشوں کے پانی کو سٹور کرنے کا کچھ انتظام کر لیں تو سیلابوں کا معاملہ کافی حد تک سنبھالا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اہم ترین معاملہ پانیوں کے بہائو کے قدرتی راستوں کا سرے سے ختم ہوجانا ہے۔ دریائوں کے پاٹ جو کسی زمانے میں کئی کئی کلومیٹر چوڑے ہوتے تھے اب ندی نالوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں کیونکہ ہمارے اپنے ہی مہربانوں نے دریائوں کے پاٹوں اور زمینوں پر وسیع قبضے جما لئے ہیں۔

بارشوں کے پانی کے بہائو کا جب کوئی راستہ ہی نہیں تو لامحالہ وہ آبادیوں ہی کو تاراج کرے گا۔ انگریز کے دور کے نقشے اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو وہاں مون سون کے موسم میں بارشوں کے پانی کے بہائو کیلئے الگ سے ”فلڈ چینلز” کی اصطلاح ملے گی۔زمینوںکی تقسیم میں انہیں الگ سے وسیع جگہ دی گئی لیکن اب عملی طور پر زمین پر دیکھیں تو کوئی ایک فلڈ چینل بھی نہیں ملے گا۔ پانی کی تمام قدرتی گزرگاہوں پر ہمارے اپنے ہی مہربانوں نے فیکٹریاں، وسیع ہائوسنگ کالونیاں اور کاروباری مراکز تعمیر کر لئے ہیں اور اگر کوئی جگہ بچی تو وہاں کھیت کھلیان آباد کر لئے گئے۔ یہ کام کوئی عام آدمی نہیں کر سکتا۔ یہ سب ان بارسوخ لوگوں کا کام ہے جنہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ پھر جب پانی کوئی راستہ نہ پا کر ہماری آبادیوں کو روندنا شروع کرتا ہے تو ہم رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں کہ سیلاب نے تباہی مچا دی، ملک کا ستیاناس کر دیا، ہم لٹ گئے، مٹ گئے، مر گئے۔

لیکن اس سارے عمل میں اس حوالے سے وجوہ کی طرف کوئی نظر التفات بھی ڈالنے کی کوشش نہیں کرتا۔ دریائوں اور نہروں کے نظام کو بہتر بنانا چاہئے۔ نئی نہریں بنا کر دریائوں اور سمندر تک پہنچائی جائیں تاکہ اضافی پانی کو ان کے ذریعے سنبھالا جائے۔ عالمی طاقتوں کے ایما پر بھارت کے ساتھ ہمارے سندھ طاس معاہدے نے اسے ہم پر ایسی فوقیت دی کہ ہم اس سے آج تک نہیں نکل سکے۔ بھارت سب سے زیادہ پانی دریائے چناب میںچھوڑتا ہے کیونکہ اس نے اس دریا پر سب سے زیادہ ڈیم بنائے ہیں اور اب بھی بنا رہا ہے۔ ہمیں دریائے چناب کے اس معاملے کو بھی کنٹرول کرنے کے لئے ماہرین کی دی گئی رائے کے مطابق جہاںچنیوٹ کے مقام پرفوری ڈیم بنانا چاہئے، وہیں بھارت کے ساتھ بھی اس مسئلہ پر دو دو ہاتھ کرنے چاہئیں۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد بھارت ہمارے دریائوں راوی، بیاس اور ستلج پر مکمل قابض ہوا تھا تو اس نے ان دریائوں کا مکمل پانی ہی بند کر کے انہیں خشک کر دیا۔

آج تک ہمارے ہاں اس پر کبھی بات نہیں ہوئی کہ اگر بھارت ان دریائوں میں سارا سال پاکستان کی جانب پانی کا ایک قطرہ نہیں آنے دیتا کیونکہ اس نے ان دریائوں پر ڈیم بنا رکھے ہیں اور نہریں کھود رکھی ہیں توپھر اسے یہ حق کیوں ہے کہ وہ ہمیں سیلاب کے دنوں میں پانی میں ڈبونے کیلئے پانی ہماری طرف چھوڑتا ہے۔ دونوں صورتوں میں مار ہی ہمارے حصے میں آتی ہے۔ پانی بند کر کے بھی اور پانی چھوڑ کر بھی۔ پاکستان نے آج تک کبھی کسی عالمی فورم پر یہ مسئلہ کبھی اس انداز میں نہیں اٹھایا۔ یہ بھی حیران کن بات ہے کہ ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں نے اس پر کبھی بیان نہیں دیا کہ بھارت اگر اپنے حصے کے تین دریائوں میں سارا سال پانی سرے سے نہیں آنے دیتا تو اضافی پانی ہی کو کیوں ہماری طرف چھوڑ دیتا ہے۔ آخر یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کہاں کی رواداری ہے کہ جس پر بھارت کیخلاف کوئی بولتا بھی نہیں۔ پاکستانی دریائوں پر بھارتی ڈیم تو ساری دنیا کے سامنے آ چکے ہیں، سو اس پر اب کوئی مصلحت نہیں ہونی چاہئے۔

اس کے ساتھ سب سے بڑھ کر ہمیں اپنے رب سے زیادہ سے زیادہ معافیاں اور بھلائیاں بھی طلب کرنی چاہئیں، کیونکہ بارشوں کو برسانے، فصلوں کو لہلوانے، بستیوں کو چمکانے والا وہی ہے۔ اگر ہمیں ہر لمحہ ہر لحظہ اس کی مدد و تائید حاصل ہو تو کوئی بارش ہمارا کوئی نقصان نہیں کر سکے گی۔ سیلاب سے نمٹنے، امداد و بحالی، تمام صلاحیتیںصرف کرنے کی تو باتیں کرتی ہے لیکن کبھی یہ سننے کونہیں ملتا کہ اصل فیصلے کرنے والی ذات باری تعالیٰ کے ساتھ اپنا ربط اور تعلق مضبوط کیا جائے۔ پیارے نبی کریمۖ نے بارشوں اور اس کی آفات اور مصیبتوں سے نجات کیلئے جو تعلیمات دیں ان پر بھی عمل پیرا ہوا جائے، اس حوالے سے دعائیں اور معافیاں مانگی جائیں، اللہ کی نافرمانی ترک کر کے اس ملک خداداد کو اللہ کی اطاعت میںلایا جائے۔

اصل مدد تو آسمانوں سے آتی ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ ڈبونے والا پانی موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے لئے راستہ چھوڑ دیتا ہے اور ان کے دشمنوں کو غرق کر دیتا ہے۔ جلانے والی آگ ابراہیم علیہ السلام کیلئے ٹھنڈی و پرسکون ہو جاتی ہے۔ نگلنے والی مچھلی حضرت یونس علیہ السلام کو کتنے دن اپنے پیٹ میں رکھ کربالآخر زندہ اگل دیتی ہے۔ ہم بھی اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار کریں گے تو ڈبونے والا پانی ہمارے لئے رحمت بن جائے گا۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین