counter easy hit

خوشامد پرست

ایک دن حجاج بن یوسف اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تفریح کے لئے نکلا ،راستے میں اسے ایک بوڑھا شخص ملا۔حجاج نے اس سے پوچھا کہاں سے آرہے ہو ؟ بوڑھا بولا ’فلاں شہر سے ‘۔حجاج نے پوچھا ’تمہارا اپنے نئے حاکم حجاج کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بوڑھابرہم ہوتے ہوئے بولا ’ اس خبیث کا کیاپوچھتے ہو،سر زمین عراق پر اس سے برا حکمران اس سے قبل کوئی نہیں آیا ہو گا، اللہ تعالیٰ اس کو غارت کرے اور اسے بھی غارت کرے جس نے اس کو والی بنایا ہے‘ حجاج نے کہا ’ تمہیں معلوم ہے میں کون ہوں ؟ بوڑھے نے نفی میں سر ہلایا۔حجاج نے کہا ’میں ہی حجاج ہوں‘۔بوڑھے نے لرزتے ہوئے کہا’آپ پر قربان جائوں ،میں فلاں بن فلاں ہوں اور مجھے ہفتے میں دو دن دورہ پڑتا ہے جس کے دوران میری زبان سے کیا نکلتا ہے خود مجھے بھی معلوم نہیں ہوتا اور آج میرے دورے کا دوسرا دن ہے۔حجاج کو بڈھے کی حاضر دماغی پر ہنسی آگئی۔پاکستان میں بھی وہی عقل مند ہے جو موقع کی مناسبت سے پینترا بدل جائے،قلم جھول جائیں،زبان لڑ کھڑا جائے، خوشامدانہ ’’دورے‘‘ پڑنے لگیں۔پہلے حجاج جیسے جابر حاکم بھی اپنے عوام سے اپنے بارے میں رائے سننا چاہتے تھے لیکن پاکستان کے حاکم خوشامدسننا چاہتے ہیں۔ کچھ صحافی خوشامد کا جاب میراثیوں سے زیادہ احسن طور پر ادا کر رہے ہیں۔ مفاد پرستوں کو خوشامدی دورے پڑتے ہیں اور خوشامد پرست مقتدر طبقہ میراثیوں کو نوازتے چلے جا رہے ہیں۔مفاد پرست بڑے فنکار لوگ ہوتے ہیں،بلا کے بلیک میلرز ہیں ہوتے ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں الا ما شا اللہ مختلف اداروں کے صحافی حکومتوں کے حق اور مخالفت میں بے لاگ تبصرے کرتے ہیں۔ جبکہ مفاد پرستی کا یہ دور آچکا ہے کہ معاوضہ کے بغیر کوء کسی کو مفت شربت پلانے کا روادار نہیں۔ اس دنیادار ماحول میں بلا معاوضہ یا مفاد تعریفی یا تنقیدی تبصرے کیوں کرکئے جاسکتے ہیں۔حکومت کی تعریف یا خوشامد مشکل کام ہے اور تنقید اور مخالفت بھی معاوضہ کے بغیر ممکن نہیں۔ بلا معاوضہ حکومت کو ناراض کرنے کا رسک کیوں کوئی مول لے ؟ بلا شبہ چند ایک قلمکار یا صحافی ہیں جو اس مفاد پرست دور میں بھی کبھی کبھار ضمیر سے مدد لیتے ہیں۔ تالاب میں رہتے ہوئے مگر مچھ سے دشمنی حماقت سمجھی جاتی ہے۔ ہمارا شمار ان احمق قلمکاروں میں ہوتا ہے جن سے حکومت بھی ناخوش اور اپوزیشن بھی ناراض اور عوام بھی کبھی شاباشی اور کبھی اپ سیٹ۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کی مرضی کی رائے لکھی جائے ورنہ “لفافہ” کہہ کر غصہ نکالا جاتا ہے۔خوش آمدیوں پر نوازشات لفافوں سے آگے جا چکی ہیں۔ خوشامدی صحافت میں مافیا کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ صحت کے لئیے سب سے مہلک چیز سیاسی ٹاک شوز ہیں۔میڈیا پر عوام کا بلڈ پریشر ہائی کرنے والے اپنا سودا بیچنے کا ہنر جانتے ہیں لیکن خود ٹھیک رہتے ہیں۔ دل پر نہیں لیتے۔ عوام کی نیندیں اڑانے کی ہی تو اجرت ملتی ہے۔ جاب کامعاوضہ لیا اور گہری نیند سو گئے۔ دوپہر کو بیدار ہوئے اور اگلے شو کا سودا تیار کیا اور گرما گرم جملوں سے سیل کیا اور پھر سورج طلوع ہونے کے وقت سو گئے۔ اس کاروبار دنیا میں سب بکتا ہے۔ بیچنے کا ہنر آجائے تو کامیاب ورنہ ٹھپ۔ میڈیا کی زبان میں اسے ” ریٹنگ ” بھی بولا جا تا ہے۔ جو عوام کا جس قدر بلڈ پریشر بڑھانے کا کمال رکھتا ہے ، ریٹنگ کا گراف بھی اسی قدر بڑھتا ہے۔ نجی محافل میں بھی خوشامدی طبقہ ” واہ میاں صاحب کیا تقریر فرماء آپ نے۔۔۔۔۔واہ خان صاحب کیا بیان دیا آپ نے۔۔۔۔۔ واہ حضرت صاحب کیا ارشاد فرمایا۔۔۔۔ واہ مولانا صاحب کیا جملے تھے آپ کے۔۔۔۔۔ واہ بٹ صاحب۔۔۔۔ واہ خواجہ صاحب۔۔۔۔۔ واہ ڈار صاحب۔۔۔۔۔ واہ قریشی صاحب۔۔۔۔۔ واہ شیخ صاحب۔۔۔۔ واہ جیوے بھٹو۔۔۔۔۔ واہ حمزہ صاحب۔۔۔۔ واہ واہ واہ۔۔۔۔۔۔ اور کس قدر سادہ ہیں یہ واہ واہ اور شاباشیاں قبول کرنے والے۔ خوشامد اور حقیقت میں پہچان کی صلاحیت سے محروم لوگ اپنے اطراف واہ واہ سننے کی اڈکشن کے شکار۔۔۔۔ مریم نواز کے اطراف بھی خوشامدیوں کا دلفریب ٹولہ موجود بے جو انہیں بینظیر بھٹو بننے کے خواب دکھاتے رہتا ہے۔ حمزہ شہباز کے خوشامدی انہیں والد کا گدی نشیں مقرر کر چکے ہیں کہ والد وزیر اعلی پنجاب بننے کے لئیے پیدا ہو ئے تھے اور اب یہ حق ان کے بیٹے کا ہے۔ عمران خان تو ضرورت سے زیادہ خوشامد لور ہیں۔ تنقید پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ بلاول کو ماں اور نانا سے مماثلت ثابت کرنے میں عمر رسیدہ خوشامدی کارکن سب پر بازی لے گئے ہیں۔ خوشامد پرستی کی ایک کثیر تعداد شعبہ صحافت میں پائی جاتی ہے۔ ٹی وی پروگرام یا کالم پیش کرنے کے بعد خوشامدیوں کی فون کالز اور میسیجز کا انتظار کرتے ہیں۔ مجال ہے تنقید برداشت کریں۔ سینئیر صحافیوں کو تنقید سننے کی عادت نہیں ، فون بھی ان لوگوں کا رسیو کرتے ہیں جن سے تعریف اورخوشامد سننے کی عادت ہو چکی ہے۔الا ما شا اللہ سینئیر صحافیوں نے بھی خوشامدی بھانڈ رکھے ہوتے ہیں جو انہیں دانشور کے اعلی مقام پر فائز رکھتے ہیں۔
کرتو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد
دستور بنااور نئے دور کا آغاز
معلوم نہیں، ہے یہ خوشامد کہ حقیقت
کہہ دے کوئی الو کو اگر، رات کا شہباز

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website