counter easy hit

پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ کا استحصال

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے

ان کے ہونٹوں کی خاموشی بھی سند ہوتی ہے

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن

ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے۔

خواتین اساتذہ کا استحصال۔۔۔۔۔کسے وکیل کریں؟

پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کسی خاتون کی بطور معلمہ تعیناتی کے بعد اس کے علم، وقت اور فہم و فراست کو ادارے کے مالکان اپنی جاگیر سمجھ کر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ گویا خواتین اساتذہ کے حقوق کا استحصال ان کا طرہ امتیاز ٹھہرا۔ اس ظلم و جبر کی چند صورتیں مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ ان اداروں میں آنے اور جانے کے وقت کا اندراج محض رسمی کارروائی ہوتا ہے۔ انتظامیہ پر منحصر ہے کہ جب چاہیں بلا لیں اور جب تک چاہیں روک لیں۔ اس پر بولنا یا بات کرنا کارِ ممنوع سمجھا جاتا ہے، بغاوت قرار دے کر نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس اضافی وقت کا کوئی اضافی معاوضہ نہیں ہوتا مگر وہ اسے بیکار سے بیگار بھلی سمجھ کر کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔

۲۔ خواتین اساتذہ کو ایسے مشینی آلات سمجھا جاتا ہے جو مطلوبہ سہولیات کی کمی یا عدم دستیابی کے باوجود اپنا کام بر وقت پایہ تکمیل تک پہنچانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ کام کی تکمیل کے لیے مقررہ دن بتایا جاتا ہے۔ کیسے اور کس طرح کام ہو گا، یہ انتظامیہ کا درد سر نہیں۔

۳۔ تنخواہ کی کٹوتی کے مواقع چن چن کر ڈھونڈے جاتے ہیں۔ پیپر میں غلطی،ایک منٹ کی تاخیر، والدین کو بھیجی جانے والی دستاویزات میں معمولی غلطی پر تنخواہ کاٹ لینا، اس کی چند مثالیں ہیں۔ گویا ان کے بچوں کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنی جاگیر کی اینٹیں مضبوط کی جاتی ہیں۔ دوسری طرف اپنی بڑی بڑی غلطیوں پر آسانی سے پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔

۴۔ والدین اساتذہ کی معمولی غلطیوں پر ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپناتے ہیں مگر انتظامیہ خاموش تماشائی کیونکہ اگر بولیں گے تو ایک داخلے سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ اساتذہ تو مجبور ہیں اور مجبوری کچھ بھی کروا دیتی ہے۔

۵۔ خواتین اساتذہ سے جتنا کام لیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں ان کی تنخواہ بہت کم ہوتی ہے۔ ان اداروں میں خواتین اساتذہ کی زیادہ تعداد میں تعیناتی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کے مرد اساتذہ کام کے مطابق معاوضہ طلب کرتے ہیں۔

الغرضیکہ ایسے بے شمار مسائل ہیں جو خواتین اساتذہ کو ہر لمحہ اپنی مجبوری، بے بسی اورکم مائیگی کا احساس دلاتے ہیں۔ وہ تدریسی فرائض مکمل توجہ کے ساتھ سر انجام نہیں دے پاتیں اور بچے بھی تدریس کی اصل روح سے محروم رہتے ہیں۔

ضورت اس بات کی ہے کہ

۱۔ خواتین اساتذہ کے لئے کم از کم تنخواہ کی ایک حد مقرر کی جائے اور وہ اتنی ہو کہ متوسط طبقے کے معیار زندگی کے تقاضے پورے ہو سکیں۔

۲۔ اضافی کام کا اضافی معاوضہ دیا جائے۔

۳۔ والدین کے لئے بھی ایک ضابطہ اخلاق سکول انتظامیہ کی طرف سے مقرر کیا جائے کہ اساتذہ کے ساتھ غیر مہذب گفتگو کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

۴۔ اساتذہ کی تعلیمی اہلیت کے مطابق مضامین پڑھانے کے لئے دیے جائیں ۔

۵۔ سکول انتظامیہ اساتذہ کے ساتھ حسن اخلاق کا برتائو کرے۔ ان کو عزت کے منصب پر فائز ہونے کا احساس دلایا جائے تاکہ وہ دل لگا کر انبیاء کی وراثت کو نئی نسل تک پہنچا سکیں۔