counter easy hit

خوف و دہشت کی کہانیاں

فدا حسین سے جو ڈیڑھ دہائی سے شہر میں دو ہزارہ آبادی والے علاقوں ہزارہ ٹاون اور علمدار روڈ کے روٹ پر ٹیکسی چلاتے ہیں۔

کوئٹہ میں گذشتہ سالوں میں دہشت گردی کے مختلف واقعات کے دوران یہ روٹ بھی محفوظ نہ رہا اور اب تک اسی روٹ پر ان ٹیکسی ڈرائیوروں پر بہت سارے حملے ہو چکے ہیں جس میں سے اکثر اپنی سواریوں کے ساتھ ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ فدا حسین خود ایک ایسے ہی واقعے میں معجزاتی طور پر بچے۔ انھوں نے بی بی سی کو اپنی کہانی کچھ یوں سنائی۔میرا نام فدا حسین ہے اور میں پچھلے پندرہ، بیس سال سے ٹیکسی چلا رہا ہوں۔گذشتہ دنوں میری ٹیکسی کے اوپر حملہ ہوا جس میں میں خوش قسمتی سے بچ گیا۔ اتوار کا دن تھا اور صبح کے دس بج رہے تھے جب میں گھر سے نکلا۔ اپنی سواریاں لے کر میں میزان چوک کے راستے قندھاری بازار سے گزر رہا تھا۔ یہ علاقہ کوئٹہ کا دل کہلاتا ہے اور مین بازار ہے جہاں پر ہر وقت رش لگا رہتا ہے۔جب میں قندھاری بازار پہنچا تو دور سے میری نظر ایک شخص پر پڑی جو کہ سڑک عبور کر رہا تھا۔ پہلے پہل تو مجھے یہ سب نارمل لگا مگر مجھے تشویش اس وقت ہوئی جب وہ سڑک کے درمیان آ کر رک گیا۔ مجھے تھوڑا دھچکا تو لگا مگر اس وقت تک میں اس کے قریب پہنچ جکا تھا۔ مجھے صرف اتنا یادہے کہ اس نے فوراً اپنی گردن کے گرد لپٹے شال سے اپنے منہ کو ڈھانپ لیا اور میری طرف ایک دم فائرنگ شروع کر دی۔پتا نہیں میں کس طرح اس کی اتنی ساری گولیوں سے بچ گیا مگر بدقسمتی سے میرے پیچھے بیٹھے ہوئے لوگوں کو وہ ساری گولیاں لگیں۔ اس واقعے میں ایک شخص مارا گیا اور ایک بندہ زخمی ہوا۔ میں کیسے بچ گیا مجھے نہیں معلوم۔ایسے واقعات کے دوران آٹھ دس ٹیکسی ڈرائیور تو ایسے تھے جو میرے بھائیوں کی طرح تھے اور وہ اسی راستے میں مارے گئے اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو اب معذور ہو گئے ہیں۔ان کی حالت دیکھ کر بندہ سوچتا ہے کہ اگر یہ مر جاتا تو زیادہ اچھا ہوتا کیونکہ جس طرح کی زندگی وہ اب گزار رہا ہے اس زندگی سے تو موت زیادہ بہتر ہے۔معاشی طور پر بھی ہم ٹیکسی ڈرائیور کوئٹہ میں قید ہیں۔ اول تو ہم صرف اور صرف دو ہزارہ نشین علاقوں کے درمیان ہی سفر کر سکتے ہیں جو شہر کے دو مختلف کونوں میں آباد ہیں اور دوم ہم اپنے روٹ سے ہٹ کر جا نہیں سکتے کیونکہ ہمیں حکومت نے ایک روٹ دیا ہوا ہے کہ آپ اس روٹ سے ہٹ کر اگر سفر کریں گے تو آپ کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم آزادانہ طور پر پورے شہر میں اپنی ٹیکسی چلائیں اور اپنے لیے روزگار کما سکیں کیونکہ صرف ایک روٹ جو کہ اتنا پرخطر بھی ہے اس پر ہمیں اتنی سواریاں نہیں ملتیں۔میں یہ کام مجبوری میں کر رہا ہوں اور اس کام کے علاوہ میں کوئی اور کام کر بھی نہیں سکتا۔ اگر یہاں امن ہو تو میں اپنے اس کام سے بھی خوش ہوں مگر اب حالات پہلے کی طرح نہیں رہے۔ اس کے علاوہ میں پلا بڑا بھی یہیں ہوں اس لیے یہ جگہ چھوڑنے کا دل بھی نہیں کرتا۔جب یہاں کے حالات کو دیکھتا ہوں تو کبھی کبھار یہ سوچ بھی لیتا ہوں کہ یہ جگہ چھوڑ دوں مگر میری معاشی زندگی مجھے یہ اجازت نہیں دیتی۔ میں بہت سارے لوگوں کو جانتا ہوں جو یہ ملک چھوڑ کر چلے گئے لیکن میں تو ایک ٹیکسی ڈرائیور ہوں اور میری کیا حیثیت ہے کہ یہ جگہ چھوڑ کر جا سکوں۔جب بھی گھر سے اپنی ٹیکسی لے کر نکلتا ہوں تو میرے گھر والے بڑی ناامیدی سے مجھے الوداع کرتے ہیں اور ہمیشہ پریشان اور اداس ہوتے ہیں۔ اگر ان کا بس چلے تو مجھے باہر بھی جانے نہ دیں لیکن اس صورت میں پھر ہم کھائیں گے کیا؟ ہمیشہ یہی سوچتے ہوئے کہ اگلے دن کے کھانے کا بندوبست ہو سکے وہ مجھے دعا دے کر گھر سے رخصت کرتے ہیں۔میں بھی چاہتا ہوں کہ میرے بچے پڑھیں اور کسی اچھے سکول میں تعلیم حاصل کریں تا کہ وہ میری طرح ٹیکسی ڈرائیور نہ بنیں مگر میری جتنی کمائی ہے اس میں یہ ممکن نہیں۔اس ساری صوررتحال میں مجھے خوف تو بہت آتا ہے مگر بال بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اللہ پر توکل کر کے گھر سے نکلتا ہوں۔ دیکھتے ہے کہ قسمت میں کیا ہے۔