counter easy hit

فواد چوہدری اور علیم خان گہرے دوست ہیں ، دونوں عمران خان کے انتہائی قریب ہیں

لاہور (ویب ڈیسک) پنجاب میں بیٹھے بٹھائے فصیل دیوار میں بھونچال کیوں پیدا کئے جا رہے ہیں۔ کون ہے اس پردہ زنگاری میں جو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے لئے مقامات آہ وفغاں پیدا کر رہا ہے۔ اب یہ کیا چال تھی جو فواد چودھری نے چلی اور یہ بیان داغ دیا کہ نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مسلم لیگ (ق) میں فارورڈ بلاک بننے جا رہا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کی نشستیں ہیں کتنی، جس میں سے فارورڈ بلاک بھی نکل سکے۔ ردعمل آنے پر فواد چودھری نے معذرت کرلی، مگر تیر توکمان سے نکل چکا تھا۔ اب (ق) لیگ کے وزراء کی خبریں زیرگردش ہیں کہ وہ مستعفی ہو نا چاہتے ہیں۔ عجب ماجرا ہے کہ تنکوں پر کھڑی حکومت کے وزراء بیٹھے بیٹھے ایسی پھل جھڑی چھوڑتے ہیں، جس سے ملک پر دباؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔ اوپر سے وزیراعظم عمران خان کی خاموشی ہے، وہ نہ تو وزراء سے باز پرس کرتے ہیں اور نہ انہیں ایسی باتوں سے روکتے ہیں جو بے یقینی کو جنم دیتی ہیں۔ سنا ہے، کہ معاملہ مونس الٰہی کو وزیر نہ بنانے سے شروع ہوا ہے اور اندر خانے کھچڑی پک رہی ہے، جس پر فواد چودھری کو بیان دینا پڑا۔ اب چودھری برادران کو جن کی ساری زندگی سیاسی جوڑ توڑ میں گذری ہے، ایسی باتوں سے کیسے پریشان کیا جاسکتا ہے؟ پنجاب میں عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ مسلم لیگ (ق) کے سہارے کھڑی ہے۔ اسے ناراض کرکے یہ سہارا چھیننے کی کوشش کون کر رہا ہے۔اس میں شک نہیں کہ چودھری پرویز الٰہی پنجاب کی اسپیکر شپ پر مطمئن ہو کر نہیں بیٹھے، ان کی نظریں وزارتِ علیا پر جمی ہیں۔ ذرائع تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ناکام بنانے میں ان کی آشیرباد بھی شامل ہے۔ پنجاب میں طاقت کے کئی مراکز کام کر رہے ہیں، ہر ایک کی خواہش اوردعویٰ یہ ہے کہ سکہ اس کا چل رہا ہے۔ گورنر سرور چودھری کو تو مسلم لیگ (ق) نے ایک وڈیو کے ذریعے دفاعی پوزیشن اختیارکرنے پر مجبور کیا لیکن علیم خان اس کے قابو نہیں آرہے۔ اب یہ کون نہیں جانتا کہ فواد چودھری اور علیم خان میں گہری یاری ہے۔ دونوں عمران کے بہت قریب بھی ہیں، ایسے میں فواد چودھری نے اگر مسلم لیگ (ق) میں فارورڈ بلاک بننے کی افواہ پھیلائی ہے تو اس کا ایک واضح مقصد ہے کہ چودھری برادران اپنی حد میں رہیں اور آگے نہ جائیں۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وزیراعظم عمران خان یہی چاہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار ایک مضبوط حکمران ثابت ہوں، اس کے لئے انہوں نے بار بار اپنی خواہش اور سپورٹ کا اعادہ بھی کیا ہے۔ مگر ان کے کہہ دینے سے یہ قلعہ فتح نہیں ہو سکتا۔پنجاب میں جوطاقت کے مراکز ہیں وہ قبضہ چھوڑنے کو تیار نہیں، جس صوبے کو شہبازشریف نے اپنی دس سالہ حکمرانی سے ایک خاص نہج پر ڈال دیا ہو، اسے عثمان بزدار جیسا نو آموز وزیراعلیٰ کیسے کانٹا بدل کر نئی راہ پر ڈال سکتا ہے؟ مسلم لیگ (ق) کے ایک صوبائی وزیر نے پھر وہی الزام لگا کر استعفا دیا ہے جو اکثر ایسے موقعہ پر لگایا جاتا ہے کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا، مداخلت کی جارہی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں کون ایسا خود مختار ہے، کہ جسے کام کرنے کی مکمل آزادی ہو۔ کہیں نہ کہیں تو پر جلنے لگتے ہیں۔ خود وزیراعظم عمران خان کو بھی عدلیہ کی طرف سے مداخلت کا سامنا رہا ہے اور وہ آئی جی تک تبدیل نہیں کرسکے۔ایک صوبائی وزیر کو کون سی مادر پدر آزادی چاہئے، کیا اس پر وزیراعلیٰ کا اختیار بھی نہ رہے، یہ کیسے ممکن ہے؟ مجھے تو یہ استعفا مسلم لیگ (ق) کی اس حکمت عملی کا حصہ لگتا ہے جس کے تحت وہ یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ پنجاب میں معاملات چل نہیں رہے۔ جہاں تک عثمان بزدار کا تعلق ہے تو وہ مسلم لیگ (ق) کو راضی رکھنے کے لئے ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے لاہور سے باہر کابینہ کا پہلا اجلاس بہاولپور میں طارق بشیر چیمہ کی وجہ سے رکھا، حالانکہ پہلا حق ملتان کا بنتا تھا۔ اس کی وجہ سے یہ پیغام گیا کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار جنوبی پنجاب صوبے سے زیادہ بہاولپور صوبے کی بحالی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ خود طارق بشیر چیمہ اور صوبہ بحالی تحریک کے رہنماؤں نے یہی تاثر دیا۔ پھر یہ بات بھی اظہرمن الشمس ہے کہ بہاولپور ڈویژن عملاً چیمہ برادران کے نرغے میں ہے۔ وہاں افسروں کی تعیناتی سے لے کر ترقی کے تمام منصوبوں تک، ہر کام ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ مداخلت نہیں کرسکتا۔ اتنی کھلی چھوٹ تو شہباز شریف کے دور میں کسی کو نہیں ملی، خود چیمہ برادران بھی وزیراعلیٰ شہباز شریف کی کوئی سفارش ڈھونڈتے تھے۔ اس وقت یہی حال گجرات کا ہے، وہاں چودھری برادران کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا۔ اس کے باوجود عثمان بزدار کو سپورٹ نہیں مل رہی جو ان کا حق ہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے لئے ایک اور مسئلہ تحریک انصاف کی اندرونی دھڑے بندی سے بھی نبردآزما ہونا ہے۔ وہ عملاً جہانگیر خان ترین گروپ کے حمایت یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا واضح جھکاؤ بھی اسی طرف ہے۔ اس کی حالیہ مثال اس وقت سامنے آئی جب ملتان میں حضرت شاہ رکن الدین عالمؒ کا عرس منعقد ہوا۔شاہ محمود قریشی نے جو درگاہ کے سجادہ نشین ہیں سرتوڑ کوشش کی کہ وزیراعلیٰ عرس کے تیسرے دن اختتامی تقریب میں شرکت کریں، مگر ان کی کوششیں رائیگاں گئیں اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار نہ آئے۔ ذرائع کے مطابق انہیں جہانگیر خان ترین کی طرف سے این او سی نہیں ملا، لیکن جب ایم پی اے ملک مظہر عباس راں کا انتقال ہوا تو وزیراعلیٰ نے ملتان آنے میں دیر نہ لگائی اور جنازے میں شرکت کی۔ اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انہیں گھر چائے پر مدعو کیا، مگر وزیراعلیٰ عثمان بزدار مصروفیت کا بہانہ کرکے نکل گئے۔ ملتان میں تمام ایم پی ایز ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک حالیہ پارٹی اجلاس کے دوران ملک عامر ڈوگر ایم این اے نے شکوہ کیا کہ وزراء اور وزیراعلیٰ ارکان اسمبلی سے ملاقات نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ملتان میں مسائل بڑھ رہے ہیں، اگر یہی حال رہا تو آئندہ انتخابات میں ہمیں کوئی ووٹ دینے والا نہیں ہوگا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ عامر ڈوگر سمیت ملتان کے اکثر ایم پی اے مخدوم شاہ محمود قریشی کے زیر اثر ہیں، جبکہ پنجاب پر حکمرانی بالواسطہ طور پر جہانگیر خان ترین کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کھڑے ایم پی اے سلمان نعیم کو تو وزیراعلیٰ کیا، وزیراعظم عمران خان تک رسائی مل جاتی ہے، باقی منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا پانچ ماہ بعد بھی ملتان کے تفصیلی دورے پر نہ آنا اسی وجہ سے ہے۔ سو ایسے اندرونی و بیرونی دباؤ میں گھرے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے پنجاب میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی توقع رکھنا حقائق سے لگا نہیں کھاتا۔ یہ صورت حال چودھری پرویز الٰہی کے لئے بڑی دل خوش کن ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی کے منصب پر قناعت کرکے بیٹھ گئے ہیں تو وہ احمق ہے۔ الیکشن کے بعد اتحاد سے پہلے وہ کھل کر اپنی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وزیراعلیٰ بننا ان کا خواب ہے اور ان سے بہتر کوئی پرفارم بھی نہیں کرسکتا۔ حالات ہموار رہیں تو اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں، وہ ناہموار صورت حال پیدا کر کے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ وزیر کااستعفا ایک پتھر ہے جو انہوں نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پھینکا ہے تاکہ ارتعاش پیدا ہو۔ اب یہ خبریں گرم ہیں کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے اپنے تحفظات پیش کرنا چاہتی ہے۔ یہ تحفظات نہیں مطالبات ہوں گے، جن میں غالباً یہ تجویز بھی ہوگی کہ پنجاب میں گڈگورننس کے لئے پرویز الٰہی کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے، لیکن یہ سب کچھ رائیگاں جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان اتنے آسان نہیں کہ پنجاب کی حکمرانی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیں۔عثمان بزدار جیسے نئے آدمی کو وزارت اعلیٰ پر بٹھانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ان کے پردے میں پنجاب کو اپنی مرضی سے چلایا جائے۔ پھر عمران خان کے علم میں یہ بات بھی ضرور ہوگی کہ چودھری برادران کے پاس حکومتی اتحاد میں رہنے کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ دس سال کی مدت کے بعد انہیں اقتدار میں آنے کا موقع ملا ہے، اگر تحریک انصاف عام انتخابات میں ان کی حمایت نہ کرتی تو شاید ان کے لئے اتنی نشستیں لینا بھی ممکن نہ ہوتا۔ اب اگر وہ اس سے بڑھ کر چاہ رہے ہیں تو یہ ان کی زیادتی ہے۔عمران خان تو عثمان بزدار کی جگہ کسی دوسرے کو وزیراعلیٰ بنانے کا فی الوقت سوچ بھی نہیں سکتے، کیونکہ اب معاملات عثمان بزدار کی گرفت میں آرہے ہیں اور ان لوگوں کو بھی اب یقین ہو چلا ہے کہ جب تک کپتان نہ چاہے کسی سازش سے عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانا دیوانے کے خواب سے زیادہ اور کچھ نہیں۔