counter easy hit

شدت پسندی سے لبرل ازم تک

Extremism

Extremism

تحریر: سید انور محمود
چار نومبر 2015ء کو اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ “عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے، پاکستان نے انتہا پسندی اور دہشت گردی پر قابو پانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے، قوم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے کسی طبقے میں بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے کینسر کو پھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے”۔ کانفرنس کے چند روز بعد ہی کراچی میں دیوالی کے موقعے پر جو کچھ نوازشریف نے کہا وہ ناقابل یقین تھا۔ بقول نواز شریف “میں مسلمانوں کے علاوہ ہندووں، سکھوں، عیسائیوں اور پارسیوں کا بھی وزیراعظم ہوں۔ میں آپ کا ہوں، آپ میرے ہیں۔ مجھے ہولی پر بلائیں اورجب میں آوں تو مجھ پر رنگ ضرور پھینکیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ قوم میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا میرا مشن ہے، تمام مذاہب کے لوگ ہم آہنگی کو فروغ دیں، ظالم کے خلاف آپ کے ساتھ کھڑاہوں گا۔

وزیر اعظم کےان دو خطابات کوسمجھنے کے لیے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ لبرل کسے کہتے ہیں اور لبرل ازم کیا ہے۔ ایک بات ذھن میں رکھیے گا کہ پاکستان میں لبرل ازم کے حامیوں میں نہ تو صرف مذہب سے بیزار لوگ شامل ہیں اور نہ ہی مادر پدر آزادی کے حامی، کیونکہ یہ سب ایک ایسے معاشرئے میں رہتے ہیں جو مذہب کا بہت احترام کرتا ہے، اور سماجی اقدار کی اہمیت سے بھی آگاہ ہیں۔ ذیشان ہاشم اپنے مضمون “لبرل ازم کیا ہے؟” میں لکھتے ہیں کہ “لبرل ازم سیاسی، سماجی اور معاشی تصورات کا ایسا مجموعہ ہے جس کی بنیاد شخصی آزادی، انصاف اورمساوات پرقائم ہے، اس کا دائرہ کارمحض سیاست سماج اور معیشت تک ہی محدود ہے۔

لبرل ازم میں جمہوریت، شہری حقوق، آزادی اظہار رائےاورحق اجتماع کا ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ لبرل ازم میں مذہبی آزادی ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، ہر فرد کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس مذہب یا نظریہ کو اپنی عقل و بصیرت سے بہتر جانے، اس پر عمل کرے ۔ مذہبی آزادی کے بغیر لبرل ازم کی بنیادیں قائم نہیں رہ سکتیں، دوسرے ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ جو چاہے خریدے یا بیچے۔ جائیداد رکھنے کا ہر فرد کو حق حاصل ہے۔ ریاست انتظامی اخراجات کے لیے لوگوں سے ٹیکس وصول کر سکتی ہے مگر وہ اس کے خرچ میں جوابدہ ہے ۔ ٹیکس کا مصرف محض شہریوں کی فلاح و بہبود اور ملکی دفاع ہونا چاہیئے” ۔ ان تمام باتوں سے اتفاق رکھنے والے فرد کو لبرل کہا جاتا ہے۔

ذیشان ہاشم اپنے اسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ”لبرل ازم زمان و مکان کے بارے میں بہت حساس ہے۔ ہر ملک کا لبرل ازم اپنی تشریحات میں مختلف ہے مگر شخصی آزادی، انصاف، اور مساوات کی بنیادیں ہر جگہ مشترک ہیں۔ اس میں ہر عہد کے اعتبار سے ارتقا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں لبرل قوتیں ویلفیئر اسٹیٹ کی حامی ہیں تو یورپ میں لبرل قوتوں کا موقف یہ ہے کہ حکومت محض ادارہ جاتی انتظام قائم کرے، ہر شخص اپنی محنت اور ذہانت سے اپنے لیے ویلفیئر کا خود ہی بندوبست کرسکتا ہے۔ پاکستان میں بھی لبرل ازم یہاں کی تاریخ ثقافت اور شہریوں کی امنگوں کے مطابق ہی عملی و فکری بنیادوں پر قائم ہو سکتا ہے جن کی بنیاد ہر صورت میں شخصی آزادی، انصاف، اور مساوات پر قائم ہوگی”۔

وزیر اعظم کے بیانات شدت پسندوں کے لیے ہضم کرنا بہت مشکل تھا، لہٰذاوزیر اعظم کے چار نومبر کے بیان کے فوراً بعد جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک پروگرام میں کہا ہےکہ “قیام پاکستان کےوقت لاکھوں عوام نے لبرل نہیں اسلامی پاکستان کے لیے قربانیاں دی تھیں جو پاکستان کے اسلامی کردار کو ختم کرنا چاہتے ہیں وہ خود ختم ہو جائیں گے، وزیراعظم کو ملک کے آئین سے متصادم باتوں سے پرہیز کرنا چاہئیے، قائد اعظم اور علامہ اقبال دو قومی نظریے پر یقین رکھتے تھے، اگر وہ آج زندہ ہوتے تو یقیناً جمعیت میں ہوتے، اس کے ساتھ ہی اُنہوں نے کہا کہ جسے لبرل ازم کی چاہت ہے وہ امریکہ چلا جائے۔ اس سے پہلے سراج الحق لوگوں کو ممبئی جانے کا مشورہ بھی دے چکے ہیں جبکہ 2013ء کے انتخابات کے موقعہ پر سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کراچی کے ایک جلسہ میں لبرلز کوملک سے چلے جانے کا کہہ چکے ہیں۔ دیوالی کے موقع پر وزیراعظم کی تقریر کے بعد جماعت اسلامی کے ڈاکٹرحسین احمد پراچہ نے ایک مضمون “نفاذ شریعت سے لبرل ازم تک” لکھا ہے جس میں امریکہ اور یورپ میں ہونے تمام برائیوں کا ذمہ دار “لبرل ازم” کو قرار دیا ہے۔ ان کا مضمون کسی بھی نقطہ نظر کو سمجھے بغیر اس پر تنقید کرنے کا سماجی رویہ ہے۔ ان کا مضمون اسی فرسودہ اور غیر عملی مذہبی سیاسی فکر کی تکرار ہے جو پاکستان کے پسماندگی کی ایک اہم وجہ ہے۔

جماعت اسلامی کے سابق امیرِ قاضی حسین احمد اور سیدمنور حسن اسامہ بن لادن جیسے عالمی دہشت گرد کی ‘شہادت’ کا ماتم کرتے ہیں۔ سید منور حسن حکیم اللہ محسود کی موت کےعظیم سانحہ پر نوحہ کناں رہتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام اور لال مسجد کے شدت پسند مولانا عبدالعزیز لوگوں کے گلے کٹتے تو دیکھ سکتے ہیں لیکن اُن کو حقوق ملتے نہیں دیکھ سکتے۔ پاکستانیوں کی یہ بدقسمتی بھی ہے کہ وہ لوگ جو کل تک پاکستان کے مخالف تھے آج اپنے آپ کو پاکستان کا مالک سمجھ کر اپنے حقوق کی بات کرنے والے لبرل پاکستانیوں کو پاکستان سے چلے جانے کو کہہ رہے ہیں۔ یہ حضرات آج یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ اگر آج قائد اعظم اور علامہ اقبال زندہ ہوتے تو وہ جماعت اسلامی کی ‘دہشت گرد’ طلبہ تنظیم اسلامی جمیت طلبہ کے رکن ہوتے۔ دہشت گرد تنظیم “جند اللہ” کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس کے موجد اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین ہی ہیں، جماعت اسلامی کےامیرسراج الحق کو اپنی نظریاتی بنیادوں پر غور کرنے کے بعد قائد اعظم اور علامہ اقبال سے متعلق بات کرنی چاہیئے۔

پاکستان میں دہشت گردوں اور فسادیوں کو لانے کا سہراتو پاکستان کے آمر جنرل ضیاالحق کوجاتا ہے جس نے امریکہ کے ڈالروُں اور اپنی حکومت کو طویل کرنے کےلیےروس کے ساتھ افغانستان میں کرائے کی جنگ لڑی اور اس جنگ میں اُسے مذہبی بنیاد پرستوں کی حمایت حاصل تھی۔ آج جب پاکستان کی افواج اور عوام اس جنگ میں اپنی سرزمین کو بچانے کے لیے حرکت میں آئے تو یہ پاکستان کی افواج اور پاکستانی عوام کے خلاف دہشت گردوں کی حمایت پر ڈٹے رہے۔ افغانستان میں شدت پسند طالبانی حکومت بنوانے کا سہرا ہمارے عسکری اداروں کے سر ہے۔ یہ سانپ اِن کے ہی پالے ہوئے ہیں اور سانپ چونکہ کسی کے نہیں ہوتے اس لیے جب بینظیربھٹو کو ہوش آیا اور اُن کی شدت سے مخالفت کی تو 2007ء میں ان سانپوں نے بینظیر بھٹو کو ہی ڈس لیا۔ 2013ء کے انتخابات دراصل طالبان دہشت گردوں کی نگرانی میں ہوئے، جس میں طالبان مخالف کسی بھی لبرل جماعت کو آزادی سے انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا گیا۔ طالبان مخالف پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پر انتخابی سرگرمیوں کے دوران دہشت گرد حملے کیے گئے جبکہ طالبان حامی پاکستان مسلم لیگ(ن)، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے دونوں گروپوں نے بغیر کسی پریشانی اور خوف کے اپنی انتخابی مہم چلائی اور طالبان دہشت گردوں سے اپنے تعلقات کو چھپانے کی قطعی کوشش نہیں کی۔

کسی زمانے میں پاکستان میں نظریاتی سیاست کا رواج تھا، لیکن اب پاکستان میں نظریاتی اور اصولوں کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ اب صرف شدت پسندی، مفاد پرستی اور منافقت کی سیاست ہوتی ہے۔ ان حالات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے لبرل ازم کا نعرہ لگانا ایک انقلاب سے کم نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان کے قدامت پسند طبقات کی نمائندہ جماعت رہی ہے۔ نواز شریف کے حالیہ بیانات کے بعد ڈاکٹر پراچہ سمیت کافی لوگوں کو نواز شریف کا 25 اگست 1993ء کا وہ بیان یاد آیا ہو گا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ “اگر پاکستان کے عوام مسلم لیگ (ن) کو اپنے اعتماد سے نوازتے ہیں تو میں عہد کرتا ہوں کہ میں نفاذِ شریعت کے ذریعے پاکستان کی نظریاتی اساس کو مضبوط بناوں گا اور مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بناوں گا۔ مجھے ایک ایسا مینڈیٹ درکار ہے کہ میں اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ جاوں اور اپنے اس منشور کے مطابق تاریخی مشن پورا کر سکوں”۔ 1993ء میں نواز شریف کے پیرومرشد جنرل ضیاالحق کو اُن سے جدا ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزر ا تھا لہٰذا اُن کے جذبات نفاذ شریعت کے حق میں تھے۔ تب سیاسی مفاد کے تحت شریعت کا نعرہ لگایا اور اب شاید شدت پسندی کو کمزور پاکر 2018ء کے انتخابات جیتنے کے لیے لبرل ازم کا نعرہ بلندکیا ہے۔

لالٹین ڈاٹ کام کے اداریے کے مطابق “اگر وزیراعظم اپنے اس بیان میں سنجیدہ ہیں تو یقیناً مستقبل کا پاکستان قرارداد مقاصد کا پاکستان نہیں بلکہ محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کے موافق پاکستان ہوگا جہاں شہریوں کو اپنی مذہبی یا علاقائی وابستگی کی بناء پر امتیازی سلوک، جبر، تشدد اور استحصال سے محفوظ بنایا جاسکے گا”۔ دنیا کی تاریخ میں بڑے بڑے انقلاب آ چکے ہیں شاید نواز شریف بھی ایک ایسا ہی انقلاب لے آئیں اور پاکستان کو شدت پسندی سے لبرل ازم کی طرف گامزن کردیں اور تاریخ میں اپنا نام امر کرجائیں۔ ایک بات طے ہے کہ نواز شریف کے لیے شدت پسندی سے لبرل ازم تک کا یہ سفر آسان نہ ہوگا۔ اگرنواز شریف نے محض 2018ء کے انتخابات جیتنے کےلیے لبرل ازم کا نعرہ بلند کیا ہے جیسے نوے کی دہائی میں انہوں نے نفاذِ شریعت کا نعرہ لگایا تھا تو یہ عوام کے ساتھ زیادتی ہو گی جو اپنے رہنماوں کے جھوٹے وعدے سننے کی عادی ہو چکی ہے۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود