counter easy hit

بھاڑ میں جائے ایسی اظہار رائے کی آزادی

Charlie Hybdu

Charlie Hybdu

تحریر: حذب اللہ مجاہد
2006 میںایک فرانسیسی رسالہ چارلی ہیبڈو توہین رسالت کا مرتکب ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور دنیا بھر میں مسلمان پر امن احتجاج کرتے ہیں مگر کسی کے کان کے پیچھے جوں تک نہیں رینگتی مغر ب کی تمام صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مکمل خاموشی اختیار کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ جریدہ اپنا یہ مکروہ فعل تسلسل کے ساتھ جاری رکھتا ہے اورچند دن پہلے ایک بار پھر توہین رسالت کا مرتکب ہوجاتاہے اوراس میں سرور کائنات، آقاء دو جہاںصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے شائع کئے جاتے ہیںجس کے رد عمل میں اس جریدے کے پیرس میں واقعہ دفتر پر دو بھائیوں کی جانب سے حملہ کیا جاتا ہے جس سے جریدے کے کارٹون نگاروںسمیت 14افراد ہلاک ہوجاتے ہیں جس کے بعد پوری دنیا اسلام پر انگلی اٹھاناشروع کردیتی ہے اور اس واقعہ کو اظہار رائے کی آزادی پر قدغن قرار دیا جاتا ہے بجائے اس کے کہ با شعور اور تہذیب یافتہ اقوام ( مغرب تو مہذب ہونے کا ہمیشہ سے دعویدار رہا ہے)کی جانب سے احتجاج کے ذریعے اس رسالے کو مجبور کیا جاتا کہ وہ ان توہین آمیز خاکوں کی ا شاعت پر مسلمانوں سے معافی مانگ لیں بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف 40مغربی ممالک کے سربراہ اس رسالے کے ساتھ اظہار یک جہتی کیلئے پیرس میں اس کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس رسالے کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے یہ جوبھی چاہے کر سکتے ہیںوہ اس وقت کیوں بھول جاتے ہیں کہ کسی بھی انسان یا ادارے کی آزادی وہیں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے کسی دوسرے کو حاصل آزادی میں خلل پڑنا شروع ہو جاتا ہے یا کسی دوسرے کی آزادی کے حدود شروع ہوجاتے ہوں۔

ان انسان نما شیاطین کیلئے کسی کے مذہبی عقائد کو نشانہ بنانا اور پھر اس پر آنے والی ردعمل کی صورت میں آزادی اظہار کا رونا رونا سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ ایک واقعہ اسی فرانس میں 2008میں بھی پیش آتا ہے جس وقت فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کے بیٹے کی شادی ایک انتہائی مالدار یہودی کی بیٹی سے ہوتی ہے جس کے بعد ایک معروف فرانسیسی مزاح نگار (cartoonist) مورث سنے اس واقعے کو طنز کا نشانہ بناتا ہے اور اسی سے متعلق ایک کارٹون شائع کرتا ہے جس پر فرانس و دیگر ملکوں میں یہودیوں کی طرف سے احتجاج کی جاتی ہے کہ اس کارٹون کے ذریعے مورث سنے نے یہودیوں کو نشانہ بنایا ہے جس سے یہودیوں کی شدید دل آزاری ہوئی ہے اس پر یہودی مطالبہ کرتے ہیں کہ مورث سنے ان سے اپنے اس فعل پر معافی مانگ لیں نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ مورث سنے کے جریدے کو اس سے مطالبہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ یہودیوں سے معافی مانگ لیں بصورت دیگر اس کو فارغ کردیا جائے گا جس پر مورث سنے معافی مانگنے سے انکار کردیتے ہیں تو اس کا جریدہ اس کو فارغ کردیتا ہے اس وقت پوری دنیامیں اظہار رائے کی آزادی کے ڈھونگ رچانے والے کہا ں ہوتے ہیں؟؟ ان کو کیوں اظہا ررائے کی آزادی پر قدغن اس وقت نظر نہیں آتی ہے۔

اس وقت کہاں ہوتے ہیں یہ 40اظہار رائے کی آزادی کے نام نہاد علمبردارکیوں اس وقت وہ مورث سنے کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے ہیں؟ کیوںیہودیوں کواس وقت یہ پیغام نہیں دیا جاتا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی ہے؟ آپ چاہے جتنی بھی احتجاج کرلیں ہم آپ کے مقابلے میں مسٹر مورث کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ کو حق نہیں دیتے کہ آپ مسٹر مورث کی اظہار رائے کی آزادی چھین لیں حالانکہ مورث نے ایک مالدار یہودی کو طنز کا نشانہ بنایا تھا اس وقت مسلم دنیا میں بھی ہزاروں مالدار حضرات ہیں کوئی چاہے ان پر جتنا بھی طنز کرتا مگر اس سے مسلمانوں کی دل آزارری کبھی نہیں ہوتی نہ ہی مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے مگر چارلی ہیبڈو نے کسی مالدارمسلمان کی توہین نہیں کی ہے بلکہ اس ہستی کی توہین کی ہے جو کہ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے رحمت اللعالمین بناکر بھیجے گئے تھے وہ ہستی کہ جس کے نام پر مسلمان تن، من ، دھن سب قربان کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں ،وہ ہستی کہ جسکی شان یہ ہے کہ
دیکھی نہیں کسی نے اگر شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تو دیکھے کہ جبرائیل ہے دربان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو اپنے ماننے والو ں کو ہر مذہب کی آزادی اور احترام کا درس دیتا ہے ہر مذہب کے عبادت گاہوں اور عقائد کی حفاظت کا درس دیتا ہے مگر دنیا میں سب سے زیادہ باشعور ہونے کا دعویداراوراسلام کو شدت پسندی کا ذریعہ قرار دینے والا مغرب ہر وقت بس اسلام فوبیا کا شکار نظر آتاہے اور ہمیشہ اسلامی شعائر، عقائد اور عظیم ہستیوں کی توہین کرتی رہتی ہے اگر ایک دفعہ اس قسم کی توہین کی جائے تو اس کو غلطی کہی جاسکتی ہے مگر جس تسلسل کے ساتھ مغربی صحافتی اداروں کی جانب سے حضرت محمد ۖ اور دیگر عظیم ہستیوںکی شان میں گستاخی کی جارہی ہے اس کے بعد اس کے پیچھے کسی مکروہ عالمی سازش کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

اگر دوسری جانب چارلی ہیبڈو کے اس مکروفعل کو عالمی اور مغربی ممالک کے قوانین کی رو سے بھی دیکھیں تو بھی فرانس،برطانیہ سمیت تمام مغربی ممالک کے قوانین میں یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی ایسا عمل جرم تصور کیا جائے گا اور اس کے مجرم کو سزائیں ہوگی جس عمل سے کسی بھی انسان کی عزت نفس مجروح ہوئی ہو لیکن کیوں مغرب آخر اسلام دشمنی میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ اپنے ہی قوانین کو پائوں تلے روند دیتا ہے اور چارلی ہیبڈو کے اس عمل پر کہ جس پر پورے عالم اسلام کی دل آزاری ہوئی ہے دنیا میں بسنے والے ایک ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کے جذبات کا خون ہوا ہے لیکن اس کی مذمت اور چارلی ہیبڈو کو سزا اپنی جگہ اس کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کندھے سے کندھے ملا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور مسلمان کو یہ تعنہ دیتے نظر آتے ہیں مسلمان شدت پسند، دہشتگرد، انتہا پسند، جاہل، تنگ نظر، ہیں مگر ایک بات یاد رہے کہ جتنی صبر، بھائی چارگی، اخوت، برداشت کی تلقین اسلام میں کی گئی ہے اس کی مثال دنیا کی کسی بھی دوسری مذہب میں نہیں ملتی ہے مگر جب اسلامی عقائد پر حملے کئے جائیںگے۔

عظیم ہستیوں کی توہین کی جائے گی تو پھراس پر مسلمانوں کا جذباتی ہونا ایک فطری عمل ہے جو کہ مسلمانوں کی ایمان کا حصہ ہے۔ آج مسلمان بھی اتنا جاہل نہیں ہے آج کوئی بھی باشعور مسلمان اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے اظہار رائے کی آزاد ی کی کیا اہمیت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بھی شخص اظہار رائے کی آزای کو جوازبنا کر اسلامی شعائر اور عظیم ہستیوں کی توہین کرے گی یا اسلامی عقائد پر کیچڑ اچھالے جائیں گے تو بھاڑ میں جائے مغرب کی ایسی اظہار رائے کی آزادی مسلمان کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر مغرب کو ضرور یہ پیغام دی جاتی رہے گی۔۔۔
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمہیں پاس نہیں

Hizbullah Mujahid

Hizbullah Mujahid

تحریر: حذب اللہ مجاہد