counter easy hit

انگریزی کی بجائے اُردو ذریعہ تعلیم

Urdu

Urdu

تحریر: چوہدری غلام غوث
جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ دنیا کا ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ مگر اُس کے والدین اسے اس دین کا پیروکار بنا دیتے ہیں جس پر وہ خود چل رہے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی دنیا کا ہر بچہ وہ زبان قدرتی طور پر سیکھ جاتا ہے جو اُس کے والدین بول رہے ہوتے ہیں یا جو زبان گردو نواح میں بولی جاتی ہے۔ پاکستان بھر میں درجنوں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مگر ملکی سطح پر بولی جانے والی ہماری قومی زبان اُردو ہے۔ آئین پاکستان میں یہ گارنٹی دی گئی ہے کہ 1973 کے 15 سال بعد یعنی 1988 میں پورے ملک میں اُردو زبان نافذ العمل ہو جائے گی مگر بدقسمتی سے حکمران طبقہ آئین کی اِس شق پر عمل نہ کر سکا پچھلے دنوں ملک کی اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا جس میں حکومت پاکستان کو احکامات جاری کیے کہ وہ چاروں صوبوں سمیت ملک بھر میں اُردو زبان کو نافذ العمل کرے دفتری زبان اور ذریعہ تعلیم کو مکمل طور پر اُردو زبان میں منتقل کیا جائے مگر تاحال اس فیصلے پر عمل درآمد کی حکومتی رفتار انتہائی سست دکھائی دے رہی ہے۔

ملک پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ملکی زبان کا عملی نفاذ انتہائی ضروری اور ناگزیر ہو چکا ہے۔ اُردو ذریعہ تعلیم پاکستان کی شرح خواندگی میں اضافے کے لیے از حد ضروری ہے۔ انگریزی ذریعہ تعلیم پاکستان کی شرح خواندگی میں اضافے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ د نیا بھر میں آج جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنی قومی زبان کی بنیاد پر ترقی کی ہے۔ مثلا فرانس میں فرانسیسی جرمن میں جرمنی انگلستان میں انگریزی، جاپان میں جاپانی، روس میں روسی، چین میں چائنیز زبان ہی ذریعہ تعلیم ہے۔ بلکہ فرانس میں کوکا کولا اور برگر کا بھی فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

Education

Education

اگر آپ ان کو انگریزی ناموں سے پکاریں گے تو آپ کو 300.ڈالر جرمانہ دینا پڑے گا۔ ابھی جب چین نے ہانگ کانگ کو برطانیہ سے لیا تو صرف 6 ماہ کی مختصر مد ت میں وہاں انگریزی کو ختم کر کے چائنیز کو ذریعہ تعلیم بنا دیا۔جو شخص وہاں اب چائنیز کی بجائے انگریزی میں پڑھائے گا تو اُسے اس جرم میں چھ ماہ جیل کاٹنا پڑے گی اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زندہ اور خود دار قومیں کس طرح اپنی زبان کی حفاظت کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال چین کے اس اقدام سے بھی ظاہر ہوئی ہے کہ جب چائنہ نے ایک یورپین کمپنی سے کمپیوٹر خریدے تو اس کے سارے پروگرام انگریزی میں تھے چائنہ نے کروڑوں روپے خرچ کر کے تمام پروگرام انگریزی سے چائنیز زبان میں منتقل کر دئیے اس کے بعد اِسے عام استعمال کے لیے اپنی عوام کے حوالے کر دیا اس لیے کہ حقیقی تعلیم کا حصول اپنی زبان میں ہی اس کی اصل روح ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی، آکسفورڈ یونیورسٹی یا ہاورڈ یو نیورسٹی سمیت دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی یونیورسٹی میں پلاننگ، میڈیکل، انجینئرنگ، معاشیات، جدید ریسرچ ، نفسیات، قانون پر کوئی بھی نئی کتاب شائع ہو تی ہے جس رفتار سے ان یونیورسٹیوں میں کوئی جدید تحقیق پر کتاب شائع ہوتی ہے اُسی رفتار سے اس کتاب کا ترجمہ چائنیز زبان، جرمن زبان، روسی زبان، جاپانی زبان اور فرانسیسی زبان میں ہو جاتا ہے۔ جب یہ جدید ریسرچ برطانیہ اور امریکہ کے ممالک میں ہو گی تو یہ کتاب چائنیز، روس،جاپان، فرانس، جرمن میں اپنی قومی زبان میں شائع ہو گی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے یہ ترقی یافتہ ممالک سائنسی دوڑ میں آگے جا رہے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں ذریعہ تعلیم قومی زبان میں نہ ہے جس کی وجہ سے 80%طالب علم تعلیمی میدان میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں ناکام رہتے ہیں چونکہ ذریعہ تعلیم انگریزی زبان ہے جوہماری سائنسی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

سات عشروں سے ہم اپنے ہی ملک میں اپنی زبان کو ذریعہ تعلیم نہ بنا سکے بلکہ جدیدیت کے نام پر ہم اس زبان کو دیس نکالا دینے میں لگے ہوئے ہیں ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ ہماری قوم کے ذہین و فطین بچے غیر قومی زبان کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کیا جا رہا ہے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق” تعلیم دینے کا عمل صحیح معنوں میں اُس وقت انجام دیا جا سکتا ہے۔ جب پڑھنے اور پڑھانے والے کے درمیان کوئی پیچیدگی حائل نہ ہو جبکہ پڑھانے والا اپنا مدعا درست طریقے سے بیان کر پائے اور پڑھنے والا اس کی تہہ تک اس کو سمجھ سکے۔”قرآن کے پیغام اور مفہوم کو بہتر اور اچھے طریقے سے سمجھنے کے لیے اس کو جس قوم کے اندر اُتار ا جا رہا تھا وہ اُن کی اپنی ہی زبان عربی میں نازل کیا گیا کیونکہ انسان اپنی قومی اور مادری زبان کو ہی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے لہٰذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ معیاری تعلیم کے لیے اُستاد اور شاگرد کی ایک ہی زبان ہواس سے علم کی سمجھ بڑھے گی۔ اور طالب علم کا ذہن سوچنے کی طرف مائل ہو گا۔ جس سے اُس کی چھپی ہوئی صلاحتیں نکھر کر باہر آ جائیں گی۔

Urdu Language

Urdu Language

انگریزی سمیت غیر ملکی زبان سیکھنا ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس کی حیثیت صرف اضافی قابلیت کے طور پر ہونی چاہیے ناکہ ہم انگریزی کو ہی ذہانت کا معیار مقرر کر دیں جو کہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں عملی طور پر رائج ہے۔ ذہانت اور فطانت ایک خداداد صلاحیت ہے جو کسی رنگ و نسل اور زبان کی محتاج نہیں یہ قدرت کا ایسا انمول تحفہ ہے جو جسے دینا چاہے نواز دے مگر میرے ملک میں اس کے برعکس یہ ظلم جاری ہے کہ جس طالب علم کو انگریزی زبان نہیں آتی اُس کو نالائق تصور کیا جاتا ہے اور اس پر تعلیم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اُس کی ذہانت کو انگریزی کا غلام بنا دیا جاتا ہے۔جس کے منفی اثرات ذہین طالب علموں پر براہِ راست مرتب ہو رہے ہیں۔

انگریزی کوبطور مضمون اور زبان پڑھایا جانا تو ضروری ہو سکتا ہے لیکن ذریعہ تعلیم اُردو ہونا چاہیے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا کر اور خاص اہمیت دے کر قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کو دفن کردیا گیا ہے جس سے قوم ہمیشہ دوسری قوموں سے مرعوب ہو کر یورپ کی طرف دیکھتی ہے کیونکہ دوسروں کی زبان میں تعلیم حاصل کر کے انسان صرف نقل کے قابل ہو سکتا ہے۔ طالب علموں کے درمیان تحقیقی اور تخلیقی رجحان ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اُردو زبان کی ترقی کا راز بھی اس میں پنہاں ہے کہ اسے ذریعہ تعلیم بنایا جائے عام انگریزی اور سائنسی اصلاحات اُردو میں منتقل کی جائیں جب تک اُردو میں وسعت اور تمام علوم کو جذب کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو گی اُس وقت تک ہماری جان انگریزی سے نہیں چھوٹ سکتی۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان بننے کے بعد آج تک جتنے بھی مقابلے کے امتحانات ہوئے وہ سب انگریزی میں ہوئے حتیٰ کہ تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ملازمت اختیار کرنے کے لیے جو معیار مقرر ہے۔ و ہ بھی انگریزی ہی ہے۔ اس طرح ذہنی طور پر غلام اور محکوم حکمرانوں نے اعلیٰ ملازمتوں کو ایک خاص مغرب زدہ طبقے کے لیے مختص کیا ہوا ہے۔ اس لیے اس وقت معاشرے میں قابلیت اور علمیت صرف انگریزی بولنا اور لکھنا ہے جو کہ سرا سر فطری تقاضوں کے ذہانت کے معیار کے برعکس ہے کیونکہ اگر ایک انسان کے پاس بہت زیادہ علم ہے مگر وہ اسے انگریزی میں ظاہر نہیں کر سکتا تو نالائق ہے اور ایک فرد کے پاس سطحی سا علم ہے مگر وہ انگریزی میں ظاہر کر سکتا ہے تو وہ قابل اور ذہین ہے۔یہ کیسا عجیب معیار ہے؟

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر: چوہدری غلام غوث