counter easy hit

شہنشاہیت نما جمہوریت

جمہوریت شہنشاہیت کے اصولوں پر چلائی جانے لگے تو نہ صرف ایک خاندان کے گھر کی لونڈی بن جاتی ہے بلکہ اپنی اہمیت اور قدر بھی کھو دیتی ہے۔ جو لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے وہ تاریخ کے اوراق میں زندہ تو رہتے ہیں لیکن جگمگاتے ستارے کی مانند نہیں بلکہ کسی گہن زدہ نشان کی طرح پائے جاتے ہیں۔

اسے تاریخ کا جبر سمجھا جائے یا پھر مملکت خدادا پاکستان کے عوام کی بد نصیبی کہ حکمران جماعت پینتیس سے چالیس سال اقتدار میں رہنے کے باوجود بھی اپنا کوئی ایسا سیاسی جاں نشین پیدا نہ کر سکی جس کے نام پر بطور وزیر اعظم اتفاق رائے ہو سکتا۔

سینئر، جونیئر کا قصہ، باہمی رنجش، مخاصمت حتیٰ کہ بول چال کا بند ہونا مسلم لیگ نواز میں جمہوری اقدار کے جمود کی طرف اشارہ ہے۔ حیرت ہے کہ ایک طویل عرصے تلک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے نواز شریف نے بھی اپنے شخصی قد و کاٹھ میں تو اضافہ کیا لیکن وہ جماعت کے اندر پلنےوالی ریشہ دوانیوں اور محاذ آرائی کے ٹھاٹھیں مارتے سیل رواں کے سامنے کوئی بند باندھنے میں بری طرح ناکام رہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا اپنا جھکاؤ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کی جانب رہا۔

آج ملک کی سب سے بڑی عدالت سے نااہل ہونے کے بعد مسلم لیگ نواز کے رہنما جس طرح تلملا رہے ہیں ان کی تلملاہٹ اور ہذیانی کفیت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اپنی غلطیوں پر نظر ڈالنے کے بجائے قومی اداروں کو کوس رہے ہیں۔ ۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ مسلم لیگ نواز میں ہی سے کچھ افراد نواز شریف سے یہ بات پوچھنے کی جسارت تو کرتے کہ ان پر عائد الزامات کی حقیقت کیا ہے۔ ایک عقلیت پسندانہ روش اختیار کی جاتی اور پارٹی کے اندر ہی دوسری قیادت سامنے لا کر یہ پیغام دیا جاتا کہ جماعت اپنی صفوں میں شاہانہ کے بجائے جمہوری مزاج رکھتی ہے اور ادنیٰ و اعلیٰ کی ہر قسم کی تمیز سے بالا تر ہے۔

اگر الزامات محض الزامات ہی تھے تو ان کا قانونی انداز میں دفاع کیا جاتا اور بری الذمہ ہونے کے بعد سیاسی دھارے میں شامل ہو کر قوم کی خدمت کی جاتی لیکن اب ملک کی عدالت عظمیٰ کی جانب سے درجنوں مقدمات کا اندراج اور پورے خاندان کا اس میں ملوث ہونا کیا بتاتا ہے۔ یہ سمجھ لینے میں کوئی امر مانع نہیں مسلم لیگ نواز ایک طویل عرصہ ملکی سیاست میں رہنے کے باوجود بھی اس طرح ڈیلیور نہیں کر پائی جس طرح کرنا چاہئیے تھا۔

ریاست کے وسائل عوام کی امانت ہوتے ہیں۔ ان کا منصفانہ استعمال صاحبان اقتدار پر فرض ہوتا ہے۔ یہ کسی صاحب اقتدار کی عنایت نہیں۔ مملکت خداداد پاکستان کے عوام کا آئینی اور بنیادی حق ہے کہ انہیں پینے کے صاف پانی سے لے کر صحت عامہ، انصاف کے حصول، روز گار اور تعلیم کے یکساں مواقع میسر ہوں۔

شعلہ نوائی اور شعلہ بیانیاں سیاسی پنڈالوں میں اچھی لگتی ہیں۔ یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ جس عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا ہے اسی عدالت نے نواز شریف کو ایک سے زائد بار ریلیف بھی دیا ہے۔ قومی اداروں کے بارے بلاوجہ تنقید اور لعنت ملامت ا چھی روش نہیں۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ صادق اور امین کی جو تلوار نواز شریف پر چلی، اس ہی تلوار کو اپوزیشن نے آئین میں ترمیم کر کے نیام میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن خود نواز شریف نے اس آئینی ترمیم کی بھر پور مخالفت کی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

انسانی جبلت میں غلطیوں کا ارتکاب قادر مطلق کی جانب سے اس کی سرشت میں لکھا گیا ہے۔ تاہم عدل و انصاف کی دولت سے بھی اس ہی رب کائنات نے انسان کو نوازا ہے۔ اقتدار ہی وہ سنگھاسن ہے جس پر جلوہ افروز ہو کر انسان کو اپنے نفس کی پہچان ہوتی ہے۔ بلا شبہ پلوں سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے لیکن اب بھی وقت ہے کہ مخاصمت چھوڑ کر تعمیری سیاست کو فروغ دیا جائے۔ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے