counter easy hit

الیکشن 2018: مسلم لیگ (ن) نے اپنی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے سیالکوٹ میں کیا چال چلنے کا فیصلہ کرلیا؟

سیالکوٹ: پاکستان کی آئینی روح کے مطابق ہر پانچ سال بعد جنرل انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں تمام چھوٹی بڑ ی سیاسی جماعتوں سمیت آزاد امیدوار بھی حصہ لیتے ہیں ۔2013کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے مرکز اور پنجاب میں بھاری اکثریت سے حکومت قائم کی اور مختلف نشیب وفراز کے باوجود مسلم لیگ ن آئینی مدت کے مطابق پانچ سال حکومت کامیابی سے مکمل کر چکی ہے۔

Election 2018: How did the Muslim League decide to take action in Sialkot to save its drowning boat?اب 2018کے انتخابات نزدیک آتے ہی تمام سیاسی جماعتوں نے جلسے جلوسوں ، ریلیوں ، ورکرز کنونشن اور کارنر میٹنگو ں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ امیدواروں نے کمر کس لی، روٹھوں کومنانا ،سیاسی ڈھیروں کو سجانا اورلوگوں کی خوشی و غم میں شریک ہونا ان کے معمولا ت زندگی کا سر فہرست مشغلہ بناہوا ہے ۔ضلع سیالکوٹ کی عظیم دھرتی علامہ محمداقبال ، فیض احمد فیض ،اصغر سودائی ،دین اسلام کی تبلیغ و ترویج اور اشاعت اسلام کی خاطر چہار دانگ عالم میں امن کا ڈنکا بجانے والے عظیم الشان برگان دین اور اولیائے اکرا م کی بدولت دنیا بھر میں منفرد شناخت کی حامل دھرتی ہے، اس ضلع کی ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والا اربوں روپے کا زرمبادلہ ملکی معیشت میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ یہاں کے صنعتکاروں،کارخانہ دارں اور ہنروں مندوں کی تیار کی گئی مصنوعات کی بدولت بھی دنیا بھر کی صنعت وتجارت میں سیالکوٹ کا نام سنہری خروف میں لکھا جاتا ہے۔سیالکوٹ کے مایہ ناز صنعتکاروں کا اپنی مدد آپ کے تحت ایوان صنعت وتجارت ، سیالکوٹ ڈروائی پورٹ ٹرسٹ ، سیالکوٹ انٹر نیشنل ائیرپورٹ اوراب ائیر سیال ائیرلائن جیسے متعدد میگا پروجیکٹ اپنی مثال آپ ہیں ۔قارئین اگر بات سیاسی میدان کی ہو تو وہاں بھی ضلع سیالکوٹ نے بڑے بڑے نامور سیاست دانوں کو جنم دیا ہے جنہوں نے ملک وقوم کیلئے گرانقدر خدمات سر انجام دی اور بڑے بڑے منصب پر براجمان رہے ہیں ۔2013کے عام انتخابات میں ضلع سیالکوٹ سے مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کے پانچ اور صوبائی اسمبلی کے گیارہ حلقوں میں سے کلین سویپ کیا تھا ۔حلقہ این اے 110سے مسلم لیگ ن کے خواجہ محمد آصف نے تحریک انصاف کے امیدوار عثمان ڈار سے تقریبا بیس ہزار کی برتری سے فتح حاصل کی تھی اور دونوں امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہوا تھا ۔ این اے 110اب این اے 75میں تبدیل ہو چکا ہے۔ الیکشن کے بعد تحریک انصاف کے عثمان ڈار نے خواجہ محمد آصف پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ عدالت میں لے گئے جہاں تقریبا تین سال بعد خواجہ آصف سرخرو ہو ئے اور دھاندلی کے الزامات مسترد کر دئیے گئے ۔بعد ازاں عثمان ڈار نے خواجہ آصف کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اقامہ کیس فائل کیا جہاں پر طویل جدوجہد کے بعد عدالت نے خواجہ محمد آصف کو نااہل قرار دے دیا۔

خواجہ آصف کی نااہلی کے بعد ابھی تک مسلم لیگ ن کا کوئی بھی واضح امیدوار منظر عام پر نہیں آیا ہے حلقہ میں مختلف چہ مگوئیاں جاری ہیں تاہم کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا سوشل میڈیا پراور عوامی حلقوں میں گردش کرتی خبروں کے مطابق خواجہ آصف کا بیٹا اسد خواجہ یا ان کا کوئی قریبی عزیز امیدوار ہو سکتا ہے جبکہ تحریک انصاف کے عثمان ڈار کی محنت اور انتھک جدوجہد کو عوامی حلقوں میں زبردست الفاظ میں سراہا گیا ہے عثمان ڈار گزشتہ پانچ سالوں سے عدالتوں میں اپنا کیس لڑتے آئے ہیں اور انہوں نے بڑی جواں مردی اور بہادری سے پانچ سال سیاسی جدوجہد کی ہے عثمان ڈار تحریک انصاف کی طرف سے بہترین امیدوار ہیں جنہیں عوام میں کافی پذیرائی حاصل ہوچکی ہے تاہم مسلم لیگ ن کے خواجہ محمد آصف نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کر رکھی ہے خواجہ محمد آصف نے بھی اپنی سیاسی زندگی میں تھانے کچہری کی سیاست سے اجتناب کیا ہے اور صاف شفاف سیاست کو فروغ دیا ہے بلاشبہ وہ ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں تاہم مسلم لیگ ن کی جانب سے جب تک کوئی امیدوار کا نام سامنے نہیں آتا اس وقت تک کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے تاہم سیاسی پنڈتوں کے مطابق حلقہ این اے 75میں انتہائی دلچسپ مقابلہ ہوگا