counter easy hit

میں، انا اور تکبر

Arrogance

Arrogance

تحریر : اریبہ بلوچ
جب کبھی بھی کسی نے تکبر کی دہلیز پہ قدم دھرا تو خدا نے اسے نشان عبرت بنا دیا غرور و تکبر کی ابتدا ء شیطان سے ہوئی اس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اسے اپنی میں کی خود سری لے ڈوبی،خدا نے اسے ابلیس کر دیا یہ جو ہر جاندار میں “میں” ہوتی ہے ناں یہ ایک ناگن کی مانند ہوتی ہے اگر اسے شہہ دو گے تو یہ رد عمل میں آپکو کوئی شہد نہیں دے گی بلکہ اپنا زہر آپ پہ پھینک دے گی اور اگر اپنی “میں”کی اس ناگن کا سر کچل دیا جائے گا تو زندگی سہل ہو جاتی ہے تکبر کی ابتدائ “انا” اور “میں” سے ہوتی ہے اور اسکا اظہار بڑے بول کی صورت ہوتا ہے نمرود جو سراپا غرور تھا خدا نے اسے محض ایک مچھر ایک معمولی مچھر سے مات دے دی شداد جسے بہت ناز تھا خود پہ ،اپنی نام نہاد بادشاہت کے نشے میں بڑا بول بول بیٹھا تھا کہ میں اپنی جنت بناؤں گا ,جنت تو بن گئی مگر جب وہ دیدار کرنے کو پہنچا ،دہلیز کی جانب قدم اٹھایا ہی تھا کہ عزرائیل نے آ دبوچا اسے کوئی بیماری کوئی مرض کوئی درد لاحق نہیں تھا

مگر اسے اپنے تکبر نے مار ڈالا فرعون جو دعویٰ خدائی کرتا تھا اسے خدا نے سمندر میں پہلے رستہ دکھا کر اس پہ یہ واضح کیا کہ خدا تو نہیں خدا وہ ہے جو ہر شے پہ کامل قدرت رکھتا ہے پھر رستہ بند کر کے اس پہ واضح کیا کہ خود کو خدا کہنے والے تیرا اختیار تو اتنا بھی نہیں کہ تو اپنی موت کا تعین کر سکے ،وہ بد بخت ڈوب کے مر تو گیا مگر اس ملعون کی لاش کو نہ تو سمندر نے خود میں جگہ دی اور نہ ہی زمین نے تاریخ کے صفحات یونہی پلٹتے چلے گئے غرور و تکبر کی کہانیاں اس پہ درج ہوتی گئیں اور اپنے عبرت ناک انجام سے سبق چھوڑتی گئیں جنہوں نے انکے انجام سے عبرت حاصل کی,اپنی میں کی سر کش ناگن کا سر کچل ڈالا وہ سکندر ہو گئے اور جو عبرت نہ حاصل کر پائے

وہ نئے چہروں کے ساتھ فرعون نمرود شداد و ابلیس کے پیکر بنتے گئے اور اپنے بھیانک انجام کو پہنچتے گئے تاریخ یونہی خود کو دہراتی چلی گئی ,وقت گزرتا گیا اور دنیا جہالت کے اندھیروں سے نکلتی ہوئی ترقیوں کے افق پہ جا پہنچی اور گلوبل ولیج کہلائی ہر شے بدل گئی لوگوں کا رہن سہن,انداز و اطوار,سوچ ,مگر نہ بدلی تو تکبر و غرور کی عادت نہ بدلی،نہ بدلی تو اپنی میں کی زہریلی ناگن کو اپنی ہتھیلی پہ دودھ پلانے کی عادت نہ بدلی،نہ بدلی تو طاقت کے نشے میں وہ بول کہن¥ کی عادت نہ بدلی جو صرف اور صرفخداوند تعالی کی زات کو ہی زیب دیتے ہیں سائنس اپنے تجربات و مشاہدات سے دنیا کو اپنی مٹھی میں دبوچتی چلی گئی اور انوکھی چیزیں دریافت کر کے دنیا کے دل میں یہ بٹھانا چاہا کہ یہ سب صرف اور صرف سائنس دانوں کی ایجادات ہیں

لیکن اگر کوئی قرآن کے صفحات پلٹ کر دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ جسے وہ شہکار سائنس سمجھ رہا ہے وہ چودہ سو سال پہلے جب علم نا پید تھا ,خدا نے انکا زکر کر دیا تھا جہاں سائنس نے یہ سمجھا کہ وہ ہر شے پہ مکمل عبور رکھتی ہے وہاں خدا نے اسے ایسی انوکھیات سے متعارف کروایا جسے وہ بھی سمجھنے سے قاصر رہی جیسے برمودا ٹرائی اینگل یہ معمہ کبھی سائنس سے حل نہیں ہو سکا ،وادی جن اس بارے بھی سائنس کوئی حتمی فیصلہ نہیں کو پائی سائنس بھی جب جب ناکام ہوئی اپنے دعووں اور ان بڑائی کے بول کی وجہ سے ہوئی جن کی قدامت خدا کی حدوں سے ٹکراتی ہیں مثلاً ورلڈ ٹریڈ سنٹر دنیائے سائنس کا عظیم شاہکار تھا مگر پھر وہ راکھ و خاک کا ملبہ کیونکر ہوا صرف اور صرف اپنے فرعونی دعوے کی وجہ سے سائنس دانوں نے اسکی تکمیل پر کہا تھا کہ اب اگر طوفان نوح بھی آ جائے تو بھی اسکا کچھ نہیں بگڑ سکتا

اگر جہاز اس سے ٹکرائے گا تو وہ اسکی کھڑکیاں توڑ کر دوسری جانب سے نکل جائے گا اور پھر خدا نے اسے تباہ بھی جہازوں سے ہی کیا ,کہاں کی کھڑکیاں ٹوٹیں اور کہاں کے جہاز نکلے اس کی تعمیر و بناوٹ میں کوئی نقص نہیں تھا مگر اسے سائنسدانوں کے بڑے بول نے راکھ کا ڈھیر کر دیا ٹائی ٹینک کا انجام بھی کچھ کیسا ہی ہوا تھا سائنس دانوں نے کہا اسے دنیا کی کوئی بھی آفت کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی …بس یہی دعوا اسے زوال دے گیا …چشم فلک نے دیکھا کہ وہ جہاز جسے دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا وہ چٹان سے ٹکرایا اور کئی زندگیوں کا مدفن بن گیا ہاں یہی انجام ہوتا ہے سدا بڑائی کے بول بولنے والوں کا،غرور و تکبر کرنے والوں کا .کاش کے ابن آدم اس سے عبرت حاصل کر لے اور راہ راست پہ آ جائے اب زرا کچھ بڑے لوگوں کے بڑے بول ملاحظہ کیجئے گورنر جنرل غلام محمد نے اپنے غرور کے زیر اثر کہہ دیا تھا “میں ،میں ہوں “یہاں سے ان کے زوال کی ابتدائ ہوئی …کچھ ماہ بعد انہوں نے سکندر مرزا کو قائم مقام جنرل بنایا اور دو ماہ کی چھٹی پہ روانہ ہونے لگے ..

بعد میں انہوں نے اقتدار میں آنا چاہا لیکن سکندر مرزا نے ایسا ہونے نہ دیا سکندر مرزا نے بھی اقتدار کے نشیمیں وہ بوورل بول دیا جس نے بڑے بڑوں کو لمحے بھر میں شکست خوردہ کر ڈالا ،کہنے لگے “مجھ سے ٹکر نہ لینا ،میں میں ہوں “ایوب خان وزیراعظم بنے تو انہوں نے سکندر مرزا پہ اقتدار کی راہیں بند کر دیں سکندر مرزا کو برطانیہ و لندن کی سفارش حاصل ہوئی جس کی بنا پہ وہ لندن کے ہو رہے اور وہاں ایک ہوٹل میں نوکری کر کے زندگی کے بقیہ دن پورے کیے بھٹو کی قیادت میں جب ایوب خان کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو انکا ایک بیان شائع ہوا جس میں وہ بھی وہی غلطی کر بیٹھے جس سے شاہ ،گدا ہو جاتے ہیں “کل کے چھوکرے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ایوب خان بوڑھا ہونے کے بعد بھی ایوب خان ہے” بس پھر کیا تھا ان کے تکبر میں ڈوبے اس بول کی بدولت انکا بھی فسانہ تباہی تحریر ہو گیا تھا ..

ایوان صدر پہ یحیی خان قابض ہو گئے ایوب خان کو انہوں نے مستعفی ہونے کا حکم دیا اور وہ مستعفی ہو گئے اور باقی ماندہ زندگی جی سکس کے مختصر گھر میں آنسو بہاتے گزاری یحیی خان نے اپنے خلاف تحاریک کے دوران ایک خطاب میں کہا”انہیں نہیں معلوم انکا مقابلہ یحیی خان کے ساتھ ہے جس کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں “وہیل چئیر کے سہارے راولپنڈی کے ایک گھر میں اپنے دن پورے کیے اور یوں شاہ غرور یحیی خان بھی اپنے انجام کو جا پہنچے ذوالفقار علی بھٹو بھی کہا تکبر و غرور کی روایت سے بغاوت کرنے والے تھے اپنی ایک تقریر کے دوران اپنی کرسی پہ ہاتھ مارا اور کہا “میری کرسی بہت مضبوط ہے “بس انکا یہی بول انہیں زوال دے گیا انکی مضبوط کرسی کے پائے لرزنے لگے اور وہ تختہ دار پہ جا پہنچے پرویز مشرف کی بھی میں کی ناگن اچھی خاصی پلی بڑھی تھی ،قوم سے اپنے ایک خطاب کے دوران کہا “میں ایوب ہوں نہ جنرل ضیائ ،میں ،میں ہوں”انکی اس میں نے انہیں بھی کہیں کا نہ چھوڑا جلا وطنی کی سزا کاٹنے کے بعد اب اپنے ہی وطن میں جو ان کے ساتھ ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈ ھکا چھپا نہیں

صدیاں بیتی غرور و تکبر کے بے تاج بادشاہوں فرعون ،نمرود ،یزید و شداد کو اپنے عبرتناک انجام کو پہنچے ہم ان کے بارے پڑھ تو لیتے ہیں مگر عبرت حاصل نہیں کرتے ،کرتے ہیں تو صرف اتنی کے اپنی اولاد کا نام فرعون نمرود شداد و یزید نہیں رکھتے مگر میراث میں اپنی اولاد کو وہی اعمال و اطوار دیتے ہیں جن کی بدولت وہ ملعون ہوئے تھے ہم وہی اعمال و اطوار رکھتے ہوئے یہ کیسے سوچ لیتے ہیں کہ ہم اس انجام سے بچ جائیں گے یاد رکھیے قدرت کسی کورعایت نہیں دیتی وہ ہر کسی کو اس کے کئے کی سزا ضرور دیتی ہے اس کے معافی کے لئے فیورٹ ازم کا بھی کوئی conceptنہیں اس نے تو اپنے پیاروں کو رعایت نہیں دی تھی تو پھر آپ کیا چیز ہیں وہ کہتے ہیں ناں پہلے تولو پھر بولو کبھی غلطی سے بھی زباں سے بڑائی کا کوئی جملہ ادا نہ کریں یہ آپکو تباہ کر دے گا میری ایک طویل نظم کا آخری حصہ ملاحظہ کیجئے اکثر جب کبھی میں جوش و جزبے میں خود کو عظیم سمجھتا ہوں کوئی عالی شے خیال کرتا ہوں تو گرد گاروں پہ جا بیٹھتا ہوںاور سوچتا ہوںکیا ابتداء تھی میری کیا اختتام ہے

میرا بنا بھی اسی مٹی سے اور دفن بھی اسی مٹی میں تو پھر تو خاک ہوں میں ہاں یہی زات ہے میری ہاں یہی اوقات ہے میری تو میں پھر سے اپنے مرکز پہ آ جاتا ہوں اور چند لمحوں کو پر سکون ہو جاتا ہوں ہاں گہری وابستگی ہے میری گورستانوں ،گریہ زاروں اور گرد گاروں سے آپ جب کبھی کوئی طاقت حاصل کر لیں ،کسی شے میں کمال حاصل کر لیں،عبور حاصل کر لیں یا پھر کسی عمل میں ماہر ہو جائیں تو ان سب فانی چیزوں کے زیر اثر اپنی زات بارے کوئی بڑائی کا بول بولنے سے گریز کیجئے گا ،اپنی اوقات کو سوچ لیجئیے گا کہ آج آپ جس مٹی پر اکڑ کے چل رہے ہیں آپ اسی کے پیکر ہے اور کل کو اسی مٹی میں مٹی ہو جانا ہے ،یہ حقیقت ہے انسان اگر اپنی اوقات پہچان لے تو وہ کبھی بھی اپنے مرکز سے نہیں بھٹکتا اور نہ ہی انسان سے فرعون بنتا ہے اور نہ ہی پھر تکبر و غرور اور اپنے زوال کی مثالیں قائم کرتا ہے

تحریر : اریبہ بلوچ