counter easy hit

دعا منگی پر کیا بیتی ، شروع سے اب تک لڑکی کا خاندان چپ کیوں ہے ؟ اغوا ہونے کے بعد پراسرار طور پر خود گھر آجانیوالی کراچی کی لڑکی کی اصل کہانی منگی خاندان کے ایک قریبی شخص کی زبانی

لاہور (ویب ڈیسک) وہ سات دن صرف ایک خاندان کے لیے نہیں بلکہ پورے شہر کے لیے انتہائی اذیت ناک تھے۔ وہ ہر گھر بہت پریشان تھا جس میں بیٹی تھی۔ وہ سب لوگ اپنی بیٹیوں کی صورت میں اس دعا منگی کو دیکھ رہے تھے جس کو کراچی کے انتہائی پوش علاقے ڈیفنس سے اغوا کیا گیا۔

بیٹا ہو گا یا بیٹی؟ اس کا انحصار کس بات پر ہوتا ہے ؟ بڑے کام کی تحقیق

نامور کالم نگار عمر قاضی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اس وقت دعا منگی کے ساتھ اس کا دوست حارث سومرو بھی تھا۔ وہ حارث سومرو جو ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ کیوں کہ اغواکاروں نے دعا کو اغوا سے بچانے کے لیے مزاحمت کرنے والے حارث سومرو کے گلے میں گولی اتار دی تھی۔ وہ گولی گلے سے ہوتی ہوئی حارث کے پھیپھڑوں کو پار کرکے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں پیوست ہوگئی۔ گذشتہ روز ڈاکٹروں نے حارث کے جسم سے گولی تو نکال دی ہے مگر اب تک یہ کہنا محال ہے کہ حارث ایک بار پھر اپنے پیروں پر کھڑا ہو پائے گا یا نہیں۔ آئیں حارث کے لیے دل سے دعا کریں کہ خدا اس کو صحت عطا کرے اور پہلے کی طرح اپنے پیروں پر چلتا پھرتا نظر آئے ۔ کیوں کہ وہ اس شہر کا بہادر بیٹا ہے۔ جس نے اس شہر کی بیٹی دعا منگی کو اغوا کرنے والوں سے بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ دعا منگی سات دن اغواکاروں کے قبضے میں رہی۔ وہ جس اذیت سے گذری اس کے تفصیل میں لکھ سکتا ہوں۔ کیوں کہ دعا منگی میرے قریبی دوست کی بھانجی ہے۔ ان سے ہمارے خاندانی تعلقات ہیں مگر میں تین وجوہات کے باعث ان باتوں کو منظر عام پر نہیں لانا چاہتا؛ ایک تو اب تک دعا منگی کو اغوا کرنے والے مجرم گرفتار نہیں ہوئے۔ اس لیے دعا منگی کو محفوظ سمجھنا مشکل ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ

وہ اب تک ٹراما میں ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ شہر کے لوگ ایک بچی کے حصے میں آنے والے مشکل لمحات کو پڑھ کر ممکن ہے کہ تکلیف محسوس کریں۔ دعا منگی کے بارے میں دوباتیں سندھ حکومت اور کراچی میں موجود قانون نافذ کرنے والوں اورحساس اداروں کے لیے چیلینج کا باعث ہیں۔ ایک بات یہ کہ دعا منگی کو اغوا کیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ اس کی بازیابی کے لیے ہزاروں اہلکاروں نے کچھ نہیں کیا۔ دعا منگی کے خاندان نے اغواکاروں کو تاوان ادا کرکے اپنی بیٹی حاصل کی۔ دعا منگی کو اغوا کے واقعہ کو دو ہفتے گذر چکے ہیں اور ملکی میڈیا کراچی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اچھی خبر موصول ہونے کے منتظر ہیں۔دعا منگی کے اغوا ہونے کے بعد اس کی بازیابی کے لیے کوشش کرنے والے اس کے ماموں نے راقم الحروف کو ان دنوں بھی یہی کہا تھا کہ دعا کا اغوا بسمہ کی اغوا کا تسلسل ہے۔ دعا سے پہلے کراچی کے اسی علاقے سے بسمہ نامی ایک نوجوان لڑکی اغوا ہوئی تھی۔ بسمہ رواں برس کے پانچویں ماہ میں اغوا ہوئی تھی۔ وہ بارہ دنوں تک اغوا کاروں کے پاس رہی۔ بسمہ کیس میں بھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کچھ نہ کرسکے۔ بسمہ کے والد نے اغواکاروں کو ایک کروڑ سے زیادہ تاوان ادا کرکے اپنی بیٹی کو بازیاب کروایا۔

اگر گذشتہ سات ماہ کے دوراں بسمہ کو اغوا کرنے والی گینگ گرفتار ہوجاتی تو دعا اغوا نہ ہوتی۔ سات ماہ کا عرصہ تھوڑا نہیں ہوتا۔ سات ماہ کا عرصہ بہت ہوتا ہے۔ مگر سندھ حکومت کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ اب تک بسمہ کے اغوا کار قانون کے گرفت میں نہ لائے جا سکے ہیں۔ جب کہ دعا منگی کے خاندان اور پولیس کے اعلی افسران کا موقف ہے کہ دعا منگی کو اس گینگ نے اغوا کیا ہے جس نے سات ماہ قبل بسمہ کو اغوا کیا تھا۔دعا منگی کے ماموں کا موقف ہے کہ کل بسمہ اغوا ہوئی تھی؛ آج دعا اغوا ہوئی ہے؛ کل کس کی باری ہے؟ یہی تووہ سوال ہے جس بارے میں سوچ کر اہلیان کراچی کی نیند اور ان کا سکون چھن گیا تھا۔ اس وقت انہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ وہ ایک غیرمحفوظ ترین شہر کے بستے ہیں۔ ایک ایسے شہر میں جس میں بے غیرتی کی حد یہ ہے کہ بیٹیوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی معاشرہ جرم سے پاک نہیں ہے۔ جرائم ہر جگہ ہوتے ہیں مگر جرائم کے بعد مجرم پکڑے بھی جاتے ہیں؛۔ یہ ہمارا معاشرہ ہے جس میں مجرم گرفتار نہیں ہوتے۔ اس لیے خاندان عدم احساس کی گرفت میں رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مہذب معاشرے محفوظ ہوتے جاتے ہیں مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مزید غیرمحفوظ ہو رہے ہیں۔

ہم صرف تحفظ کے زوال کا سامنا نہیں کر رہے مگر ہم وہ اقتدار بھی گنوا رہے ہیں جو کبھی ہماری پہچان تھی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب مجرم صفت لوگ بھی اقدار رکھتے تھے۔ یہ بات بہت مشہور ہے کہ لوٹ مار کرنے والے ڈاکو اگر کسی ماں یا بیٹی کو دیکھتے تھے تو سارا لوٹا ہوا مال واپس کرکے معافی مانگ کر واپس چلے جاتے تھے مگر اب زوال کی حد ہے کہ مجرم بیٹیوں کو بھی نہیں بخشتے۔ ان کو معلوم ہے کہ مغوی کا خاندان بیٹے سے زیادہ بیٹی کے بارے میں فکرمند ہوتا ہے۔بیٹی ہر خاندان کی کمزوری ہوتی ہے۔ اب ہمارے معاشرے کے مجرم اس کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔آج ہم اس زوال کی حد تک گر گئے ہیں کل ہم کس زوال کی حد کو چھوئیں گے؟ معاشرہ کو بنانے والی قوت قانون ہے اور جب قانون نہیں رہتا یا قانون کا کردار ختم ہوجاتا ہے تب معاشرہ زوال کے راستے کا راہی بن کر ختم ہونے لگتا ہے۔ ہم ختم ہوتے ہوئے معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ صرف ایک بات نہیں بلکہ ایک حقیقی طور پر لمحہ فکریہ ہے۔دعا منگی تو خیریت سے گھر واپس آگئی مگر اصل سوال یہ ہے کہ اس کو اغوا کرنے والے مجرم اپنے کیفر کردار کو کب پہنچیں گے؟اس سوال پر یہ شہر سوچ رہا ہے مگر خاموشی کے ساتھ۔ یہ شہرجو شہر قائد ہے۔

یہ شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر قرار دیا جاتا تھا۔ اب اس شہر میں جرم کے سائے اس قدر گہرے ہوگئے ہیں کہ وہ بیٹیوں کو اس طرح غائب کردیتے ہیں جس طرح گھنے بادل چاند کو غائب کردیتے ہیں۔ ہم ایسے شہر کے باسی ہیں جس شہر میں ماں باپ کے ہاتھوں کی دعا محفوظ نہیں۔ دعا کی بازیابی کے لیے میڈیا اور سول سوسائٹی نے جس طرح شور مچایا وہ قابل قدر ہے۔ اس شور میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ جب کراچی کے اہم چوراہے تین تلوار پر احتجاج کرنے کے بعد میں واپس لوٹ رہا تھا تب میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں دعا منگی کی بازیابی کے لیے پریشان ہوں؟ میرے اندر سے آواز آئی کہ میں دعا منگی کے لیے بھی پریشان ہوں کیوں کہ ان سے ہمارے خاندانی دوستی ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ میں اپنی بیٹی کے بارے میں پریشان تھا۔ کیوں کہ وہ بھی دعا منگی کی ہم عمر ہے۔ آج کل وہ یونیورسٹی سے آنے میں دیر کرتی ہے تو ہم سب پریشان ہوجاتے ہیں۔ کیوں کہ ہم زوال پذیر معاشرے کے غیرمحفوظ ترین شہر کے باسی ہیں۔dua mangi, case, kidnapping, and, then, silently, her, return, to,home, family, hiding, from, the, facts

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website