counter easy hit

سقوطِ ڈھاکہ اور مزید ٹکڑوں کی دھمکی

بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے پاکستان کے دو ٹکڑے کئے، اب اس کے ایک ناہنجار وزیر داخلہ نے مزید دس ٹکڑے کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی پہلے ہی یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ بلوچستان ، آزاد کشمیر اور گلگت کے لوگوں کو حقوق دلوائوں گا، اس کا مطلب بھی وہی ہے کہ ان علاقوں کو پاکستان سے آزاد کرایا جائے گا، ان کے علاوہ بھارت کی نظر کہاں ہے، جناح پور، سندھو دیش، سرائیکی وسیب۔ تو یہ ہے منصوبہ بھارت کا کہ پاکستان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔ مودی نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ پاکستان کو تنہا کر دوں گا۔ اندرا گاندھی نے بھی پہلے پاکستان کو تنہا کیا، پھر اسکے دو ٹکڑے کئے۔ ہم نے اندرا کی سفارتی مہم کا کوئی جواب نہ دیا، آج بھی ہم مودی کی سفارتی کوششوں کا توڑ کرنے مں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے، کیسے لیں کہ ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں۔ ہماری نیت اگر یہ ہو کہ فی الواقعہ بھارت کا سفارتی محاذ پر منہ توڑ جواب دینا ہے تو پھر ہم ضرور اس منصب پر کسی کو مقرر کریں گے مگر لگتا ہے کہ پاکستان کے مفاد کی کسی کو فکر لاحق نہیں۔ اس لئے نہیں کہ ہم دل سے قائداعظم کے اس فرمان اور نظریے کو نہیں مانتے کہ ہندوستان میں دو قومیں بستی ہیں، ایک مسلمان اور دوسرے غیر مسلم، دونوں کی عبادات الگ ہیں، رہنا سہنا الگ ہے، حلال و حرام الگ ہے اور کھانا پینا الگ ہے۔ مگرہم کہتے ہیں کہ ہم بھی وہی کھاتے اور پہنتے ہیں، وہ بھی وہی پہنتے اور کھاتے ہیں، وہی زبان بولتے ہیں جو سرحد پار بولی جاتی ہے تو پھر درمیان میں لکیر کیوں۔ یہ ہے وہ فرق جس کی وجہ سے قائداعظم پاکستان بنانے میںکامیاب ہوئے اور ہم پاکستان کو بچانے میںکامیاب نہیں ہوئے اور یہی وطیرہ جاری رہا تو خدانخواستہ آئندہ بھی نہیں بچا سکیں گے، ایک سقوط ڈھاکہ دیکھا، پھر کئی سقوط دیکھنے پڑیں گے۔ اللہ اس حشر بد سے بچائے!
غضب خدا کا کہ بھارت یہ دھمکی دے اور وہ بھی دس ٹکڑے کرنے کی اور ہماری پوری قوم خاموش رہے، حکومت کے صرف دو افراد بولے، نواز شریف اور عمران کی لڑائی ہو تو فریقین کے بیسیوں افراد ایک دوسرے کے خلاف بولتے ہیں مگر پاکستان کے خلاف بھارت ہرزہ سرائی کرتا ہے تو ہمارا صرف وزیر داخلہ بولا ہے یا وزیر دفاع، اور میں ان کا شکر گزار ہوں کہ وہ بولے ا ور انہوںنے ٹھوکوئیں جوابی بیان دیئے، یہ کہا کہ مودی رہ گیا تو بھارت کے ٹکڑے گننے والا کوئی نہ ہو گا، اگر یہ لوگ جواب نہ دیتے تو قوم ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکتی۔ ایک حافظ محمد سعید ہیں جنہوں نے مودی کو للکارا ہے کہ پاکستانی قوم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ بھارت کے سو ٹکڑے کر دے گی۔ حافظ سعید بولتا ہے تو ہمیں بُرا لگتا ہے مگر پاکستان کے ٹکڑوں پر پلنے والے، بڑی توندوں والے، موٹی گردنوں والے، جُبہ و دستار والے، اچکنوں اور شیروانیوں والے اور مغربی سوٹوں والے اور بھی تو بہت ہیں جو راجناتھ کے بیان پر گنگ بنے ہوئے ہیں۔ کیا راجناتھ کے بیان پر آئی ایس آئی اس بات کا انتظار کرے کہ ان کا نیا سربراہ کام سنبھالے اور پھر اسکی اجازت سے شہر شہر راجناتھ کے پتلے جلائے جائیں، قریہ قریہ جلوس نکلوائے جائیں، یہ کام آئی ایس آئی ہی کر سکتی ہے، بھارت کو شافی جواب دینے کا ہنر اسی کو آتا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ جنرل نوید مختار ا س سلسلے میں کیا متحرک کردارا دا کرتے ہیں۔ راجناتھ کوجواب دینے کا فریضہ پاکستان مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ا ور جماعت اسلامی پر بھی عائد ہوتا ہے کہ ان کے ورکر ہر گلی محلے میںموجود ہیں اور اگر یہ سب ورکر اپنے گھر کے باہر کھڑے ہوکر راجناتھ مُردہ باد کا نعرہ لگا دیں تو اس شور سے بھارت کے کان پھٹ جائیں گے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی ا ور تحریک انصاف ایسا نہیں کرے گی، ان تینوں کو بھارت سے دوستی اور قرب عزیز ہے اور وہ گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہ ہوئے کا نمونہ بننے کے لئے تیار ہیں۔
مجھے نہیںمعلوم کہ نئے آرمی چیف اور آئی ایس پی آر کے نئے چیف کی پالیسی کیا ہو گی مگر جنرل راحیل ہوتے تو وہ اب تک بھارت کو ترنت جواب دے چکے ہوتے ا ور جنرل عاصم باجوہ ایسا ٹویٹ کرتے کہ عالمی میڈیا میں شہہ سرخیاں لگتیں، لوگ جنرل راحیل اور جنرل عاصم باجوہ کو مدتوں یاد کریں گے، ہراس لمحے یاد کریں گے جب بھارت کی طرف سے خطرناک دھمکی آئے گی۔ میرا مشورہ ہے کہ نئی فوجی قیادت اپنے پیش رووں کی سیٹ کی ہوئی پالیسی پر کاربند رہے تاکہ پاکستانی قوم کے حوصلے پست نہ ہوں اور بھارتی قوم شیر نہ ہوتی چلی جائے۔
آخر راجناتھ کو یہ دھمکی دینے کی ہمت کیسے ہوئی، کیا اسے بھی اطمینان ہے کہ جنرل راحیل چلا گیا، کیا ا سے علم نہیں کہ پاک فوج کا ہر سربراہ جنرل راحیل ہے، مگر کوئی تو رخنہ ایسا ضرور ہے کی جس کا راجناتھ نے فائدہ اٹھایا ہے، کیا اسے یقین ہے کہ اب پاکستانی حکومت کی طرف سے بھارتی جارحیت اور دہشت گردی کی کوئی مزاحمت یا مذمت نہیں ہو گی، ایسے کسی تاثر کو زائل کرنا پاکستان کی حکومت کا فرض بنتا ہے، اسے بھارت کے ذہن سے یہ خناس نکال دینا چاہئے کہ پاکستان کوئی بھارت کی باجگزار ریاست ہے، کوئی طفیلی ا ور حاشیہ نشین ریاست ہے، یا بھارت کے ٹکڑوں پر پلنے والی ریاست ہے۔ یہ بھوٹان ہے، سکم ہے نہ بنگلہ دیش نہ افغانستان کہ اس کے سامنے دم مارنے کی ہمت نہ کر سکے، اسکے سامنے خم ٹھونک کر، سینہ تان کر کھڑی نہ ہو سکے، پاکستان ایسی کمزور ریاست نہیں، یہ ایک آزاد، ہمہ مقتدر اور خود مختار ریاست ہے، یہ ایٹمی طاقت سے مسلح ہے اور اسے بزدلی کی روش پر ڈھالنا ممکن نہیں، ایں خیال است و محال ا ست و جنوں است!
دنیا کو بھی بھارت کی جارحانہ اور دہشت گردانہ پالیسیوں پر نظر رکھنی چاہئے، وہ تو ریاستی سطح پر دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے، اس نے فوج کی جارحیت سے حیدر آباد، جوناگڑھ اور کشمیر کے بڑے حصے کو ہڑپ کیا، اس نے فوجی جارحیت سے پاکستان کو دولخت کیا اور اب ایک بار پھر جارحانہ موڈ میں ہے اور دس ٹکڑے کرنے کی دھمکی دے رہا ہے، کیا دنیا پاکستان کو بھارت کی زبان میں جواب دینے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں، اگر ایسا ہے تو پاکستان سے یہ امتیاز کیوں؟ پاکستان کو بھارت کی ماتحتی میں دینے سے دنیا کو کیا مل جائے گا، کیا بھارت کو اس سے ہلہ شیری نہیں ملے گی اور وہ خلیج فارس سے لے کر راس کماری تک اپنی بلیو واٹر نیوی کی طاقت سے بالادستی حاصل کر لے گا اور مہا بھارت کو زندہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یاد رکھئے، میری اس بات کو یاد رکھئے، ہم تو بزدل بن سکتے ہیں مگر ہمارے اور بھارت کے پڑوس میں ایک طاقت اورہے اور وہ ہے چین، یہ کسی طور پر بھارت کو ایسی بالادستی مسلط کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ آپ کو اپن آزادی عزیز نہ بھی ہو تو چین کو اپنی جان کی طرح عزیز ہے، ویسے پاکستانی قوم کی غیرت کو بھی جاگنا چاہئے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website