counter easy hit

اوریا مقبول جان کے بعد ڈاکٹر اجمل نیازی نے پاکستانیوں اور امت مسلمہ کو خوشخبری سناد ی

Dr. Ajmal Niazi sends good news to Pakistanis and Umma Muslim after his popularity

لاہور (ویب ڈیسک) یہ اعلان میں کسی سیاستدان یا دانشور یا لیڈر کے طور پر نہیں کر رہا ہوں۔ اﷲ کے ایک عاجز بندے غلام محمد رسول اﷲ ﷺ کے طور پر کہہ رہا ہوں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا اور ہمیشہ رہے گا۔ ہم جنگ نہیں چاہتے مگر ہر صورتحال کے لئے تیار ہیں۔ نامور کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک حدیث میں غزوہ ہند کا ذکر بھی ہے جس میں فتح مسلمانوں کی ہوگی۔ عمران خان پہلا وزیراعظم پاکستان ہے کہ جب یوم پاکستان اور یوم کشمیر ایک ہو گیا او ریہ بہت بڑا واقعہ ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کے مخلص دانشور اور ورکر دوست ڈاکٹر بابر اعوان بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ عمران خان بھی انہیں بہت عزت دیتے ہیں۔ عمران خان اب دوستوں سے مشاورت کے بعد فیصلے کرتے ہیں اور یہ بہت اچھے فیصلے ہوتے ہیں۔ عمران نے دوستوں سے مل کر کمال کر دیا کہ یوم پاکستان کو یوم کشمیر بنا دیا۔ ایک مقبول ترین نعرہ کشمیر بنے گا پاکستان‘ مگر ہوا یہ کہ عمران خان یوم پاکستان کے دن کشمیر کا اتنا ذکر کیا کہ یہ دن یوم کشمیر بن گیا۔ میرا یہ جملہ وقت کی آواز بن گیا۔ یوم پاکستان اور یوم کشمیر ایک ہو گیا۔ اور یہ ہے بھی درست۔ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ کشمیر کے بغیر پاکستان کی تاریخ اور جغرافیہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ برصغیر کے سب سے بڑے سیاستدان اور لیڈر قائداعظم نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اس سے بڑی بات نہیں کہی جا سکتی۔ پاکستان کے نقشے کو بھی دیکھیں تو کشمیر پاکستان کا حصہ لگتا ہے۔ اس طرح یہ سیاسی زندگی مکمل نہیں ہو سکتی۔ اب سب مسلمانوں‘ سب لوگوں ‘ سب قوموں‘ سب ملکوں‘ سب بڑی طاقتوں اور سب سے بڑی طاقت اﷲ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ اب مسئلہ کشمیر کا حل ہونا چاہئے۔ اس کے بعد ہی مسئلہ فلسطین کا حل ہو گا۔ حیرت ہے کہ یہی دو مسئلے عالمی مسئلے ہیں اور ان دونوں کا تعلق مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ برصغیر پاک و ہند اور عالم عرب اور اسرائیل کے ساتھ ہے۔ اسرائیل کے ساتھ قریبی مراسم کی وجہ سے امریکہ مسلمان عرب ملکوں کے لئے اندر سے خلاف ہے اور باہر سے بھی خلاف ہے۔ امریکہ کا اندر اور باہر مسلمان دشمنی سے بھرا ہوا ہے۔ حضرت رسول کریم حضرت محمد ﷺ کے حوالے سے غزوہ ہند کا ذکر کیا۔ اس کے ساتھ مجھے یہ حدیث پاک بھی یاد آتی ہے کہ آپ نے برصغیر کے علاقے کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’مجھے ادھر سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے‘‘ یہ ہوا کبھی تو چلے گی بلکہ ابھی چلے گی۔ اس کے لئے مناسب موسم کا وقت آ گیا ہے۔ بات سوچنے کی ہے کہ حضور ﷺ نے کچھ سوچ کر یہ بات کر دی تھی۔ ورنہ دیار حجاز میں دیار ہندو پاک کا ذکر کیا اور اس کے لئے غزوہ ہند کی بات کی ہے۔ غزوہ اس لڑائی کو کہتے ہیں جس میں رسول کریم ﷺ بذات خود شرکت فرماتے ہیں۔ وہاں موجود کئی صحابیوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم بھی اس غزوہ میں آپؐ کے ساتھ شریک ہوں۔ اس پر بہت پہلے یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ کیا رسول کریمؐ کے آس پاس جو لوگ موجود ہونگے اور انہوں نے آپؐ کو دیکھ لیا ہو گا۔ وہ صحابیؓ کے مرتبے پر فائز ہو جائیں گے۔ اس گفتگو کی کوئی تفصیل میرے پاس نہیں ہے۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ غزوہ ہند ہو گا اس میں حضور رسول کریم ﷺ شرکت فرمائیں گے اور جیت مسلمانوں کی ہی ہو گی۔ اس غزوہ کے حوالے سے کیا شک ہو سکتا ہے جس میں بذات خود بنفس نفیس حضرت رسول کریم ﷺ شرکت فرمائیں گے۔ یہ برصغیر کے مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان کے لوگوں کے لئے خوشخبری ہے۔ کئی جہاں دیدہ مسلمان اور تاریخ دان یہ اندازے لگاتے رہے کہ غزوہ ہند کب ہو گا۔ جب حضورؐ نے اس سلسلے میں کوئی تاریخ نہیں دی کسی زمانے کی طرف اشارہ نہیں کیا تو کوئی دوسرا کون ہوتا ہے کہ کوئی بات کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑا اعزاز کیا ہے کہ جو کسی بھی جنگ عظیم سے بڑی جنگ ہو گی۔ اس کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہو گا۔ اسے غزوہ ہند کہا گیا اور ہند وہ علاقہ جہاں مسلمان بھی اکثریت میں رہتے ہیں بلکہ کئی مذاکرے اور مباحثے بھارت کے ٹی وی چینلز پر ہوتے ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ چند برسوں میں مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں سے زیادہ ہو جائے گی۔ مسلمان ہندوستان کے حکمران بن جائیں گے۔ تاریخ کے ابتدائی حصوں میں بھی مسلمان سارے ہندوستان پر حکومت کرتے رہے ہیں جس میں مسلمان اور ہندو دونوں شامل ہیں۔ آج بھی تاج محل ہندوستان کی سب سے شاندار اور تاریخی عمارت ہے اور یہ ایک مسلمان حکمران شاہجہان نے بنوائی تھی جو عظیم مسلمان مغل سلطنت کے پانچویں بادشاہ تھے۔ میں ان لوگوں کو بادشاہ نہیں کہتا۔ حکمران کہتا ہوں۔ ہمارے ہاں کئی حکمران بادشاہ تھے اور ہیں۔ بلکہ بادشاہوں سے بڑھ کر ہیں۔ بادشاہ کا بیٹا بادشاہ ہوتا ہے اسی طرح سیاستدانوں اور حکمرانوں کا بیٹا حکمران یا بادشاہ ہمارے جمہوری حکمران زیادہ حکمران ہیں ہمارے ہاں حکومت کے لئے آئین بھی حکمرانوں کے مقرر کردہ ’’لوگ‘‘ بناتے ہیں۔ ہم نے آئین کے مطابق کسی حکمران کو اقتدار سے الگ ہوتے کم کم دیکھا ہے۔ البتہ وہ حکمران جس بھی طریقے سے بنیں اسے آئینی طریقہ بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ایک حکمران جنرل صدر مشرف اپنے زمانے میں دو دفعہ صدر بنے تھے۔ نجانے کونسا صدر ’’پہلا یا دوسرا‘‘ آئینی تھا۔ ہمارے ہاں بظاہر جمہوری طریقے سے بننے والے حکمران کو بھی مدت سے پہلے ہٹاتے یا ہٹوانے کی کوشش شروع کر دی جاتی ہے جو اکثر کامیاب رہتی ہے۔ ویسے کہتے ہیں یعنی سنا ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں بنائی جاتی ہیں اور بنائی جاتی ہیں۔ ہمیں تو کچھ خاص معلوم نہیں ہے عام لوگوں کو اتنا پتہ چلتا ہے کہ فلاں صاحب آ گئے ہیں اور فلاں صاحب چلے گئے ہیں۔ اکثریت آبادی کو کچھ اثر نہیں پڑتا کہ کون آیا کون چلا گیا ان کے لئے یہ بات ایک ہی بات ہے۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے محنت مزدوری کرنا اور بچوں کے لئے کھانے کو کچھ لے کے جانا ہوتا ہے۔ وہ تھکے ہارے سو جاتے ہیں اور صبح اٹھ کر ’’کام‘‘ پر چلے جاتے ہیں۔ بچوں سے ملاقات کم کم ہوتی ہے۔ رات کو وہ سوئے ہوئے ہوتے ہیں صبح کو ابھی جاگے نہیں ہوتے۔ البتہ بیوی سے ملاقات ہو جاتی ہے اور اکثر لوگ اس کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ چھوٹے ملازمین کی زندگی بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو ملزم ہونے اور ملازم ہونے میں فرق نہیں رہتا۔ زندگی ازل سے اسی طرح گزر رہی ہے۔ گزرے چلے جا رہی ہے۔ لوگ بھی زندگی کی طرح ہو گئے ہیں۔ زندگی کا ایک رنگ شرمندگی ہے اور ایک درندگی ہے۔ درندگی عام لوگ اکثر لوگ کر نہیں سکتے۔ بس شرمندگی ہی شرمندگی میں جئے چلے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں ہر دن کیا دن ہوتا ہے۔ کون کہتا ہے ؟ اب تو لوگوں نے عمران کے نیا پاکستان کے لئے ایسا ہی سوچنا شروع کر دیا ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website