counter easy hit

ینگ ڈاکٹرز دہشت گرد نہیں!

فوجی حکمت عملی میں ایک معمول کی بات ہے کہ ٹارگٹ پر حملہ کرنے سے پہلے اُسے نرم یا کمزور کیا جاتا ہے۔ ٹارگٹ کو کمزور کرنے کے دو طریقے ہیں ۔ پہلاطریقہ سخت حربوں کا ہے یعنی بمباری، تخریب کاری، تفرقہ وغیرہ اور دوسرا طریقہ نر م حربوں کا ہے یعنی پروپیگنڈہ،بدنام کرنااور رائے عامہ خلاف کرنا۔انگریزی میں ایک محاورہ ہے کہ کتے کوبدنام کریں اور لٹکا دیں۔انگریزی معاشروں میں کتوں سے پیار کیا جاتا ہے اسلئے اگر لٹکانا ہوتو پہلے بدنام کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں تو جسے بدنام کرنا ہو اسے کتے سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ خیر انگریزی میںاس محاورے کا مطلب اور استعمال قدرے مختلف ہے لیکن جو مطلب بظاہر نظر آتا ہے اسکا استعمال ہم اپنی سیاسی اور سماجی زندگی میں آئے روز دیکھتے ہیں۔ پچھلے چند روز سے ینگ ڈاکٹرز کی تحریک کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، جانے کیوں یہ محاورہ یا د آ گیا۔

کسان احتجاج کریں تو دہشت گردی کے مقدمات ، مزدور احتجاج کریں تو دہشت گردی کے مقدمات، مظلوم قومیتیں احتجاج کریں تو دہشتگردی کے مقدمات، ٹیچرزیا کلرک احتجاج کریںتو دہشتگردی کے مقدمات اور اب خیر سے ینگ ڈاکٹرز کے احتجاج کرنے پر بھی وہی سزا تجویز کی جا رہی ہے جو دہشتگردوں کی ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قوم کا ہر مظلوم فرد دہشتگرد ہے اور اس قوم کو لوٹنے والے، اسکی رگوںسے خون چوسنے والے، اسکی زمینوں پر قبضے کرنے والے،اسکی دولت سے قرضے معاف کرانے والے، اسکے وسائل سے منی لانڈرنگ کرنے والے، اسکے ذرائع پیداوار کو بڑی بڑی کمپنیوں، کارپوریشنوں، اجارہ داریوں اور بلیک مارکیٹوں میں بانٹنے والے، پچھلے ستر سالوں اس ملک کی سیاست،سول و ملٹری بیوروکریسی اورنظامِ عدل کو کنٹرول کرنے والے حکمراں طبقے معزز اور دودھ کے دھلے ہیں۔یہ تو انکا احسان ہے کہ وہ اتنےـ’’ مشکل‘‘ حالات میں اس ملک کو چلا رہے ہیںلیکن یہ کروڑوں غریب کسان، مزدور، ٹیچر ، کلرک ، دور دراز پسماندہ علاقوں میں رہنے والی قومیتیں اور ینگ ڈاکٹرز جیسے طبقے ہیں کہ چلنے کوتیار ہی نہیںاور احتجاج کر کے ان معصوم حکمران طبقات کیلئے مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز کیوں احتجاج کر رہے ہیں ؟ یہ پاگل ہیں؟ تخریب کار ہیں؟ سماج دشمن ہیں؟کسی کے بہکاوے میں آ گئے ہیں؟آخر کیوں معاشرے کی یہ کریم، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے سب سے قابل بچے، دن رات محنت کر کے ایف ایس سی، ایم بی بی ایس ، ایم سی پی ایس، اور ایف سی پی ایس جیسے دنیا کے مشکل ترین امتحانوں میں پوزیشنیں لینے والے یہ نوجوان بچے اور بچیاں سڑکوں پر دھرنے دینے پر مجبور ہیں؟
پچھلے دنوں اسلام آبا دکے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں جانا ہوا۔ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال تھی۔ سینکڑوں کی تعداد میں غریب ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے مریض بیچارگی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہاں کیسے کیسے انسانیت سو ز مناظر دیکھنے کو ملے ہونگے۔یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ انسانوں کی ایک بستی میں ہو رہا ہے۔اتنے میں ایک ڈاکٹر کے کمرے کے باہر سے شور بلند ہوا ، میں بھی متوجہ ہوا۔ ڈاکٹر کمرے میں موجود تھے لیکن اندر سے کنڈی لگائی ہوئی تھی۔باہر مریضوں کی لمبی قطار میں سے ایک نوجوان غصے میں گالم گلوچ کرنے لگا، جب معاملہ زیادہ بڑھا تو اندر سے ایک ینگ ڈاکٹر باہر آیا اور اس مریض سے کہنے لگا کہ صرف گالیاں کیوں دے رہے ہو، میرا گریبان بھی چاک کرو، میرا سر بھی پھاڑو۔ اس ینگ ڈاکٹر کے لہجے اور آواز میں ایک درد تھا لیکن جو مریض غصے میں گالیاں دے رہا تھا وہ بھی تو درد میں مبتلا تھا۔مجھے وہ دونوں مجبور نظر آئے ۔ ان دونوں کا جرم یہ تھا کہ وہ دونوںمظلوم عوام سے تعلق رکھتے تھے، وہ دونوں دہشتگرد تھے ، ان دونوں پرانسدادِ دہشتگردی کا قانون لاگو ہوتا تھا۔
ینگ ڈاکٹر ز کا مسئلہ یہ ہے کہ سارے نظام بلکہ نظام کی عدم موجودگی کا بوجھ ان کے جوان کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ سرکاری اسپتال گندگی، بدبو، ٹوٹ پھوٹ ، بدانتظامی اور بد نظمی کا شکار ہیں، یہ ینگ ڈاکٹرز انہی اسپتالوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔عوام کے غریب ترین طبقے جو جوق در جوق ان سرکاری اسپتالوں میں علاج کیلئے آتے ہیں ، ان کیلئے بڑے ڈاکٹرز کا میسر ہو جانا کسی معجزے سے کم نہیں،انہیںاگر شفا نصیب ہوتی ہے تو ینگ ڈاکٹرز کے ہاتھوں ۔سرکاری اسپتالوں میں ایک انا ر اور سو بیمار کے مصداق ایک ڈاکٹر اور سینکڑوں مریض ہوتے ہیں ،انکا بوجھ یہ ینگ ڈاکٹر ہی اٹھاتے ہیں۔صحت کے شعبے کے فنڈز سب سے پہلے سیاستدان کھاتے ہیں جوصحت کے حصے کا بجٹ سڑکوں اور پُلوں پر لگا دیتے ہیں، جو آتا ہے اسکے لئے وزارتوں اور انتظامی اداروں کے بیوروکریٹس منہ کھولے بیٹھے ہوتے ہیں ، پھر بھی جو تھوڑا بہت اسپتالوں تک پہنچ جاتا ہے اسے ان اسپتالوں کے انتظامی امور سے وابستہ بڑے بڑے ڈاکٹر کھا جاتے ہیں اور ینگ ڈاکٹرز کے حصے میں آتے ہیں انفیکشن زدہ آلات،ناقص اور ایکسپائرڈ ادویات،چوبیس چوبیس گھنٹے کی لگاتار ڈیوٹیاں،قسمت اوربیماری کے مارے ہوئے غریب مریضوں کی بدتمیزیاں،سفارشی مریضوں کی ناز برداریاں اور پروٹوکول ، سچ پوچھیں تو جو تھوڑا بہت سرکاری اسپتالوں کا صحت کا نظا م چل رہا ہے وہ انہیں ینگ ڈاکٹروں کی محنت اور قربانی کی وجہ سے ہی چل رہا ہے ۔ ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتا ل کی وجہ سے اگر کوئی مریض جان سے جائے تو اسکا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں لیکن انکے لئے دہشت گردوں کی سزا تجویز کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ روزانہ ہزاروں مریض جنکی سرکاری اسپتال جانیں بچاتے ہیں انہی ’’دہشت گردوں ‘‘ کی مہربانی سے ہے۔ یہ ’’دہشت گرد‘‘ہڑتالیں کرنے پرصرف اس لئے مجبور ہیں کہ ان کے لئے اپنے پیشے، اپنی ضروریات زندگی کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں،یہ کام کرنے کیلئے انسانی ماحول کی فراہمی کا تقاضا کر رہے ہیں، یہ غریب مریضوں کی بے بسی اور بااثر مریضوں کی پروٹوکول کی بیماری کے ستائے ہوئے لوگ ہیں جو غریب مریض کی بدتمیزی اور با اثر مریض کے ہاتھوں معطل کروائے جانے سے تحفظ مانگ رہے ہیں۔یہ اولڈ (یعنی سینئر)ڈاکٹروں کے اپنے حصے کا کام نہ کرنے کے مرض سے پریشان لوگ ہیں۔اسلئے انہیں’’دہشت گرد‘‘ بنانے کی بجائے انہیں ینگ ڈاکٹرز ہی رہنے دیا جائے توبہتر ہو گا۔اور اگر حکمراں طبقے کو ترس آجائے تو ان کی جائز شکایات دو ر کرنے پر بھی توجہ دی جاسکتی ہے۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website