counter easy hit

دو چار برس کی بات نہیں (پہلا حصہ)

جنوری شروع ہوا تو یاد آیا کہ  سب سے پہلا کالم یکم جنوری 2000 میں چھپا تھا۔ اس وقت نیر علوی ایڈیٹر تھے، اور اخبار صرف کراچی سے شایع ہوتا تھا۔ کالم کے حوالے سے یادوں کے دریچے کھلتے گئے، اور بہت کچھ یاد آتا گیا۔ اس وقت ادارتی صفحے کے انچارج مرحوم شمیم نوید ہوا کرتے تھے اور ان کے معاون اطیب تھے۔ مشرف احمد پہلے سے اخبار کے لیے کالم لکھا کرتے تھے، ان کے کالم ادبی موضوعات پر ہوتے تھے۔ پھر میں بھی اخبار کا حصہ بن گئی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

یادوں کے جھروکوں میں بہت سی باتیں اور واقعات ایسے پیش آئے جنھیں بھلانا ممکن نہیں۔ سب سے پہلے تو یہ اعزاز ہمارے اخبار کو حاصل ہوا کہ میرے کالم کے ذریعے بہت سے ضرورت مندوں کی مدد ہوئی۔ ایک فیملی کا ہاؤس بلڈنگ کا قرضہ چکایا گیا، وہ لوگ آج تک دعائیں دیتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہوا کہ بعض لوگوں نے تنگ بھی بہت کیا۔ بے شمار ڈاک اور اپنے اپنے مسائل کا ذکر۔

یہ صورتحال آج بھی جاری ہے۔ لیکن میں اسی وقت قلم اٹھاتی ہوں جب یقین ہوجائے کہ ضرورت مند واقعی ضرورت مند ہے اور بدقسمتی سے سفید پوش بھی۔ بہت سارے لوگوں کی مدد ہوئی۔ لیکن جہاں بیشتر خاندانوں نے یاد رکھا وہیں ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑا جنھوں نے مسئلہ حل ہوجانے کے بعد پلٹ کر خبر بھی نہ لی۔ لیکن مجھے یا ایکسپریس کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نیکی اور بھلائی کا اجر اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ اسی لیے ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ والا محاورہ وجود میں آیا۔

ایک اور بڑی دلچسپ صورتحال سے بھی واسطہ پڑا کہ بعض کالم بعض لوگوں پہ بڑے بھاری پڑے۔ اعتراض کیا گیا کہ میں نے جن واقعات اور صورتحال کا ذکر کیا وہ ان کے بارے میں ہیں۔ مجھے یہ سن کر ہمیشہ ایک محاورہ یاد آتا ہے کہ ’’جہاں نشیب ہوگا، وہیں پانی رہے گا‘‘۔ مجھے یہ جواز سن کر خوشی بھی ہوتی تھی کہ واقعی میرے کالم معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں اور وہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ جیسے سنگدلانہ معاشرتی رویوں سے اخلاقی زوال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، انھی کی جھلک تحریر میں جھلکتی ہے۔

اس صورتحال کا سامنا طالب علمی کے زمانے میں بھی ہوا تھا، جب ایک ہمعصر روزنامے میں ’’نذر طالبات‘‘ کے عنوان سے کالم لکھتی تھی۔ اس زمانے میں صفحۂ خواتین کی انچارج سلطانہ مہر ہوا کرتی تھیں۔ میں اکثر و بیشتر ان کے صفحے پر بھی لکھتی تھی۔ ایک بار ان کے کمرے میں بیٹھی تھی، کہنے لگیں ’’کچھ لکھ کر دو‘‘ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک ہلکا پھلکا سا مضمون ’’گر تو برا نہ مانے‘‘ کے عنوان سے لکھ کر دیا، جس میں شادی کے بعد لڑکیاں جو چالاکیاں اور پھرتیاں دکھاتی ہیں، اس کے منفی اثرات پر بات کی گئی تھی۔ میکے والوں کی داماد کو دبا کر رکھنے کی پالیسی اور بیٹی کے گھر میں بے جا مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے بہت سی ایسی باتوں کا ذکر کیا تھا جو عام طور پر شادی کے بعد پیش آتے ہیں۔

یہ مضمون صفحہ خواتین پر میری تصویر کے ساتھ چھپا۔ قارئین نے بہت پسند کیا کہ یہ ہر تیسرے گھر کی کہانی ہے کہ لڑکیاں شادی کے بعد نہ صرف یہ کہ جہیز کے سامان کو کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتیں، بلکہ پہلے ہی ہفتے سے شوہر کو ماں اور بہنوں سے بدظن کرنے کا مشن سنبھال لیتی ہیں۔ یہ مشن کبھی ’’امپاسیبل‘‘ نہیں ہوتا، کیونکہ ساری ہدایات بہو کی والدہ دیتی ہیں۔ خیر جس دن یہ کالم چھپا اچانک دوپہر میں ہمارے پھوپھی زاد بھائی آ دھمکے، جن کی ایک ماہ قبل شادی ہوئی تھی۔ انھوں نے آتے ہی والد سے میری شکایت کی کہ میں نے ان کے بارے میں سب کچھ لکھا ہے، جب کہ ایسا ہرگز نہیں تھا، لیکن وہ نہ مانے۔ پتا چلا کہ ان کی بیگم مسلسل الگ رہنے کا اصرار کر رہی ہیں اور جہیز کی تمام اشیا کو فی الحال انھوں نے اپنے 12×20 فٹ کے کمرے میں بھر لیا ہے، جس سے کمرہ خواب گاہ کے بجائے شوروم لگ رہا تھا۔

اس کالم کی وجہ سے انھوں نے کئی سال ہمارے گھر قدم نہیں رکھا۔ ان کی ناراضی سے سارے خاندان کو پتا چل گیا کہ ان کی بیگم کس طرح انھیں تختہ مشق بنا رہی ہیں۔ 2006 میں لکھے گئے ایک کالم میں ان دو نمبر کے قلمکاروں کو موضوع بنایا گیا تھا جو خود نہیں لکھتے بلکہ ان کا صرف نام ہوتا ہے، لکھواتے وہ کسی اور سے ہیں۔ باقاعدہ ادائیگی کے عوض غزل، نظم، افسانہ اور کالم لکھوائے جاتے ہیں۔ اس کالم کو بھی ایک خاتون نے خود پر حملہ سمجھا اور باقاعدہ ناراضی کا اظہار بھی کیا، جب کہ مسئلہ وہی تھا کہ :

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

2006 سے لے کر تادم تحریر مسلسل کہیں نہ کہیں سے دھمکیاں موصول ہوتی رہی ہیں، لیکن فوجی حکومت کے دوران یعنی پرویز مشرف کے دور میں براہ راست کوئی دھمکی نہیں آئی، البتہ مرحوم عباس اطہرنے ’’ہاتھ ہلکا رکھنے‘‘ کا مشورہ دیا۔ یہ مشورہ مجھے اپنے موجودہ ایڈیٹر طاہر نجمی کے ذریعے موصول ہوا۔ کبھی کبھار خود عباس اطہر بھی ’’ہاتھ ہلکا‘‘ رکھنے کا مشورہ دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے ’’لیڈروں اور سیاستدانوں پہ جتنا چاہے لکھو، لیکن یہ سمجھنے والے اور سدھرنے والے نہیں۔‘‘ ایک مذہبی جماعت کی جانب سے جو ریلیاں نکال کر خود کو زندہ رکھنے کی کوشش میں خوار رہے، ان کی طرف سے صبح ہی صبح ایک عہدیدار کا فون آجاتا تھا۔

پہلے تو کالم کی تعریفیں کرتے تھے، پھر مطلب کی بات۔ ایک عہدیدار کا فون آیا اور انھوں نے کالم کے موضوع پر اور تحریر پر چند اعتراض لگائے اور ناراضی کا اظہار کیا تو ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق انھیں ٹھیک ٹھاک طریقے سے سمجھادیا اور یہ بھی ذہن نشین کروادیا کہ اگر انھیں کالم پر اعتراض ہے تو وہ اپنا اعتراض تحریری شکل میں ایکسپریس کے ایڈیٹر کو بھجوادیں، لیکن مجھے فون نہ کریں۔ اعتراض کرنا یا کالم سے اتفاق نہ کرنا قاری کا حق ہے لیکن اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ مراسلہ لکھ کر اخبار کو بھجوا دیجیے۔

(جاری ہے)

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website